ریاست کی تشکیل سے عہدِ غلامی تک ۔ ڈاکٹر جلال بلوچ

786

ریاست کی تشکیل سے عہدِ غلامی تک

ڈاکٹر جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

12 اگست 1947ء بروزِ جمعہ قلات میں آزادی اعلان کے ساتھ بلوچستان کا پرچم لہرایا گیا۔ اس دوران خان قلات میر احمد یار خان نے اپنے خیالات کاا ظہار کچھ اس انداز سے کیاکہ” اگرچہ میں ملک کی روایات اور قوم کے جذبات سے بے خبر نہیں رہا ہوں ،لیکن ایک بیرونی اقتدار کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا کماحقہ اظہار نہیں کرسکا۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے آج ہمارا ملک آزاد ہے اور میں آزادی سے اپنے نظریات آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہوں۔”
آزادی کا یہ سفر سات(7) مہینے اور پندرہ(15) دن کا رہا اس کے بعد بلوچ قوم کو پھر سے غلامی کی تاریک راہوں کا مسافر بنادیاگیا۔

اس مضمون میں ریاست قلات کے قیام سے لیکر زوال تک کے سفر کا چھوٹا سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔

میروانی دور حکومت:۔

وسطی ایشاء میں منگول اقتدار کے خاتمے کے بعد1410ء میں بلوچوں نے اپنی جداگانہ حکومت کا آغاز ’’سوراب ‘‘اور اس کے مضافات پہ قبضہ کرکے کیا اور’’ نغاڑ‘‘ کو مرکز بنایا۔ میروانیوں کی اس حکومت کو سب سے بڑی مشکل یہ درپیش تھی کہ منتشر بلوچ قبائل کوکمزور اقتصادی نظام کی وجہ سے کیسے یکجا کیا جاسکتا ہے۔ اقتصادی اور منتشر قبائلی نظام کے مشکلات کے باوجود انہوں نے ریاست کا انتظام چلاناشروع کیا ۔اس دوران بلوچ جہالاوان کے جدگالوں کی طاقت کو زیر کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔اب میروانیوں کی نظریں قلات پہ تھی ۔جہاں ایک سو بیس (120) سال بعد1530ء میں جب ارغونوں کو مغلوں کے ہاتھوں قندھار میں شکست ہوئی تو میر عمر قمبرانی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قلات میں ارغونوں کو شکست دیکر ریاست پہ قبضہ کرلیااور یوں پایہ تخت نغاڑ سے قلات منتقل ہوگیا۔

قمبرانی بلوچوں نے ابھی قلات میں پوری طرح اپنے قدم بھی نہیں جمائے تھے کہ رند و لاشار نے قلات پہ دھاوا بول کے میر عمر کو قتل کردیا اور یوں قلات رندبلوچوں کے زیرِ اثر چلاگیا۔

رنداور لاشاری قلات میں اپنا نمائندہ اور لشکر کا کچھ حصہ بٹھاکر باقی لشکر لیکر کچھی کی طرف کوچ کرگئے جہاں رندوں نے پہلے ڈھاڈر کو فتح کیا اور اس کے بعد سبی پہ قبضہ کرکے اسے مرکزبنادیا۔ جبکہ لاشاری گاجان کی طرف ہجرت کرگئے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد رندوں اور لاشاریوں میں ناچاقی بڑھ گئی جو بلآخر ستائیس (27) سالہ رند و لاشار جنگ کی وجوہات بنی جس کی وجہ سے دونوں طاقتیں کچھی سے ہجرت کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ رند و لاشار کی آپسی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر میر عمر کا بیٹا میربجار جو کہ مستونگ میں خواجہ خیل قبیلے کی پناہ میں تھا ،نے دوبارہ لشکر تیار کرکے قلات پہ قبضہ کرلیا۔

احمدزئی دور:۔

1666ء تک قلات پہ میروانی حکومت کرتے رہے جبکہ اس کے بعد قلات قمبرانی بلوچوں کی ایک اور شاخ احمد زئی خاندان کے زیرِ تسلط آیا۔ اس طائفے کا پہلا حکمران میر احمد خان تھا ۔ میر احمد خان نے بلوچستان میں باروزئی، مغل اور جاٹ وغیرہ کو شکست دیکر بہت سارے علاقے ریاستِ قلات کی عملداری میں شامل کرلیا۔ یہیں سے بلوچ فتوحات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو آگے چل کر نصیر خان نوری کے عہد میں عظیم تر بلوچستان کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ نصیر خان کے عہد میں بلوچ ریاست مغرب میں بندر عباس، مشرق میں ڈیرہ غازی خان ، اور شمال میں جلوگیر (کچلاک کے مضافات میں واقع ہے) اور جنوب میں ساحل مکران تک پھیل گئی۔

نصیرخان نوری کا عہد بلوچ تاریخ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جہاں انہوں نے ایک جانب بلوچ ریاست کو وسعت دی تو دوسری جانب1758ء کے معاہدے کی رو سے بلوچستان کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کی بنیاد پہ بلوچوں کی آزاد حیثیت کو روشناس کرایا۔لیکن نصیر خان کی ان کامیابیوں کے باوجود سب سے بڑی کمزوری اس کے ریاستی نظام میں نظر آتا ہے جو قبائلی شخصیات کونوازنے کی صورت میں ہم دیکھتے ہیں۔ اگر نصیر خان اپنے47 سالہ دور اقتدار میں قبائلی فوج کے بجائے ریاستی عسکری طاقت پہ توجہ دیتا تو آج یقیناً اس خطے کا نقشہ الگ تصویر پیش کرتا۔

قبائلی سرداروں کو مضبوط کرنے کی وجہ سے قبائلی نظام مضبوط شکل میں سامنے آیا جس کی وجہ سے نصیر خان کے بعد کوئی بھی حکمران ان سرداروں کی منشاء کے بغیر حکمرانی کرنے سے قاصر رہااور اگر کسی نے انہیں پس، پشت ڈالنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا۔

انگریز استعمار:۔

آنے والے بلوچ ریاست کے سربراہان بھی نصیر خان کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے ریاستی عسکری طاقت بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ آنے والے خوانین قلات چونکہ نصیر خان کے پایہ کے نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ ہر دور میں سرداروں کی سازشوں کا شکار بنتے گئے یا اپنے اعمال کی وجہ سے وہ سرداروں کے اشاروں پہ ناچنے پہ مجبور ہوگئے تھے۔ریاست میں اس طوائف الملوکی کا فائدہ انگریز سرکار نے13 نومبر1839ء میں خان محراب خان کو شکست دیکر اٹھایا۔

ہنری پوٹنگر کامشن (1810ء) پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھاجس کے بعد بلوچ وطن انگریزی استعمار کے قبضے میں جاتا رہا۔حالانکہ اس دوران بلوچ خوانین اور انگریزوں کے مابین مختلف معاہدات ہوتے رہے جن میں1854ء کا معاہدہ عدمِ مداخلت بھی شامل ہے لیکن ایسے تمام معاہدات برائے نام تھے کیونکہ آباد کار اسی پالیسی پہ عملدار آمد کرتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو۔جیسے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود برطانیہ کا غیر فطری ریاست پاکستان کا بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا۔

جغرافیائی اہمیت:۔

بلوچ ریاست کی سرحدیں ایک جانب ہندوستان ،افغانستان اور ایران، سمندر ی راستے خلیجی ریاستوں سے ملتی ہیں۔ اسی جغرافیائی حدود کی وجہ بلوچستان ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ جدید دنیا کے لیے اس خطے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب حکومت برطانیہ کی جانب سے تعینات سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے1872ء میں بالائی سندھ کے پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ کرنل فیری کے نام مراسلہ لکھا۔اس مراسلے میں ولیم میری ویدر نے دیگر طاقتوں سے اپنے حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کو واضح کردیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچ ایک ایسے خطے کے مالک ہیں جس کی جغرافیائی اہمیت حکومت برطانیہ کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس خطے کو برطانوی حکومت اس وقت محفوظ بناسکتی ہے جب یہاں کے مقامی افراد کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوں۔اگر برطانوی سرکار اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوتا ہے تو دنیا کی دیگر طاقتیں جن میں فرانس، جرمنی اور دیگر بڑی طاقتیں ہیں ان کا راستہ آسانی سے روکا جاسکتا ہے اس کے علاوہ یہ خطہ نہ صرف ہندوستان تک ایک بہترین گزرگاہ ہے بلکہ پشاور اور افغانستان تک ہمارے مفادات اسی خطے سے وابسطہ ہیں۔

سرولیم میری ویدر برطانوی حکومت کا وہ نمائندہ تھا جو بلوچستان میں عدمِ مداخلت کی پالیسی کا پابند تھا۔(عدمِ مداخلت 1854۱ء تا 1869ء تک قائم رہا) حالانکہ اب یہ پالیسی قابلِ عمل نہیں تھا لیکن پھر بھی ولیم اس پالیسی کو دوبارہ لاگو کرنے کی کوششوں میں تھا۔

خان خدائیداد خان کی سوچ:۔

ان دنوں بلوچستان میں خان خدائیداد خان کی حکومت تھی ۔خان اور سرداروں میں اختلافات کھل کر سامنے آرہے تھے جن کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خدائیداد خان ریاست قلات کے لیے سرکاری فوج بنانے کی کوششوں میں تھا ۔سرداروں کو خان کی یہ پالیسی پسند نہیں آئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح ان کی قبائلی حیثیت کمزور پڑسکتی ہے۔ اسی لیے وہ ولیم میری ویدر کے پاس گئے جہاں ولیم نے سرداروں کو غلط ثابت کیا۔ کیونکہ ولیم ہی برطانوی سرکار میں ایسا شخص تھا جو قلات کی سرکاری فوج رکھنے کے حق میں تھا۔انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اگر ریاست قلات مضبوط اتحادی ہوگا تو وہ اس خطے پہ نظر رکھنے والی دیگر طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں جس سے یقیناً برطانوی سرکار کے مفادات بھی حل ہوتے اور بلوچستان بھی ایک مضبوط پوزیشن میں آجاتا جو آنے والے دنوں میں اس کی آزادی کو محفوظ بناسکتا تھا۔لیکن سرداروں اورولیم ویدر کے علاوہ دیگر انگریزوں کی ملی بھگت سے خدائیداد خان یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا۔

غلامی طول پکڑتی گئی:۔

سرولیم میری ویدر کے مراسلے کے چار(4) سال بعد مستونگ معاہدہ ہوا۔13 جوالائی 1876ء کے معاہدہ مستونگ نے بلوچ ریاست کی آزادی کو سب سے بڑا دھچکا لگایا۔ اس معاہدے کے بعد انگریز بلوچستان میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور انگریزوں کی یہ حکمت عملی فارورڈ پالیسی کے نام سے مشہور ہوگئی۔جس نے نہ صرف آنے والے دنوں میں بلوچ ریاست کے خوابوں کو چکناچور کیا بلکہ بلوچ قوم آج تک اس کی سزا آج تک بھگت رہی ہے۔کیونکہ اس معاہدے میں انگریزوں نے سروان، جہالاوان، بیلہ اور خاران کے سرداروں کا خان قلات سے تصفیہ کرکے اور آنے والے دنوں میں مزید ثالثی کا عندیہ دیکر بلوچ قومی ریاست کو برطانوی ہند کے ماتحت رکھنے کے در کھول دیے۔

1870 کے ء معاہدہ گنڈمک کے بعد بلوچستان کی سرحد سے متصل کئی افغان علاقے حکومت برطانیہ کے ہاتھ آئے ۔ان علاقوں کے ساتھ بہت سے بلوچ علاقے جن میں سبی، مری ،بگٹی اور کھیتران علاقوں کے ساتھ کوئٹہ پہ مشتمل برطانیہ نے18 نومبر1887ء رمیں ایک قرارداد کے ذریعے نیا صوبہ برٹش بلوچستان کے نام سے قائم کرکے برٹش ہند میں شامل کرلیا۔یوں فارورڈپالیسی کے تحت بلوچ ریاست کی پہلی جغرافیائی تقسیم ممکن ہوئی۔

بلوچستان کے ان علاقوں میں مداخلت کے بعد1890ء میں سنڈیمن نے مکران کا رخ کیا اور مکران میں بھی برطانوی فوج کا ایک دستہ میجر میؤر کی سربراہی میں تعینات کیا۔ یوں حکومتِ برطانیہ کی عملی مداخلت مکران تک ممکن ہوگئی۔بلوچستان حکومت(ریاست قلات) تو مستونگ معاہدے کے بعد برائے نام تھی جس نے مکران تک انگریزوں کو اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔

پہلی جنگ عظیم:۔

دنیا میں طاقت کی رسہ کشی جاری تھی جس سے ان بڑی طاقتوں کو جنہوں نے دنیا کو نوآبادیات میں منقسم کیا تھا انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ دنیا کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے ۔ برطانیہ چونکہ اس خطے پہ حکمران تھا لہٰذا اس نے اپنی عسکری پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے عملی اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کررکھا تھا جس کی بنا اس نے بلوچستان کو مکمل طور پہ اپنے قبضے میں کرلیا۔ یہ وہ دور تھا جہاں اب تک بلوچستان کے معدنیات دریافت نہیں ہوئے تھے فقط جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ایسے اقدامات سامنے آتے گئے ۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعداس وقت بلوچستان کی اہمیت بڑی طاقتوں کے لیے مزید اہمیت اختیار کرگیا جب معدنیات کی دریافت ہوئی۔اس حوالے سے فاروق بلو چ اپنی کتاب ”بلوچ اور ان کا وطن ”میں رقم طراز ہے کہ” 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے بلوچستان کی علاقائی اور جغرافیائی اہمیت مزید بڑھادی اور برطانیہ کی اس اہم ترین فوجی چوکی اور وسیع نوآبادیات پر قبضے کے لیے روسی، جرمن اور فرانسیسی خطرہ بڑھ گیا۔ معدنیات کی دریافت اور طویل ساحل سمندر نے بلوچستان کو سپر پاورز کے لئے موت و زیست کا مسئلہ بنالیا۔”

باکو کانفرنس:۔

پہلی جنگِ عظیم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی معاشی نظام کو بُری طرح متاثر کیا جس سے فائدہ اٹھا کے دنیا کے محکوم اقوام اپنی آزادی کی تحریکوں میں جدت لانے کی کوششیں کرتے رہے جس سے ان کا سیاسی نظام جدید خطوط پر استوار ہونے لگا۔ یہ وہ دور تھا جہاں روسی انقلاب کامیاب ہوچکا تھا اور دنیا میں ایک نیا معاشی نظام (سوشلزم) وجود میں آچکا تھا۔ اس نظام کی کامیابی کی وجہ سے محکوم اقوام کی نظریں سوشلسٹ قیادت پہ مرکوز ہوگئیں اسی سلسلے میں روس نے دنیا کے محکوم اقوام کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی۔

1920ء میں آذربائیجان کے دارلخلافہ ’’باکو‘‘ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں ترکی ،ایران، مصر، ہندوستان، افغانستان ، بلوچستان ، چین، جاپان، کوریا، فلسطین، عریبیہ اور سویت وسطی ایشیاء کے ایک ہزار آٹھ سو اکانوے (1091) نمائندوں نے حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں بلوچستان کی نمائندگی پانچ رکنی وفد کے ساتھ مصری خان کھیتران نے کی جہاں اس کانفرنس میں بلوچستان کا نام ایک ملک کی حیثیت سے شامل تھا۔

باکو کانفرنس کے بعد بلوچستان کے شرکاء کابل آئے اور انہوں نے بلوچستان میں سوشلسٹ پارٹی کے قیام کی کوششیں شروع کردیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ سویت انقلاب میں سوشلسٹ پارٹی کی کامیابی میں صنعتی مزدوروں کا نمایاں کردار رہا ہے جبکہ بلوچستان میں کوئی صنعت موجود نہیں۔ اگر بلوچستان کا وفد اپنی توجہ سوشلزم کی بجائے نیشنل ازم پہ مرکوز رکھتے تو بلوچستان میں انہیں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوتی اور اس کے اثرات ان محکوم اقوام پہ بھی پڑھتے جن کے ہاں صنعتی رجحان نہ ہونے کے برابر تھا ۔لہٰذا اس کانفرنس کے شرکاء ابہامی کیفیت کی وجہ سے ہی کوئی سوشلسٹ جماعت بنانے میں کامیاب ہوئے اور نہ ہی قوم پرستی کے فروغ کے لیے سیاسی راہ ہموار کی۔

ادارتی سیاست:۔

(الف)انجمن اتحاد بلوچاں:۔

1920 ء میں پہلی بلوچ سیاسی تنظیم ینگ بلوچ کے نام سے میر عبدالعزیز نے قائم کی۔ تنظیم کی کاروائیاں وقت و حالات کی وجہ سے خفیہ رکھے گئے تھے۔اسی عشرے میں میر عبدالعزیز کرد اور نواب یوسف عزیز مگسی کی ملاقات ہوئی دونوں ہستیوں میں سیاسی سوچ کی ہم آہنگی نے انہیں مزید قریب لایا جس کے سبب ینگ بلوچ ، انجمن اتحاد بلوچاں میں ضم ہوگیا جو اب کھلے عام اپنے موقف کا اظہار کررہاتھا۔انجمن اتحاد بلوچاں سے اس دوران بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ وہ بلوچ اقتدار کی جنگ میں اعظم جان کو خان قلات مقرر کرنے کی کوششیں کیں۔اگر وہ اپنی تمام تر توجہ بلوچ عوام پہ مرکوز رکھتے تو ممکن تھا کہ موروثی اقتدار کا خاتمہ ہونے کے اسباب پیدا ہوجاتے اور اقتدار کاجمہور کے ہاتھ آجاتا ۔ان کے اس عمل سے حکومتی نمائندوں میں ان کے مخالفین بھی پیدا ہوگئے جن میں قلات کا وزیراعظم شاہ شمس قابل ذکر ہے جنکے اعظم جان کے ساتھ ذاتی عداوت تھی اس کے علاوہ شاہ شمس کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ بلوچ قوم میں جدید سیاسی سوچ پروان چڑھے ۔میر عبدالعزیزکرد اور یوسف عزیز مگسی کا یہ خیال تھا کہ جب اعظم جان خان مقرر ہوگا تو وہ جدید سوچ کو لے کر آگے بڑھے گالیکن یہ ان کی خام خیالی تھی ۔جب انجمن اتحاد بلوچاں کی کوششوں سے اعظم جان ’’خان قلات‘‘ مقرر ہوا تو اپنے وعدوں سے جو انجمن اتحاد بلوچاں کے ساتھ کیے تھے ،مکر گیا۔ حتیٰ کہ میر عبدالعزیز کرد جنکا بلوچ سیاسی تاریخ میں ایک بلند مقام ہے اسے دھمکی دی کہ آئندہ وو اپنی ان حرکتوں سے باز آجائیں یعنی کہ بلوچ سماج میں جمہوری سوچ جس کا پرچار انجمن اتحاد بلوچاں کررہاتھا۔

اعظم جان کی اس دھمکی کا میر عبدالعزیز کرد پہ کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے متحرک کرنے کی کوششیں جاری رکھا اس حوالے سے انہوں نے لاہور سے روزنامہ آزادی کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا۔وہ اکثر اپنے قلم کے زور پہ نوآبادیات سے بلوچستان کی آزادی اور مستجار علاقوں کی واپسی کے علاوہ بلوچستان میں منتخب جمہوری حکومت کی بات کرتے تھے۔

میر عبدالعزیز کرد کے مضامین جو بلوچ اور بلوچستان کی حیثیت اور قابض کی پالیسیوں کو عوام کے سامنے افشاں کررہے تھے۔ اس سے نو آبادیاتی حکمران اور ان کے ہمنواؤ ں کا سیخ پاء ہونا فطری عمل تھا۔ جس کی وجہ سے میر عبدالعزیز کرد گرفتار ہو کے تین سال کی سزا کا مستحق قرار دیئے گئے۔میر عبدالعزیز کی گرفتاری کے کچھ عرصے بعد نواب یوسف عزیز مگسی بھی کوئٹہ کے زلزلے میں شہید ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی انجمن اتحاد بلوچاں بھی زوال پذیر ہوگیا۔

(ب) قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی:۔

میر عبدالعزیز کرد کی گرفتاری اور نواب یوسف عزیزمگسی کی کوئٹہ کے زلزلے میں شہادت کی وجہ سے انجمن اتحاد بلوچاں کا سیاسی عمل اختتام پذیر ہوچکا تھا ۔ان حالات میں بلوچ سماج میں اور کوئی ایسا قابل ذکر ہستی نظر ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آزادی کے کارواں کو منزل کی جانب لے چلے ،تا آنکہ میر عبدالعزیز کرد کی 1936ء میں جیل سے رہائی ممکن ہوئی ۔ میر عبدالعزیز کرد جو کہ فطرتاً ایک سیاستدان تھے اسے اس کے اسی روش نے دوبارہ بلوچ قوم کو منظم کرنے کی جانب اکسایا جہاں5 فروری1937ء کو میر گل خان نصیر اور ملک فیض محمد یوسف زئی کے ساتھ ملکر قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی قائم کی۔

پارٹی درج ذیل مقاصد کے تحت جد و جہد کرنے لگا کہ ریاست قلات میں ذمہ دار حکومت کا قیام ، بلوچ علاقوں کا جنہیں ریاست قلات سے الگ کردیا گیا تھا ریاست قلات میں شامل کرنا، تعلیمی ، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لیئے آئینی جد و جہد کرنا۔

قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے جب ہم منشور کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں جدید سوچ اور قوم پرستانہ جذبہ اور حب الوطنی کی مہک دکھائی دیتی ہے۔ منشور میں یہ واضح تھا کہ کسی قوم کا سرمایہ افتخار تین باتوں پر منحصر ہیں۔ پہلا یہ کہ قوم کا نسلی عظمت اور روایات شاندار ہوں،دوسرا یہ کہ اس کی حکومت منظم، مہذب اور شائستہ ہواور تیسرا یہ کہ وہ آزاد اور خود مختیار ہو۔

اسی نظریے کی بنیادپہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے اپنی جدوجہد جاری رکھا اور بلوچستان کو موجودہ حالات کے سانچے میں ڈالنے کی کوششیں کرتا رہا۔ تا کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان ایک جدید اور آزاد ریاست کے طور پر خود کو منواسکے۔لیکن بلوچ سماج میں صدیوں سے چونکہ روایتی طرزِ حکمرانی تھی جہاں قوم سے زیادہ چند نام نہاد افراد(سردار وں) کو اہمیت دی جاتی تھی ۔ لہٰذا اس جدید طرزِ سیاست سے ان عناصر کا خوفزدہ ہونا فطری عمل تھا جس میں ان کی انفرادی حیثیت کا خاتمہ ممکن تھا۔ یہی وجہ ہے سماج میں موجود اس طبقے نے کبھی بھی جدت کو نہیں اپنایا بلکہ ہر وقت اس کی حوصلہ شکنی کرتے رہے جس کی جھلک ہمیں بعد میں منعقد ہونے والے بلوچستان کے الیکشن میں نظر آتا ہے جہاں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے باوجود بھی اگر ہم اس الیکشن کے نتائج کو دیکھیں تو52 میں سے39 نشستوں پر قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے اراکین جو آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے تھے کامیاب ہوتے ہیں ۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر بلوچ قوم میں جدید سیاست مقبول ہوچکا تھا اور وہ فرسودہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے اکثر کارکنان اگر چہ انڈین نیشنل کانگریس سے متاثرتھے لیکن وہ بلوچستان کو ایران اور افغانستان کی طرح ایک علیحدہ وطن خیال کرتے تھے۔ اسی لیے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے ہندوستانی تحریکوں سے ہٹ کر خالصتاً قوم پرستی کی بنیاد پر جد و جہد شروع کیا۔ جس کا محور بلوچ اور بلو چستان تھے ۔تنظیم کے چیدہ ارکان بلوچستان میں وقت و حالات کے مطابق منظم انداز میں سیاست اور سیاسی تبدیلی لانا چاہتے تھے جس سے قومی تعمیرو ترقی کے دروازے قوم کے لیے کھل سکتے تھے۔
اگر ہم قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی اور ان کے ذمہ داران کی گفت و شنید کا جائزہ لیں تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی قومی آزادی اور قومی ریاست کی تشکیل کا خواہاں تھا جس کے گواہ عبدالعزیز کرد جو کہ پارٹی کے صدر تھے کہتے ہیں کہ “میں آپ سے اتنا عرض کرنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ آپ برطانیہ کی پوزیشن کو بلوچستان میں اچھی طرح پہچان لیں۔آپ کو اس کا جائزہ ہندوستانی سیاست کے نقطہ نگاہ سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ سرزمینِ ایشیاء میں اپنے وطن کی اہمیت کو مدِ نظر رکھ کر آپ کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت اپنے مقامی حالات کے تحت قائم کرنا چاہیے ۔ ہندستان یا کسی خارجہ ریاست کی تقلید ہر گز نہیں کرنی چاہیے ۔” عبدالعزیز کرد چونکہ ایک تجربہ کار سیاسی رہنماء تھا جنہیں ہم جدید بلوچ سیاست کا جدِ امجد بھی کہہ سکتے ہیں جنہوں نے یوسف عزیز مگسی سے بھی قبل بلوچ قومی تحریک کو جدید سیاسی خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ انہی تجربات سے گزرتے ہوئے وہ اس اس نتیجے پہ پہنچ چکے تھے کہ بلوچستان اور ہندوستان کے سیاسی ڈھانچے میں فرق ہونا چاہیے نہ کہ ہم بلوچستان میں ہندوستانی طرزِ سیاست یا انڈین نیشنل کانگریس کے طریقہ کار کے مطابق کام کریں۔انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ ہندوستان ایک کثیر القومی خطہ ہے اس لیے وہاں خالص قوم پرستی کے سیاسی نظریے کے مطابق مقاصد کا حصول ممکن نہیں جبکہ اس کے برعکس بلوچستان جس کا اس دور میں آپ نے نقشہ بھی پیش کیا تھا جس کے طول و عرض میں بلوچ ہی آباد تھے ۔ البتہ ایک کوئٹہ اور اس کے گرد ونواع یا سبی میں ایک کثیر آبادی پشتونوں کی آبادتھی۔ اس کے علاوہ دیگر اقوام جیسے کوئٹہ کا ہزارہ برادری اور نصیر آباد اور خان گڑھ میں سندھیوں کی آبادی ۔ لیکن پورے بلوچستان کو اگر دیکھا جائے تو غیر بلوچ آبادی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اسی لیے اس خطے میں جہاں ایک ہی قوم کے باشندے ہزاروں سالوں سے رہائش پذیر ہونے کے ساتھ صدیوں حکمرانی بھی کی ہوں تو ان کے لیے فقط قوم پرستی کا سیاسی نظریہ ہی کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے اگر یورپ کو دیکھا جائے جو کہ ترقی کے بلندیوں کو چھورہی تھی قوم پرستی کے نظریے کو فروغ دینے کی وجہ سے ہی وہ اس قدر کامیاب ہوئے ۔

جمہوری سیاست کا امین قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی بلوچستان میں وہ کردار ادا نہیں کرسکا جو انڈیا میں کانگریس کے حصے میں آیا۔ حالانکہ بلوچ قوم کی اس پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد بھی اس کے نمائندوں نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی۔ یقیناً اس میں فقط سیاسی اندازسوچ کا عمل دخل تھا اگر وہ بلوچ سماج کی ذہنیت کے مطابق مسلح جد وجہد کے لیے بھی تیار رہتے تو حالات یکسر بدل جاتے۔جیسے میر عبدالعزیز کرد نے کہا بھی تھا کہ ہمیں کانگریس کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے اس سے تاثر ملتا ہے کہ وقت آنے پر میر عبدالعزیز مسلح جدوجہد کے لیے بھی تیار تھے جیسے بعد میں وہ پارٹی قائدین سے ناراض ہوکے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم:۔

دوسری جنگِ عظیم نوآبادیات کے لیے آزادی کی نوید ثابت ہوئی بڑی طاقتیں آپس میں ٹکراکراس حد تک کمزور ہوگئے کہ ان کے لیے اب نوآبادیات پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔ لہذا دوسری جانب جنگِ عظیم کے خاتمے پر دسیوں آزاد ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح بلوچستان کو بھی آزادی ملی لیکن پاکستان کے نوزائیدہ مملکت کے اختیار دار یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایشیاء کے نقشے پر بلوچستان کی سیاسی اور جغرافیائی محل وقوع کس نوعیت کی ہے؟

بلوچستان کی آزادی کے لیے خان قلات کی جناح سے مشاورت:۔

جناح نے کہا کہ آپ وہی کام کررہے ہیں جو مسلم لیگ اور کانگریس کرنا چاہتے ہیں۔مگر ہم میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ ہم سیاسی لیڈر ہیں اور آپ ایک قومی حکمران۔

یہاں جناح کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے خان قلات کو ایک قومی حکمران تسلیم کرلیا تھا جس سے مراد ایک ریاست کا باقائدہ حاکم۔

ایک اور جگہ جناح نے بلوچستان کی اہمیت یوں بیان کیا ہے کہ
آپ کا ملک سیاسی ،جغرافیائی اور اقتصادی نقطہ نظر سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا میں ایک اہم ترین خطہ ہے۔
جناح کی ان باتوں سے واضح پیغا م ملتا ہے کہ اتنی اہمیت کے حامل خطے کو ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں لہٰذا بلوچستان کو اپنے قبضے میں لانے کی خواہش جناح کو شروع دن سے ہی رہی ہے۔جس کا اظہار جناح جیسے مکار نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ
میں آپ کو واضح الفاظ میں یہ بتانے والا ہوں کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ تمام اسلامی ممالک ،اسلامی اصولوں کے مطابق ایک فیڈریشن کی صورت میں آپس میں متحد ہوجائیں گے۔اس میں سب اہم ترین حیثیت جس قوم اور ملک کو حاصل ہوگی وہ بلوچ اور بلوچستان ہے۔

اس سوچ کو مزید پروان چڑھانے کے لیے کہتا ہے کہ آپ مسلم لیگ کو بلوچستان میں منظم کریں ۔
آزاد بلوچ ریاست کو مسلم لیگ کی کیا ضرورت پیش آنے والی تھی ۔یہ جناح جیسے مکار کی وہی پالیسی تھی جس کے لیے برطانوی سرکار اسے شئے دے رہے تھے جیسے4 اگست1947ء کو نمائندہ تاج برطانیہ کی زیر صدارت نئی دہلی میں کانفرنس ہوئی ۔اس کانفرنس میں وائسرائے ہند کے قانونی مشیر لارڈ ازمے ، خان قلات، لیاقت علی خان، محمدعلی جناح، وزیر اعظم قلات محمداسلم خان اور قانونی مشیر سلطان احمد بھی شریک تھے ۔اس کانفرنس کے نتائج گیارہ اگست 1947ء وائس رائے ہاوس نئی دہلی سے نشر ہوئے ۔جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان ،ریاست قلات کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرتی ہے، جس کے تعلقات حکومت برطانیہ سے رہے ہیں اور اس کی حیثیت باقی ہندوستانی ریاستوں سے مختلف ہے۔

یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس قرادر داد کے دیگر شقوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برطانیہ پاکستان کو اس سارے خطے کا چوکیدار مقرر کرنے والا تھا۔ جیسے اس قرارداد میں یہ لکھا ہے کہ اس سلسلے میں قانونی مشاورت حاصل کیا جائے گا کہ آیا حکومت برطانیہ اور حکومت قلات کے درمیان مستجار علاقوں کے متعلق کیے ہوئے اقرار نامے پاکستان کو وراثتاً منتقل کیئے جاسکتے ہیں کہ نہیں؟ حالانکہ برطانوی سرکار کی ایکٹ آزادی کے دفعہ 7کی رو سے تمام معاہدات از خود ختم ہوجاتے ہیں اور وہ خطے جن پہ قبضہ کیا گیا تھا انہیں ان کی سابقہ حیثیت میں مل جائے گا۔ لیکن پھر بھی اس غیر قانونی عمل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے جو برطانوی حکومت کے لیے سیاہ دھبہ ہے۔

اس سے یقیناً اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ برطانوی سرکار نہ صرف ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہا بلکہ افغانستان کو تقسیم اور بلوچ قوم کو پاکستان کی غلامی میں دینے کے اسباب بھی مہیاء کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے حکومتِ برطانیہ کی جانب سے گیارہ (11)اگست اور بلوچستان کی جانب سے 12 اگست کا اعلانِ آزادی فقط سات ماہ اور پندرہ دن تک رہا۔

جناح بلوچ ریاست کے ایوان میں:۔

جب بلوچوں نے ہر حال میں اپنی قومی ریاست کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا تو جناح جیسا مکار اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچستان کا رخ کیا جہاں5۱ فروری1948ء کو جناح نے ڈھاڈر میں خان قلات سے ملاقات کرکے بلوچ ریاست کو پاکستان جیسے غیر فطری ملک میں شامل کرنے کی تگ و دو کی ۔اس دوران میر احمدیار خان نے اسے پارلیمنٹ کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی بے اختیاری کااظہارکیا۔کیونکہ بلوچ ریاست کے دونوں ایوانوں نے بھاری اکثریت سے الحاق کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ 21 فروری1948ء کو بلوچ ریاستی پارلیمنٹ کے دارلعوام کاپھر اجلاس ہوا جس میں الحاق کے مسئلے میں بات چیت ہوئی لیکن اس غیر فطری الحاق کی تجویز کو پھر مسترد کیا گیا۔جس سے مایوس ہوکر جناح نے ریاست قلات کے معاملات کافائل دفترخارجہ کے حوالے کیااور اس بارے میں9 مارچ1948ء کو ایک مراسلہ کے ذریعے خان قلات کو آگاہ کیا۔

جناح کی ہٹ دھرمی اور جبری الحاق تاریخ کاسیاہ باب بن چکا ہے جہاں جناح برطانوی نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک قلات الحاق نہیں کرے گا مستجار علاقوں کے متعلق گفت و شنید نہیں ہوگی۔اس مکار وکیل نے ایک جانب مسلم لیگ کو ہندوستان میں مستحکم کرنے کے لیے ریاست قلات کے سامنے دامن پھیلایا جہاں اس پہ سونے اور جواہرات کی بھرمار ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ احسان فراموش اپنے ہی محسنوں کو غلامی کے دلدل کی نظر کرنے میں سبقت لے جاتی ہے۔

بلوچ قوم کی غلامی اور برطانیہ کا کردار:۔

میرگل خان نصیر قلات کے وزیر خارجہ مسٹرڈی ، وائی، فل کی 14 دسمبر1947ء دیوان سے گفتگو کو اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ ’’ریاست قلات ایک خاص قسم کی ریاست ہے ، دوسری ہندوستانی ریاستوں کی طرح نہیں۔ہندوستان کی ریاستوں میں مختلف اقوام آباد ہیں ۔لیکن ریاست قلات میں ایک ہی قوم بلوچ آباد ہے اور اسی کی حکومت ہے۔اگرچہ یہ ملک ہندوستان کی سرحد پہ واقع ہے لیکن یہ کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔جس پر ہزہائی نس نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا قلات کی پوزیشن کو ہندوستانی ریاستوں سے جداگانہ تسلیم کیا جائے ۔وائسرائے ہند کی جانب سے خان کو جواب ملا کہ تعلقات مابین قلات و برطانوی حکومت وہی رہیں گے جو عہد نامہ 1876ء (عہد نامہ مستونگ) درج ہیں۔‘‘یعنی کہ وہ مستجار علاقے جیسے بیلہ، خاران و مکران بلوچستان کا حصہ ہی رہیں گے۔
مسٹر فل مزید کہتا ہے کہ ’’ جو علاقے برطانوی حکومت کے وقت قلات سے نکل گئے تھے ، لازمی طور پر آزادی کے بعد قلات کو ملنے چاہئیں۔ ‘‘

وائسرائے ہند اور مسٹر جناح سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر فل کہتا ہے کہ’’ جولائی 1947ء وزیر اعظم قلات کو دہلی بلایا گیا ۔انہوں نے دہلی میں گفت و شنید کی با لآخر نتیجہ یہ نکلا کہ قلات آزاد ہوگیا۔ خیال تھا کہ ایکٹ آزادی کی دفعہ 7کی رو سے تمام ایسے معاہدات جو برٹش حکومت اور ہندوستانی ریاستوں میں تھے ختم ہوگئے، ایسے معاملات کے ختم ہونے سے وہ معاملات بھی ختم ہوجاتے ہیں جو کوئٹہ، نوشکی، نصیر آباد اور بولان کے متعلق کیے گئے تھے۔‘‘قانوناً ان علاقوں کو ریاست قلات کا حصہ ہونا چاہیے۔ مزید وہ کہتا ہے کہ قلات کو اب تک آزادی کا اعلان ملا ہے مستجار علاقے نہیں۔‘‘

برطانوی سرکار کا یہ دہرا کھیل جس میں قانون کی دھجیاں اڑائی گئی جہاں اعلان آزادی کے بعد ریاست قلات ان تمام علاقوں پہ حکومت کرتا ہوا نظرآتا جو تاریخی اعتبار سے اس کا حصہ تھے، لیکن انگریزوں نے اپنے بنائے گئے قوانین کو زمین بوس کرتے ہوئے ایسا ہونے نہیں دیا۔ جس کا ذکر میر گل خان نصیر اپنی کتاب تاریخ بلوچ میں یوں نوشتہ کرتے ہیں کہ’’ مسٹر فل نے قلات کی مکمل آزادی کی صورت میں خدشات کا ذکر کرتے ہوئے دیوان کو خبر دار کیا کہ مکمل آزادی کی صورت میں شاید ہم روس یا کسی دوسرے ملک سے اپنی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے پاکستان کو موقع دینا چاہیے‘‘۔ یہ ہے برطانوی سرکار کا دہرا کھیل جس میں انہوں نے ہی پاکستان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس خطے کا چوکیدار بنا کے یہاں کے اقوام کو غلامی اور محکومی کے جنم کی نظر کردیا۔

برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں یہ جانتے تھے کہ سوشلزم دنیا کے محکوموں کے لیے امید کی کرن ثابت ہورہی تھی اور اس حوالے سے بلوچستان جغرافیائی حوالے سے اہمیت اختیار کرچکا تھا اور اگر سویت یونین یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہوتا تو مغرب کے لیے لمحہ فکریہ بن جاتا یا یوں کہہ سکتے ہیں دنیا یک طاقتی سانچے میں ڈھل جاتا ۔لہٰذا برطانیہ کو سوشلزم کے خطرات کے پیش نظر اس خطے میں ایک مضبوط چوکیدار کی ضرورت تھی ، جو اسے ہندوستان توڑنے کی صورت میں پاکستان کے نام سے مل چکا تھا۔اسی لیے بلوچستان کی آزادی کی راہ میں خلل ڈالنے کے لیے حکومت برطانیہ کی جانب سے بھی پاکستان پر دباؤ تھاکہ ریاست قلات کو آزاد ملک تسلیم نہ کیاجائے جس کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے اپنے انگریزآقاؤں کی آزمودہ گُر’’ لڑاؤ اورحکومت کرو’’کی پالیسی کوبروئے کارلاتے ہوئے سرداروں سے مراسم بنائیں جہاں انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان میں شمولیت کی ترغیب دیناشروع کیا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے 17 مارچ1948ء کو جناح جام غلام قادر (جام لسبیلہ) دارالعمراء کا رکن نواب بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کو جھانسا دینے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ دنیا کا کوئی قانون اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ کسی ملک کے کسی حصے کو اس ملک کے قانون و آئین اور جمہوری اداروں کے برخلاف ہڑپ کیا جائے۔ لیکن پاکستان نے برطانوی سپہ سالار اور جناح جیسے مکار کی چالبازیوں سے اس غیر آئینی اقدام کو عملی جامہ پہنایا۔ پاکستان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف ریاست قلات نے احتجاج اور مراسلے لکھیں لیکن پنجابی سرکار طاقت کے نشے میں کسی آئینی اقدام کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔

جب دنیا نے پاکستان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف کوئی آوز بلند نہیں کیا تو26 مارچ1948ء کو پاکستانی بری اور بحری افواج نے ساحلی علاقوں ، کیچ اور پنجگور پہ لشکر کشی کی ۔اس حوالے سے پروفیسر فاروق بلوچ اپنی کتاب ’’بلوچ اور ان کا وطن ‘‘ میں رقم طراز ہے کہ مارچ1948ء میں پاکستان نے مختلف حیلوں ، بہانوں ، لالچ اور جبر اًہر طرح سے آخر کاربلوچستان پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا۔‘‘ اس دوران خان احمدیار خان اس غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے کراچی میں موجود تھے جہاں ان سے زبردستی ریاست قلات کی پاکستان کیساتھ الحاق نامہ پردستخط لئے گئے۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی فوج یلغار کرتا ہوا ریاست قلات کے مرکزی شہر قلات پہ بھی27 مارچ 1948ء کو عکسری طاقت کے بل بوتے پہ قبضہ کرلیا۔اور یوں برطانیہ اپنے اس گھناؤنے عمل کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے انہیں پاکستانی دلال مضبوط شکل میں میسر آجاتے ہیں جن کے ساتھ چند بلوچ سرداروں اور نوبواں کی وطن فروشی کی داستان بھی رقم ہوتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔