کوئٹہ دشت میں دفنائے گئے لاشیں لاوارث نہیں بلکہ بلوچ لاپتہ فرزندوں کی ہیں – بی ایل ایم

135

بلوچستان لبریشن موومنٹ کے مرکزی ترجمان سالار بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں مشرقی بائی پاس کوئٹہ اور تیرہ میل دشت قبرستان میں سینکڑوں بلوچ شہداء کی تشدد زدہ لاشوں کو ایدھی فاونڈیشن کے رضاکاروں کے ذریعے لاوارث قرار دیکر دفنانے کے گھناؤنے عمل پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ پاکستانی ریاست کی اپنی انسانیت کے خلاف جرائم چھپانے کی مذموم کوشش کے سواء اور کچھ نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ لاشیں لا وارث نہیں بلکہ بلوچ لاپتہ فرزندوں کی ہیں، جن کی بازیابی کے لیے اس وقت بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کوئٹہ سے لے کر کراچی تک انکی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سال 2014 میں بلوچستان میں توتک کے مقام پر اجتماعی قبروں کا منظر عام پر آنے کے بعد یہ دوسرا المیہ ہے جو کہ صرف بلوچ قومی المیہ نہیں بلکہ ایک عالمی سانحہ بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی دہشت گرد فوج اور اس کے پالے ہوئے مسلح ڈیتھ سکواڈ کے غنڈوں نے بلوچ قوم پر ظلم ، جبر و درندگی، بربریت اور اجتماعی نسل کشی کی تمام حدیں پار کی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے اور مسلح دہشت گرد غنڈے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر اٹھا کر انھیں اپنی عقوبت خانوں میں انسانی سوز مظالم کا شکار بنا کر انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہے ہیں۔اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے اور دنیا سے اپنا جرم چپھانے کے لیے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتے رہے ہیں کہ بلوچستان سے جو لوگ لاپتہ ہیں وہ دراصل ایران، افغانستان اوربیرون ممالک گئے ہوئے ہیں لیکن آج انکی بازیابی پاکستانی سکیورٹی فورسز کی زیر انتظام علاقوں سے اجتماعی قبروں میں مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں مل رہی ہیں ۔

آج تک بلوچ نوجوان پاکستانی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم وتشدد کا شکار ہیں مگر اس مسئلے پر اقوام متحدہ، تمام عالمی انسانی حقوق کے ادارے مکمل مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ، ان اداروں کی یہ خاموشی پاکستان کو بلوچ قوم کی نسل کشی کی مزید موقع فراہم کررہاہے۔ حالانکہ یہی عالمی ادارے اور طاقتیں دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والے ہر مظالم پر اپنی آواز بلند کرتے ہوئے اور مداخلت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ بلوچستان کا سانحہ اور انسانی نسل کشی کا بحران پاکستانی ریاست کی انسانیت کے خلاف منہ بولتا ثبوت ہے اس کے باوجود انسانی حقوق کے علمبردار وں کی خاموشی بڑا افسوسناک ہے، جہاں دنیا بھر کے لوگ اقوام متحدہ کے مختلف فلیٹ فارمز میں اکھٹے ہوکر انسانی حقوق کے حمایت و تشدد کے خلاف مظاہرے و مظلوموں سے یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں اور عالمی قوانین اور انسانی حقوق پر اپنے عزم کا اعادہ کررہے ہیں وہی بلوچ سرزمین پر ہزاروں بلوچ پاکستانی عقوبت خانوں میں پاکستانی قبضہ گیر فوج کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کررہے ہیں ، جنہیں پاکستانی خفیہ ادارے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرکے اُن کی تشدد زدہ لاشوں کو اب پھینکنے کے بجائے اپنے جرائم کو چپھانے کیلئے اجتماعی قبروں میں تیزاب اور چونا لگاکر ڈمپ کر رہے ہیں ۔

انہون نے کہا کہ اپنی دفاع کا حق بلوچ قوم کو انٹرنیشنل قوانین کے تحت حاصل ہے اور بلوچ اپنی اس حق کو استعمال کرتے ہوئے قومی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی قابض ادارے بلوچ قوم کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر بلوچ قوم کی نسل کشی میں شدت لا رہے ہیں جو کہ بنگالی قوم کی نسل کشی کی تاریخ اور یاد تازہ کررہا ہے۔ لاپتہ بلوچ افراد کے بازیابی کیلئے متحرک انسانی حقوق کے تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اس وقت چالیس ہزار سے زائد بلوچوں کو پاکستان فوج اور خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرچکے ہیں ، اور اب تک ان لاپتہ افراد میں سے دو ہزار سے زائد افراد کی قابل پہچان مسخ شدہ انتہائی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں ، اسی طرح بلوچستان میں سینکڑوں اور ناقابلِ پہچان تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہیں جن کے بارے میں یہی شبہہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھی بلوچ لاپتہ افراد کی ہیں ۔ ان میں قابلِ ذکر 2014 میں بلوچستان کے علاقے توتک سے ملنے والی اجتماعی قبریں ہیں جن سے 189 لاشیں نکالی گئیں جنہیں دن دہاڑے پاکستانی فورسز نے اغواء کیا تھا جبکہ باقیوں کے چہروں پر چونا لگا کر انہیں مسخ کیا گیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچ آبادیوں پر بے تحاشہ بمباری ، قتل و غارت ، حراستی قتل اور بلوچوں کو اغواء کرنے کے شدت میں انتہائی تیزی بھی پیدا کرچکا ہے ۔اس جاری منظم نسل کشی کے باوجود اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اس سنجیدہ انسانی مسئلے کے بابت کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر اور چپ سادھ ہیں جس کا جواز وہ عدم ثبوت کو قرار دیتے رہے ہیں حالانکہ مختلف مواقعوں پر پاکستانی ذمہ داران اور وزراء میڈیا میں ان بلوچوں کے اغواء و قتل کے بابت اقبال جرم میڈیا میں کرچکے ہیں جن میں خود پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اقرار کیا تھا کہ لاپتہ بلوچ ریاستی اداروں کی تحویل میں ہین جن کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کئی افراد وہ مسخ شدہ لاشیں ہیں جنہیں ریاستی تحویل میں تشدد کا نشانہ بناکر مار دیا جاتا ہے اور بعد ازاں انکی لاشیں پھینک کر انہیں جعلی مقابلوں میں مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔
بلوچستان کے مخدوش حالات اور پاکستانی انتظامیہ کے اپنے تسلیم کردہ اعداد و شمار کا نوٹس لیکر اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے پاس بلوچستان کے مسئلے میں مداخلت کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے لیکن آج تک کسی عالمی ادارے یا میڈیا ادارے نے ان آپریشنوں کے حقیقت حال پر تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، انہوں نے کہا کہ بڑا افسوس کا مقام ہے کہ دہشت گرد ملک پاکستان سے دوستی کیلئے ہلکان ہونیوالے ان اسلامی وعرب ممالک کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو انسانیت وامن دشمن اور بلوچ قوم کے قاتل پاکستان کی مذمت کرنے کی بجائے اس کے ساتھ دوستی و تجارت کیلئے ہر وقت ان کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہم یوں تو بلوچوں سے ناروا سلوک کی داستاں بہت طویل ہے، جہان ملٹری آپریشنوں کے ذریعے ہزاروں بلوچوں کو مارا گیا لیکن 2005 سے پاکستان ملٹری فورسز کی طرف سے شروع ہونےوالی مارو اور پھینکو پالیسی بلوچستان بھر میں ریاستی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت و قانون چھاپوں اور جبری طور پر بلوچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت اجتماعی قبروں سے لے کر سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز زندہ گواہ وثبوت کے طور پر موجود ہیں جس میں پاکستانی فوج اور سیکیورٹی اہلکار سرعام بلوچوں کو اغوا کررہے ہیں اور انہیں گولی مار کر شہید کر رہے ہیں، کیا دنیا کیلئے بلوچ قوم کی اجتماعی نسل کشی روکنے کیلئے یہ ثبوت کافی نہیں؟

انہوں نے اجتماعی قبروں سے ملنے والے انسانی باقیات اور مسخ شدہ لاشوں کی DNA ٹیسٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور مزید کہا کہ اس بڑے انسانی بحران پر امریکہ سمیت اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اداروں، قوتوں ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کی تنظیم انٹرنیشنل ٹربیونل برائے انسانی حقوق IPTHR اور انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل برائے انسانی حقوق کی تنظیم کا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی فرض بنتا ہے کہ وہ اس مسلئے کا نوٹس لے کر بلوچستان میں براہ راست مداخلت کریں اور بلوچوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانہ پر پاکستانی ریاست کے ہاتھوں پامالی کو روکیں ۔