ثناء بلوچ صاحب ظالم سے ہمدردی مگر کس بنیاد پر؟ شہیک بلوچ

597

ثناء بلوچ صاحب ظالم سے ہمدردی مگر کس بنیاد پر؟

تحریر – شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بی این پی مینگل کے رہنما اور صوبائی اسمبلی کے رکن ثنا بلوچ صاحب جو اپنے اعداد و شمار کے حوالے سے کافی مشہور ہیں لیکن سیاسی طور پر ان کا کردار کبھی بھی واضح نہیں رہا۔

گذشتہ دنوں قابض ریاست کے فوج کے لیے ہمدردی جتاتے ہوئے انہوں نے پاکستانی فوج پر حملے کو دہشتگردی سے تشبیہہ دیتے ہوئے اس کی مذمت اور مسلح افواج کے جوانوں کو شہید کا درجہ دے کر ان کے لیے بلند درجات کے خواہش کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دہشتگردی کے خاتمہ اور پائیدار امن کے لیے بھی دعا کی۔

اب اگر اس بیانیے کا تجزیہ کیا جائے کہ نیشنلزم کے دعوے کے برعکس اس طرح کے سطحی ردعمل کا کیا جواز بن سکتا ہے۔

تاریخی پس منظر میں بلوچ قومی تاریخ، بلوچ قومی شناخت، بلوچ سرزمین پر قبضہ گیریت اور عملاً بلوچ گلزمین کی تقسیم سے لے کر نوآبادیاتی پالیسیاں اور اس کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد کو نظرانداز کرکے ریاستی بیانیئے کو اپنانا کونسے نیشنلزم کے دائرہ کار میں آتا ہے، اس کی وضاحت لازمی ہے۔ جن فوجی جوانوں کے لیے ثناء صاحب ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں، وہ بلوچ گلزمین پر کیا کر رہے ہیں، اس کی بھی وضاحت لازمی ہے۔ جس طریقے سے بلوچ قوم پر جبر کیا جارہا ہے اگر اس کے باوجود بھی ثنا صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے تو ان کی سوچ پر ماتم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کے مکارانہ باتوں سے نا ہی ریاست کے فہرست میں وہ پسندیدہ قرار پاسکتے ہیں اور نا ہی بلوچ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ طاقتور اور منظم انداز میں نیشنل پارٹی نے بلوچ تحریک کے خلاف ففتھ کالمسٹ کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن آج وہ کہاں کھڑے ہیں یہ بی این پی کے لیئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ بی این پی کو بلوچ حلقوں میں اگر کوئی مقبولیت ملی ہے تو وہ انسانی المیے کے خلاف اختر مینگل کا موقف ہے وگرنہ ثنا بلوچ طرز کے سیاستدانوں کا انجام نیشنل پارٹی کی صورت میں قوم مسترد کرچکی ہے۔

آپ ایک ایسے بیانیئے کے نمائندے بن رہے ہیں، جو زمینی حقائق کے یک دم مخالف ہے۔ بلوچ سرزمین پر پاکستانی فوج امن قائم کرنے نہیں بلکہ جبر قائم کرنے کے لیئے موجود ہے، انسانی حقوق کی شدید پامالیوں اور انسانی حقوق کے بحران میں ملوث ان کے مجرمانہ کردار سے آنکھیں پھیرنا گمراہ کن امر ہے۔ بلوچ جہدکار جبر کے خلاف برسرپیکار ہیں اور امن کے اصل داعی وہی ہیں جو جبر کے خلاف عملی طور پر برسرپیکار ہیں۔ انہوں نے اپنی جنگ میں آج تک کسی بیگناہ کو نشانہ نہیں بنایا اور اپنے ہر عمل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وجوہات کو قوم کے سامنے رکھا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانی فوج نے ہر طرح کے فاشسٹ عمل سے اول تو انکار کیا پھر نہایت ہٹ دھرمی کیساتھ اپنے ہر بہیمانہ عمل کا دفاع بھی کیا، ایک فاشسٹ فوج سے ہمدردی کس انسانی بنیاد پر کی جاسکتی ہے؟

مسنگ پرسنز کے معاملے پر آپ نے مسنگ پرسنز کے لواحقین سے آج تک کوئی بھی ہمدردی نہیں دکھائی یا مسخ شدہ لاشوں پر آپ کا کوئی ردعمل نہیں آتا لیکن آپ پھر بھی نیشنلزم کے دعویدار ٹہرتے ہیں یہ کونسی نیشنلزم ہے جو اپنی دھرتی اور اپنے قوم کے بارے میں گنگ ہوجاتی ہے لیکن نوآبادکار کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔

دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سارترے نے کہا تھا “مجھے نفرت ہے ان مظلوموں سے جو ظالم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔” فرانس سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ فرانس کا الجیریا میں ہر طرح کے جبر کے خلاف تھا، یہاں تک کہ اس نے واضح طور پر فرانس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کیمپین چلایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ “اگر کوئی الجیریائی باشندہ کسی فرانسیسی کو قتل کرتا ہے تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہے۔” وہ کیوں حق بجانب ہے سارتر کہتا ہے کہ جس سطح کا جبر الجزائر میں ہوا ہے اس کے بعد یہ ردعمل بھی کافی کم پڑ جاتا ہے لیکن ہم پھر بھی انہیں مجرم نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کا ردعمل فرانسیسی فوج کے تیار کردہ حالات کے عمل کے خلاف ہے۔ یہ ہوتا ہے علم کا معیار وگرنہ اعداد و شمار سے تو کمپیوٹر بھی بھرے پڑے ہیں لیکن حق کیساتھ کھڑا ہونا ہی علم کی معراج ہے۔ آپ تو بلوچ ہوکر بھی بلوچ کیساتھ نظر نہیں آتے۔

آپ جس مفادپرستانہ سوچ کے تحت یہ سب کچھ کررہے ہیں اس کی کوئی بھی مستقبل نہیں کیونکہ اس طرح آپ خود کو ایک بازاری جنس کے طور پر پیش کررہے ہیں، جسے ریاست خرید سکتا ہے لیکن اس سے پہلے آپ یہ بھی دیکھ لیں کہ ریاست نے زرخریدوں کیساتھ کیا کیا، انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا وہ آپ کو بھی ضرورت آنے پر اسی طرح بیکار کرکے پھینک دینگے پھر آپ کے پاس ماسوائے پشیمانی کے کچھ نہیں ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔