دلجان کو پھر لوٹنا ہے – بلوچ خان بلوچ

481

دلجان کو پھر لوٹنا ہے

تحریر: بلوچ خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں سب سے آزاد سوچ و خیال رکھنے والا اور پورے قوم کے لیئے خواب آزادی دیکھنا، اپنے قوم کے ہر ایک غلام، شوان، چرواہے، مزدور کو آزادی کے اس گھڑی میں تصور کرنا اور جذبہ، حوصلہ و ہمت سے اپنے کام کو سر انجام دینا اور اپنے دھرتی کی خاطر اپنے نرم بستر کو چھوڑ کر اپنے آپ کو مقصد کے لیے وقف کرنا انتہاہی گرمی کی کھٹن بڑے بڑے دنوں اور سخت سردیوں میں دور دور تک سفر طے کرکے اپنے مقصد اور شہیدوں کے کارواں کے لیئے اپنے دن رات کو ایک کرکے محنت ومشقت سے ہر وقت سختی و مشکلات میں زندگی کو اس مشکل موڑ پر لا کھڑا کرنا بلکہ اپنے عمل و کردار سے تحریک کو خوبصورت انداز میں دنیا کے سامنےصاف، شفاف، سچائی سے پیش کرنا ایک حقیقی، مخلص و سچے ہیرو کی پہچان ہے۔

ایک ایسا ہی مہربان، مخلص، نظریہ دوست انسان، فرشتہ بن کر جب آپ کی زندگی میں آتا ہے، باقی سارے رشتوں کو بیگانہ بنا کر بے نام کردیتا ہے، نظریئے کے معنی کو حقیقی الفاظ میں ڈھال کر بیان کرتا ہے اور دنیا کے بے مقصد، بے رنگ رشتوں کو بے بسی میں بدل دیتا ہے اور مظلوم قوموں کو نیا جذبہ بخشتے ہیں، ایسے فلاسفروں کے بدولت قومیں بیدار اور مضبوظ ہوتے جاتے ہیں، جو ہر قربانی، ہر حالت کا مقابلہ کرنے کا ہمت و صلاحیت رکھتے ہیں۔

کم وقت میں ہی ایسے استادوں سے زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، کمزور سے کمزور انسان بھی زندگی کو اصل معنی میں جینا سیکھتا ہے، ایسا ہی ایک استاد ہمارے زندگی میں آیا، حوصلہ و ہمت اور برداشت، انکے چہرے کی سنجیدہ پن سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ ایک سرمچار کس بہتر طریقہ کار سے اپنے خصوصیت و قابلیت سے اپنے کام کو، اپنے کارواں و اپنے مشن کو سر انجام دے سکتا ہے۔

جب وہ یوں اچانک آپ کی زندگی میں آتے ہیں اور پھر اسی طرح اچانک آپ کے زندگی سے رخصت ہوکر اپنے خاک پر فدا ہوتے ہیں، یقیناً ایسے صدمے آپ کے زندگی میں قیامت طاری کرتے ہیں۔ دوسری طرف وطن کا ہر وہ کردار جو شہادت نوش کرتا ہے، تحریک کے لیئے اس کے گرنے والا خون کا ہر قطرہ تحریک اور اسکے کاروان کے ساتھیوں میں وہ جوش پیدا کرتا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دوست یار، اپنے یار کے بچھڑنے کے ارمان کو دل میں لیئے حوصلہ و ہمت سے اسکے کام کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسی انداز میں آگے بھڑتے ہیں، شہید امیرالملک، شہید شکور جان، شہید زبیر جان، شہید جاوید، شہید ماما شیرجان، شہید حق نواز اور کئی شہید سنگتوں کے مشن کو پوری ذمہ داری سے سر انجام دینا اور یہاں تک کہ اپنے نیندو آرام کو بھی قربان کرکے بڑے بڑے منزلوں کو پار کرکے کئی روز تک بھوکا پیاسا ذمہ داریاں پورا کرنا بھی دلجان جیسے نڈر شیر کا ہی کمال تھا۔

اپنے نئے دوستوں کے ساتھ مہر اور محبت سے خوبصورت انداز میں ملنا، محفل کرنا، انکے سوالوں کا جواب بہتر طریقے سے دینا، انکو کام کے بارے سمجھانا، انہیں گائیڈ کرنا، انکے کام کو سراہنا اور ہر مشکل گھڑی میں انکی کمک کو پہنچ جانا اور اپنے دوستوں کو انکے صلاحیت کے مطابق کام سونپ دینا دلجان ہی کا کمال تھا، وہ استاد تھا، وہ پہلی ملاقات میں دوست دشمن کو پہچان لیتا اور یہ سب صرف دلجان ہی کر سکتا تھا۔

وہ زندگی میں ہی اپنا مقام بنا گیا، وہ ٹک تیر بن کر ہمیشہ بہادری کے ساتھ دشمن کے ہر غرور کو توڑنے کی صلاحیت سیکھ چکا تھا، وہ پھر اپنے آبائی گاوں کو خون خوار بھیڑئیوں کے چنگل سے آزاد کرانے اپنے لوگوں کو ایک امید دینے اور شاہموز کے دامن کو پھر سے آباد کرنے نکل پڑا تھا اور 10 سال. بعد وہ اسی جگہ پہنچ گیا جہاں کا ہر ذرہ اسکی راہ تکتے اداس ہو چکا تھا، بوڑھی صنوبر اسے اپنے آغوش میں دیکھ کر جگمگا اٹھا تھا، ہاں وہی صنوبر جس کا ذکر دلجان اپنے تحریروں میں کرتا رہا-

میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ بابو نوروز و سفر خان اور کئی شہیدوں کی جگہ ہے، بلوچستان کے گاؤں وادی زہری میں شہیدوں کی داستانیں بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہاں سرکاری ایجنٹ و دلال اؤل دودا نے بھی بہت نام کمایا تھا، انہی سرکاری دلال، نواب و سردار اور انکے چمچوں کا جھنڈ آج بھی موجود ہے، قدم قدم پر رسک ہے اور یہاں سرداورں کا بنایا ہوا قتل غارت کا نظام بہت مشہور ہے، لوگ قصوں اور مثالوں میں بھی انکے ظلم کو یاد کرتے ہیں۔ دودا کا یہ گناہ اب انکی بے ضمیر نسلیں اسی کردار میں ادا کررہے ہیں، چند چمچے بڑے فخر سے یہاں تک قتل کرکے پھر سوشل میڈیا میں وائرل کرکے اپنی شان سمجھتے ہیں، بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے ریاست سے دلالی کی رقم حاصل کر رہے ہیں-

اب بابو نوروز کے بھی خود کے اپنے بیٹے اسی قوم دشمنی کے کھیل میں شامل ہو کر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر انکے اوپر ظلم کرتے ہیں اور اپنے باپ بھائی کے فکری دوستوں کو بھی نقصان دینے پرتلے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اسکے اپنے ساتھ بھی باقی ریاستی دلالوں کی ذاتی دوشمنی ہے، طاقت کے حصول کے لیئے کئی غریبوں پر طاقت آزمائی کرتے ہیں۔

ان جیسے قاتلوں کے سامنے دلجان نے اپنے قدم رکھے، اس ظلم کے زوال کے لیئے اپنے جان کا رسک لے بیٹھے، اور بے بس لوگوں کا یقین و امید دلجان اور انکے جہدکار ساتھی ہی تھے، آج جھالاوان کا سر زمین ایک ایسے بہادور سے محرم ہوا جو چٹان بن کر ان لوگوں کا دفاع کر رہا تھا، جو جھالاوان کو ایک اور کرن بن کر روشنی بخش رہا تھا، دلجان کو اور بھی زندہ رہنا تھا، اپنے لیئے نہیں، اس سر زمین کے لیئے، جو شہید امیر جان، شہید نثار جان، شہید امتیاز، شہید ماما شیر جان کا سرزمیں ہے، جس کے لیئے انہوں نے اپنی زندگی کی ہر خواہش و آرام کو قربان کردیا تھا، اس مشن کا سہارا اب دلجان ہی تھا۔

لسبیلہ کے ریت میں چھپے ہوئے حقیقت کو بھی نکالنا تھا، جو برسوں سے جاموں دفنایا تھا اورخضدار میں شہید سمیع مینگل، شہید خلیل جان، شہید جاوید جان اور سینکڑوں شہیدوں کے ادھورے مشن کو پایا تکمیل تک پہنچانا تھا اور وڈھ میں قائم خان مینگل اور اسد مینگل کے کاروان کو اگے لے جانا تھا، وہیں شفیق جیسے درندے کو اسکے منطقی انجام تک پہنچانا تھا، ان سب کا بوجھ اب دلجان کے کندھوں پر ہی تھا، جس نے اپنے پختہ اردے اور مضبوط حوصلوں سے انہیں پورا کرنے کا ٹھان لیا تھا۔

آج بھی دشمن اپنے نا پاک ارادوں کو اپنے چند کرائے کے دلالوں اور چمچوں سے پورا کررہا ہے اور یہاں پھر سے دلجان کو جنم لینا ہوگا، جھالاوان پکار رہا ہے، وہ مائیں بہنیں جن کے لخت جگر اس ریاست کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں، وہ باپ جس کے بڑھاپے کا سہارا کسی بے نام قبر کا نظر ہوا ہے، وہ دلجان کی راہ تک رہے ہیں، دلجان لوٹ رہا ہے، دلجان ہر بار لوٹتا رہا ہے اور اسے پھر سے لوٹنا ہوگا۔

ان سب کی دلوں کی آہیں ہی دلجان بن کر جھالاوان لوٹے تھے، ان سب کے کھوئے ارمانوں کو پورا کرنے دلجان لوٹا تھا، ان قاتلوں کا حساب کرنے ہی دلجان آیا تھا، دلجان نے جھالاوان کو پھر سے ایک امید دی تھی، اب پھر سے دلجان، امیر جان، نثار جان کو لوٹنا ہے۔

وہ سنسان خاموش گلیوں کو
ابھی تک تو منزل کا پتہ بھی نہیں

وہ تراسانی کے میدان گٹ زہری بلبل ہو
فرزندے نوروز بٹے خان ہی صحیح

شور پارود فکر ٹک تیر دلجان ہو
جان نثار حئی و نثار ہی صحیح

مکار دوشمن نے روند دیا اب امیدوں کو
گلشن کے روشن چراغ ہی تھے وہی


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔