ہم بلوچ ہیں ہمیں بھی پڑھنا ہے – نعیم بلوچ

640

ہم بلوچ ہیں ہمیں بھی پڑھنا ہے

تحریر: نعیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں جامعہ پنجاب میں ایک طلباء تنظیم نہیں بلکہ بدمعاشوں کا ٹولہ جسکی طرف سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوان طلباء پر بغیر کسی جواز کے تشدد کیا گیا، سن کر بہت افسوس ہوا اور یہ سن کر تو اس سے بھی زیادہ افسوس ہوا کہ بلوچستان میں بیٹھے ہوئے سیاسی و سماجی اور کچھ صحافی جو ان بدمعاش لوگوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچ طلباء پرتشدد کیا، یہ وہ بلوچ طلباء ہیں جو پسماندہ بلوچستان سے نکل کر تعلیم حاصل کرنے کے لیئے پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخل ہیں لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان طلباء کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں وہاں پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں کے اندر اسلامی جمعیت طلبہ ہو یا یونیورسٹی انتظامیہ ہو دونوں کی ملی بھگت سے یا تو بلوچ طلباء پر تشدد کیا جاتا ہے یا ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں تاکہ یہ غریب بلوچ پسماندہ بلوچستان کے طلباء قلم کو چھوڑ کر لڑائی جھگڑوں میں مگن رہیں لیکن نہیں بلوچ طلباء یہ نہیں چاہتے بلوچ طلباء پرامن ہیں اور وہ امن پسند ہیں ان کا ہتھیار قلم ہے اور ان کا دوست کتاب ہے۔

پنجاب میں بیٹھے ہوئے کچھ انتہاپسندوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا ہے کہ بلوچستان کے غریب نوجوان وہاں پنجاب کے اندر جاکر یونیورسٹیوں میں گولڈ میڈل حاصل کرتے ہیں، حسد کی ایک حد ہوتی ہے کی اگر بلوچ طلباء وہاں اپنا کلچر مناتے ہیں تو انہیں وہاں انکا کلچر منانے نہیں دیا جاتا ہے، اگر وہ کوئی تعلیمی حوالے سے پروگرام کرتے ہیں تو اسے خراب کیا جاتا ہے۔ آخر کب تک اس طرح بلوچستان کے طلباء کو پنجاب کے اندر تنگ کیا جائے گا؟ آخر کب تک پنجاب کے یونیورسٹیوں کے اندر ان اسلامی جمعیت طلبہ کے بدمعاشوں کو سپورٹ کیا جائے گا؟ جو پڑھنے نہیں آتے بلکہ تعلیمی ماحول کو خراب کرنے آتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود مختلف سیاسی جماعتیں طلباء تنظیمیں بلوچوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں، بلوچستان کے طلباء جو پنجاب میں پڑھتے ہیں وہ لاوارث نہیں ہیں، بلوچستان کے باشعور نوجوان و سیاسی رہنما ان کے ساتھ میرا بلوچستان کے ان بلوچیت کا درس دینے والے اور خود کو بلوچوں کا لیڈر کہنے والوں سے یہ مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے طالب علموں پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایوان میں آواز بلند کریں اور پنجاب حکومت کے ساتھ رابطہ کرکے اس غلط و غیر سنجیدہ اقدام میں ملوث لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کروائیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے لیے سو بار سوچیں۔

بلوچستان کے طالبعلم پنجاب میں پرامن طریقے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن نہ تو وہ ہاسٹلوں میں محفوظ ہیں اور نہ یونیورسٹیوں میں وہاں کے گنڈے جب چاہیں انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور وہاں کے بلوچ طلباء لاوارث بنے پھرتے ہیں بلوچ طلباء کو پڑھنا ہے اور آگے بڑھنا ہے ان کے تعلیم کے دروازے خدارا نہ بند کیئے جائیں، بلوچستان اسمبلی میں بیٹھے ہوئے منتخب ایم پی اے جو بلوچیت کے دعویدار ہیں، خود کو بلوچوں کا لیڈر اور رہنما کہتے ہیں خدارا وقت آ چکا ہے کہ وہ ان طلباء کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔