زر پہازگ: ظلمتِ شب میں امیدِ سحر – برزکوہی

446

زر پہازگ: ظلمتِ شب میں امیدِ سحر

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

فکرو نظریئے کے اعلیٰ پیکر اور عشاقِ وطن چار یاروں نے ایسی قربانی دی کہ بلوچ مزاحمتی تاریخ کو نئی جہت بخش دی۔ انہوں نے جس سطح کے ہمت و جرت کا مظاہر کیا، اس کی نظیر شاز ہی ملتی ہے۔ انہوں نے ذات کو پسِ پشت ڈال کر، خودی و خود کو قربان کرکے قومی قرض و قومی فرض کو پورا کرلیا۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے جس طرح دشمن کو للکارا، جس حد تک قوم میں وقتی مایوسیوں، ناامیدیوں اور الجھنوں کو پرامیدی میں بدل ڈالا، اس کو شاید ہم جیسے ادنیٰ لکھاری کبھی بھی کماحقہ الفاظ میں بیان نہ کرسکیں، اگر بیان کرنے کی کوشش کربھی لیں تو انصاف کے تقاضات پرپورا اترنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

مبادا ان فدائین کے عظمت کو کماحقہ الفاظ میں بیان کرنے کی صلاحیت کی ناپیدگی کے، لیکن میں ضرور زرپہازگ آپریشن کے چند ایک اہم پہلوؤں پر اظہار خیال کرونگا۔ یوں تو اس آپریشن نے بلوچ تاریخ و مزاحمت کو جہاں قربانی کے بلندی سے روشناس کرایا اور تحریک کے دھارا کو بدل دیا، لیکن اس آپریشن کی سب سے زیادہ متاثر کن پہلو اسکی رازداری ہے۔ گوادر جیسے مکمل ہائی سیکورٹی زون میں اتنے بڑے آپریشن کی تیاری ایک دن، ایک ہفتے یا ایک مہینے میں نہیں ہوا ہوگا، اس میں ایک طویل عرصہ لگا ہوگا لیکن اس کے باوجود دشمن خود اعتراف کرتا ہے کہ اس حملے کا ہمیں کوئی تھریٹ الرٹ نہیں تھا، میرے نزدیک آپریشن زرپہازگ کا سب سے اہم، خوبصورت اور کامیابی اس پہلو میں پوشیدہ ہے کیونکہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ طاقت ور کو کمزور قوت اس وقت شکست سے دوچار کرتا ہے، جب کمزور کے پاس ایک طاقتور اور موثر طریقہ کار ہو اور موثر طریقہ کار کا سب سے اہم اور بنیادی شرط رازداری ہے، اگر رازداری نہ ہو تو پھر سمجھ لیں کچھ نہیں، گوریلاجنگ اور گوریلا طرز آپریشن بغیر رازداری کے مکمل ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ رازداری تحریکی تقاضات میں اولیت رکھتا ہے اسکی جگہ نہ مخلصی، نہ ایمانداری، نہ جرت، نہ قربانیاں پر کرسکتی ہیں۔ رازداری کے اپنے اصول و شرائط اور اپنے ہی تقاضات ہوتے ہیں، اگر وہ پورا نہ ہوں تو پھر کامیابی مشکل نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔

بالخصوص عوام بھی ہمیشہ اپنے تحفظ ذات اور تحفظ خاندان کو مدنظر رکھ کر ہی گوریلا جنگ یا تحریک آزادی کا اس وقت حصہ بنے گا، جب اس کے ذہن میں پہلا سوال رازداری ہوگا، جب وہ کسی تنظیم یا تحریک کے رازداری سے مطمئین ہوگا تب وہ اس تحریک کے کارکن یا ہمدرد بننے میں وقت نہیں لیگا۔ بغیر رازداری کے وہ کردار نبھانا اپنی جگہ وہ آپ کا حصہ ہی بننے کو تیار نہیں ہوگا، جب حصہ نہیں ہوگا پھر گوریلا جنگ میں عوامی شمولیت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

آپریشن زِرپہازگ کی مکمل کامیابی اور متاثر کن چیز اس وقت سب سے بڑھ کر اسکی رازداری ہے، دشمن کو ابھی تک اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ کیسے اور کہاں سے میرے ساتھ ایسا ہوا گوکہ اپنی ناکامی کو چھپانے اور آپریشن زِرپہازگ کی کامیابی کو زائل کرنے کی خاطر چاہے دشمن کچھ بھی پروپگنڈہ کرے، من گھڑت الزام تراشی کرے، مگر یہ واضح ہوچکا ہے کہ دشمن کو پانچ فیصد تک بھی نہ کامیابی ملی ہے اور نہ ملے گا۔ اس وقت باقی بلوچستان کو چھوڑ دیں صرف گوادر سے 50 کے قریب مرد و خواتین اور بچے زرپہازگ آپریشن کے ردعمل میں خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں، کوشش یہی تھا کہ ان سے کوئی سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ برآمد ہو، لیکن دشمن اس میں بھی ناکام نظر آتا ہے۔

بلوچ تحریک میں رازداری ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جس کی وجہ سے تحریک کئی ایک نقصانات کا سامنا کرتا آیا ہے، لیکن آپریشن اس امر کا غماز ہے کہ بلوچ تحریک ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر، جدید خطوط پر استوار ہورہا ہے۔ طویل عرصے تک اتنے بڑے پیمانے کے آپریشن کی تیاریاں کرنا، جس میں بی ایل اے کو بی ایل ایف و بی آر اے کا کمک حاصل تھا، یعنی یہ تیاریاں محض چار پانچ لوگوں کے بیچ میں نہیں تھا بلکہ اسکے پیچھے پوری ایک ٹیم تھی، اسکے باوجود رازداری کا اس حد تک سخت اہتمام ہوا کہ کسی کو بھنک تک نہیں پڑی، اس دوران ان فدائین کا اتنے بھاری مقدار اسلحہ کے ساتھ سیکورٹی حصار میں موجود گوادر کے اندر داخل ہونا اور اسکے بعد پی سی ہوٹل تک پہنچنا۔ صرف رازداری کے ہی مرہون منت تھا۔ اور ابھی تک دشمن کو اندازہ تک نہیں ہورہا کہ کہاں سے اور کس طرح اسکے ناقص سیکورٹی کا فائدہ اٹھا کر یہ فدائین ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

یہ آپریشن نا صرف خود رازداری کے بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوا بلکہ اس نے تمام تنظیموں اور جہدکاروں کیلئے مثال بھی قائم کردی کہ کیسے رازداری کامیابی کی ضامن ثابت ہوتی ہے، جس سے پورے تحریک پر مثبت اثرات ہی مرتب ہونگے۔

آپریشن زِر پہازگ کا دوسرا اہم پہلو، جو مستقبل کے حوالے سے نئی امیدیں جنم دے رہا ہے وہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے ساتھ دو اہم اور سرگرم مسلح تنطیموں بی ایل ایف اور بی آر اے کا عملاً اور بلا مشروط مدد و کمک تھی۔ اس عمل سے بلوچ تحریک کی آخری حد تک اتحاد و یکجہتی، مخلصی اور نیک نیتی واضح ہوتا ہے، میرے خیال میں اس سے بڑھ کر قربت کا اور کوئی مقام باقی نہیں رہتا ہے، ایک ساتھ ہو کر ایک ساتھ ہنستے ہوئے لڑکر موت کو قبول کرنا، یکجہتی کی یدِ طولیٰ ہے۔

بلوچ تحریک میں باہمی عدم اعتماد اور یکجہتی کی کمی ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، محض چند سال پہلے تک ان تنظیموں جو ایک محاذ پر مل جل کر جان نثار کررہے ہیں، اتنی دوری تھی کہ معاملہ جانی دشمن تک پہنچ چکا تھا، دوست و دشمن سب کسی ممکنہ اتحاد کو ناممکن تصور کررہے تھے، تحریک کے اندر کچھ انا پرست و خود پرست عناصر کسی بھی ممکنہ اتحاد کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے، لیکن شہید جنرل اسلم بلوچ سمیت بی ایل ایف، بی آر اے اور بی آرجی کے سرکردہ رہنماؤں نے اس بات کو ثابت کیا کہ ذاتی انا کو کچل کر، نیک نیتی کا ہاتھ تھام کر ان سارے دیواروں کو توڑا جاسکتا ہے جو اتحاد کے سامنے رکاوٹ تھیں۔ انہوں نے اتحاد کو نا صرف عملی طور پر ثابت کردیا بلکہ آج اسکے ثمرات ہم اپنے آنکھوں سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ یقیناً مجموعی تحریک کی کامیابی اور ان اناپرست عناصر کی شکست ہے جو ہمیشہ سے دوریوں کا باعث بنے۔

بلوچ تحریک کے اندر و باہر کچھ ایسے مایوس، نالائق اور آرام پسند عناصر موجود رہے ہیں جو اپنی کاہلی، نالائقی اور عیش پرستی کو ہیلوں و بہانوں میں چھپاتے رہے ہیں اور کئی نوجوانوں میں مایوسی پھیلانے کا بھی سبب بنے ہیں۔ ایسے عناصر کہتے ہیں کہ کچھ نہیں بچا، اگر کچھ ہوتا تو ہم کام کرتے۔ کبھی کہتے ہیں پہاڑوں میں کوئی طریقہ کار نہیں، اس لیئے ہم نہیں لڑرہے، کبھی یہ حیلہ کہ دنیا اب جنگ نہیں مانگتی ہم جنگ سے نہیں جیتیں گے تو کبھی یہ بہانہ کہ کسی بیرونی طاقت کے امداد کے بغیر لڑنا بے مقصد ہے۔ اور یہ عناصر خود کو شعور کے اعلیٰ درجات پر تصور کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فدائین جو بغیر کسی دنیاوی و آخرت کے لالچ کے بغیر خود کو قربان کرنے پر تیار ہوئے، کیا شعور کے اس اعلیٰ درجے پر فائز فدائین ہم سب سے زیادہ بہادر، باشعور، باعلم اور احساس کے مالک نہیں تھے؟ یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ با علم اور لالچ سے مبرا فدائی جو بلا غرض اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہیں، وہ ان آرام پسندوں سے کم شعور رکھتے تھے جو جنگ و جہد سے بھاگتے ہیں۔ اگر خودی کو قربان کرنا انتہاءِ شعور ہے تو پھر ہم جانتے ہیں کہ حقیقی راستہ وہی ہے جو انہوں نے چنا، نا کہ وہ جس کی وکالت شکست خوردہ عناصر کررہے ہیں۔ اگر یہ فدائین باشعور نہیں تھے تو کیسے؟ اگر تھے اور حقیقت میں تھے تو پھر ان کا شعور و ادراک ضرور یہی تھا کہ اپنی جان قربان کرکے ہی قوم اور دنیا کے سامنے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ہم ایک تھے اور ایک ہی ہونگے، اور یہ ہماری لڑائی ہے، ہم اسے جیتیں گے۔ کیا ان کا زاویہ نظر اور ادراک صحیح نہیں تھا؟ جب ان کی مخلصی، سچائی، ایمانداری، شعور، علم، بہادری اور احساس آخری انتہاء کو ہو تو اس انسان کا ادراک اور پیش بینی کبھی غلط نہیں ہوگا، وہ پرامید تھے، پر اعتماد تھے، یہاں تک پہنچ کر عملاً ثابت کردیا کہ ہم جیسے الجھنوں اور ڈگمگاتے قدموں کے شکار، خود غرضی، خوف، لالچ میں مبتلا لوگ، معمولی سے معمولی کرادر نبھانے کے لائق نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کہتے کہ ہم کچھ نہیں دیکھتے ہیں، پھر واپس یہی سوال اٹھتا ہے کیا فدائین وطن کے دیکھنے اور سمجھنے اور ادراک سے ہمارے دیکھنے سمجھنے کا معیار بلند ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔