نوشکی کی لڑکی قتل یا خودکشی – چاکر بلوچ

1034

نوشکی کی لڑکی قتل یا خودکشی

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں نوشکی کے کلی جمالدینی میں 23 سالہ نوجوان لڑکی کی خودکشی کا واقعہ سننے میں آیا تو میں نے اہل علاقہ سے کچھ معلومات لینے کی کوشش کی جو بحیثیت معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کے حیثیت سے مجھ پر فرض تھا، ان وجوہات کو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

وہ کیا وجوہات تھیں کہ جنہوں نے صبا کو اتنا مجبور کیا کہ اس نے آخر کار اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، لفظ خودکشی کا سن کر ہم سب خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید وہ بیچاری ناسمجھ اور جذباتی تھی اس وجہ سے اس نے خودکشی کرلی۔

صباء اعظم ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی، گرلز کالج نوشکی میں بی ایس ای کی طالبہ تھی، صباء کے والدین کا اس کے بچپن میں ہی انتقال ہو چکا تھا۔ صباء کے والد نے دو شادیاں کی تھیں، صباء کی دو حقیقی بہنیں اور دو سوتیلے ہیں، صباء ہمیشہ گھر میں اپنے بھائیوں کے تشدد اور ظلم کا شکار رہتی تھی، ہر صبح صباء پر آسمان ٹوٹ پڑتا تھا، صباء کی شادی ایک منشیات کے عادی شخص سے کی جاری تھی، جس پر مقتولہ نے صاف انکار کردیا تھا لیکن صباء کا کوئی سننے والا نہیں تھا۔ صباء نے مجبور ہوکر اپنے قریبی رشتے داروں کو بھی اس بات کی اطلاع دی تھی کہ اس کی شادی ایک منشیات کے عادی شخص سے کی جاری ہے لیکن صباء کو اس کے رشتے داروں کی طرف سے کوئی ریسپونس نہیں ملا۔ وہ بلکل وہاں شادی نہیں چاہتی تھی کیوںکہ وہ ایک سنجیدہ، میچور اور تعلیم یافتہ لڑکی تھی اور ایک جاہل، آوارہ اور نشے کے عادی شخص کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گذار سکتی تھی۔ ہر کسی کے خواہشات ہوتے ہیں کہ اس کے زندگی کا ہمسفر اچھا ہو، معاشرے میں اس کا ایک اچھا سا مقام ہو، ٹھیک اسی طرح صباء کے بھی یہ سب خواہشات تو لازماً ہونگے۔

اگر ہم اپنے بیٹی یا بہن کا کہیں رشتہ کرواتے ہیں تو ان چیزوں کو باریکی سے دیکھتے ہیں کہ لڑکے کا خاندان اچھے گھرانے سے ہو، لڑکے کا اپنا روزگار ہو، اس کے رنگ نسل کاروبار سب کی معلومات لیتے ہیں۔ صباء سے یہ حق اس وجہ سے چھینا گیا کہ وہ یتیم تھی، اس کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں اگر اس کے بھائی بھی ہیں تو وہ بھی سوتیلے بھائی ہیں، صباء مجبوراً یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے زندگی کا خاتمہ کرے، کیونکہ اس کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا، شاید میں اور آپ بھی صباء کی جگہ ہوتے یہی کرتے۔

نوشکی میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، جو معصوم صباء کے ساتھ پیش آیا ہے اس سے پہلے بالکل ایسا واقعہ نوشکی کے علاقے کلی بادینی میں نائلہ نامی لڑکی کے ساتھ پیش آیا، جسے شادی سے انکار پر اس کے چچا اور اس کے کزن نے قتل کر کے ایک کنویں میں پھینک دیا تھا، مقتولہ کی لاش ظاہر ہونے پر کبھی اسے خودکشی، کبھی اسے غیرت کے نام پر قتل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن پھر سے قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ملزم گرفتار ہوئے اصل حقیقت کیا تھی وہ لوگوں کے سامنے آگیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان معاملات پر بلوچستان کے فیس بک کے دانشور، لبرل،سوشلسٹ ، فیمنسٹ خاموشی کیوں؟ ویمن رائیٹس، انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کی خاموشی کیوں؟ ویمن ایمپاورمنٹ(empowerment ) پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے والوں کی خاموشی کیوں؟

اگر اس معاملے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق دیکھا جائے تو اسلام ہمیں کیا درس دیتا ہے؟ کیا مذہب اسلام میں اپنی خواہش کو ظاہر کرنے پر پابندی عائد ہیں؟ میرا سوال ان مذہبی علماء کرام سے بھی ہے، جو مذہب اسلام کا کارڈ ہر جگہ استعمال کرکے لوگوں کو مذہب کے آڑ میں بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ضلع نوشکی جو بلوچستان کے ترقی یافتہ علاقوں میں ایک اہم ضلع سمجھا جاتا ہے جہاں کہ لوگ تعلیم یافتہ، باشعور، باعزت اور ایوانوں میں بیٹھنے ہوئے ہیں جن کا شمار قوم پرست پارٹی کے موجودہ صدر جہانزیب جمالدینی جس کی پارٹی اسلام آباد میں بلوچستان کے ظلم و زیادتی کی بات کرتے ہیں، اس کے اپنے گھر کے پاس یا اس کے علاقے میں ایسے جاہلانہ واقعات کیوں پیش آرہےہیں؟ لیکن اس معاملے پر ان کی خاموشی سوالیہ نشان ہے بلوچستان میں ظلم کی بات کرنے والے اپنے علاقے میں پیش آنے والے ایسے واقعات پر کیوں خاموش تماشائی بنے بےبس نظر آتے ہیں؟

کیا کوئی معاشرے میں ایسا شخص ابھی تک موجود ہے، جو معصوم صباء اور مظلوم نائلہ کو انصاف دلانے کی کوشش کرے؟ کیا کوئی ایسا فرد سماج میں اب تک زندہ ہے جو مزید ایسے واقعات کو روک سکے کہ کل کوئی اور معصوم بچی صباء کی طرح ظالم کے ظلم کا نشانہ نہیں بنے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔