پیہم جَگت – برزکوہی

253

پیہم جَگت

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ایک عجیب و غریب منطق سامنے آرہا ہے کہ جب قطر میں پاکستان یعنی آئی ایس آئی میڈ طالبان کے ساتھ امریکیوں کے مذاکرات ہوئے اور کاغذوں کی حدتک مذاکرات کا مسودہ افغانستان سے غیرملکی افواج کی مکمل انخلا ء پر اتفاق اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے گریز کرنے کی باتوں سے میرے خیال میں سب سے زیادہ اس وقت پنجابیوں کو خوشی اور افغانوں سے زیادہ بلوچوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، لیکن کیوں؟

میں اپنے کالموں میں کئی دفعہ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے آیا ہوں کہ ہواؤں کے رخ میں تبدیلیوں کے امکان زیادہ ہوتے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بلوچ قوم، خاص طور پر جہدکاروں کے لیے انتہائی مشکلات پیدا ہونگے، سنجیدگی سے بہتر منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ اپنی قومی آزادی کی قومی جنگ میں شدت پیدا کرکے دنیا کے سامنے ایک قوت کی شکل میں ابھرنا بے حد ضروری ہے۔

مگرغیرسنجیدگی، سطحی سوچ، سطحی و بچگانہ تجزیوں، خوش فہیموں، سبز باغ دکھانے کی چکروں میں اکثریت خواب غفلت میں بغلیں بجا کر بس امریکہ بے تاج بادشاہ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماش بین بن چکے تھے اور بلوچ نوجوانوں کو جھوٹی تسلیاں دیکر آزاد خیالی، غیرذمہ داری، عدم دلچسپی اور اپنی قومی ذمہ داریوں سے غیرمتوجہ کرکے سبز باغ کی افیون میں مبتلا کررہے تھے۔ جب ایسے سوچنے والے اور سمجھنے والوں کے سامنے مشکلات و خطرات ابھر کر سامنے آتے ہیں تو ایک دم ان کے لیئے سب کرنٹ کے جھٹکے ثابت ہوتے ہیں۔ پھر حیران اور ششدر رہ کر کہتے ہیں کہ “جی امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو پھر بلوچ قوم اور قومی تحریک کا کیا ہوگا؟ ”

ارے بھائی! لگ بھگ پانچ کروڑ کی تعداد میں بلوچ قوم، ایک تاریخی وسیع جغرافیہ اور سرزمین کا مالک قوم، کیوں ایک مذاکرات سے اتنا خوفزدہ ہے؟ بالکل بڑی بڑی قوتوں کی اخلاقی، سیاسی، معاشی مدد و کمک کے بغیر قومی آزادی ممکن نہیں مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر دنیا آپ کی مدد و کمک نہیں کرتا تو پھر کیا آپ غلامی کو قبول کرکے قومی آزادی کے جدوجہد سے دستبردار ہونگے؟ پریشان اور مایوس ہونگے؟ یا پھر پہلے اپنی قومی طاقت و قوت پر انحصار کرکے اسے مضبوط اور منظم کرکے بہترین حکمت عملی اور پالیسی ترتیب دو گے تاکہ دنیا خود مجبور ہوکر بغیر آپ کے کوئی بھی فیصلہ اور قدم اٹھانے سے گریز کرے۔

آج طالبان کے طاقت کے سامنے دنیا کی بے بسی اور مجبوری ایک بار پھر اس موقف کی تصدیق کرتی ہے کہ طاقت خود سب کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ آپ کے موقف اور مقصد کو تسلیم کریں۔ صرف تماشائی بن کر خالی خولی باتوں سے زمین اور آسمان کو ایک کرنے سے کوئی آپ کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گا۔

بلوچ قومی تحریک میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں جو اسے ایک ناقابلِ شکست قوت میں ڈھال سکتے ہیں، بلوچ تحریک کے پاس پڑھے لکھے نوجوان کی ایک ایسی کھیپ تیار ہے جو مزاحمت کیلئے تیار ہے اور انتہائی اقدام اٹھا سکتی ہے اور یہ تعداد درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے، بلوچوں کے پاس ایک سیاسی آواز اور مضبوط سیاسی موقف ہے، جدوجہد کیلئے بہترین جغرافیہ ہے، معقول عوامی حمایت ہے اور ستر سالہ جدوجہد کا تجربہ ہے، پھر بھی اپنے قوتِ بازو پر تکیہ کرنے کے بجائے بیرونی قوت کی آس میں بیٹھ کر اپنے موجود قوت کو زیر استعمال نا لانا اور اسے روز بروز منتشر ہونے دینا کہیں کی دانشمندی نہیں، اگر بلوچ دانشمندی سے اپنا دستیاب قوت ہی استعمال کرلے تو اسے کسی کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ وہ خود قوتوں کی ضرورت بن جائیگا۔

کون بدبخت یہ انکار کرتا ہے کہ قومی تحریکوں میں سفارتکاری کی ضرورت نہیں ہے، مگر پہلے یہ سوچنا اور سمجھنا چاہیئے کہ سفارتکاری خود کیا ہے؟ اور کیسے کیا جاتا ہے اور کب کیا جاتا ہے؟ اگر قومی جنگ کے لیئے سفارتکاری کی ضرورت ہے بلکل صحیح، پھر سفارتکاری کے لیئے کیا ضرورت ہے؟ کیا قومی جنگ اور قومی قوت کے بغیر سفارتکاری ممکن ہے؟ کوئی آپ کو سنے گا، سمجھنے کی کوشش کریگا؟ کیا طالبان آج جو امریکہ اور دیگر دنیا کو مجبور کررہے ہیں اپنی باتوں کو منوانے کیلئے تو وہ صرف سفارتکاری کے ذریعے ممکن ہوا یا طاقت کے بل بوتے؟

میں ہرگز بلوچ قومی جنگ کو طالبان جیسے پروکسی جنگ سے برابر نہیں کرسکتا ہوں بلکہ صرف طاقت و قوت کے حوالے سے بات کررہا ہوں، جب طاقت اور قوت ہوگا تو ضرور ایک مقام پر کوئی آپ کو نا چاہتے ہوئے بھی سنے گا اور تسلیم بھی کریگا، خالی خولی باتوں اور سفارتکاری کے نام پر نام نہاد سفارتکاری کی آڑ میں بیرون ممالک میں آرام و آسائش کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کاروبار و تعلیم اور روزگار کے ساتھ ساتھ پکنک، برتھ ڈے منانا، صبح و شام اچھے اچھے کوفی شاپس، 5 اسٹار ہوٹلوں، اچھے سوٹس و تفریح گاہوں کا ذکر کرنا، گھوم پھر کر تصویریں کھنچوا کر ماڈلنگ کرکے سوشل میڈیا میں شائع کرنا اور مہینوں بعد ایک مظاہرہ کرنا یا چند گوروں کے ساتھ بیٹھ کر فوٹو سیشن کرنا کون سی سفارتکاری ہے؟

بلوچ قومی تحریک میں سفارتکاری کے نام پر آج جو کچھ ہورہا ہے، وہ سفارتکاری سے زیادہ مفاد بارآوری، آرام پسندی اور راہ فراری ہے۔ اسکی سب سا بڑا ثبوت اس سفارتکاری کا اپنے جڑوں سے کٹتا ہوا رجحان ہے۔

بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کو بے وقوف بنانے کی خاطر ہم سفارتکاری کررہے ہیں، کیا سفارتکاری اسی کو کہتے ہیں؟ میں یہ نہیں کہتا ہوں بلوچ قوم اور بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے دنیا میں آگاہی کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہوا ہے، ضرور کچھ نا کچھ ہوا ہے؟ مگر کیا وہ سفارتکاری کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ پہلے ہمیں سفارتکاری کو سمجھنا چاہیئے کہ حقیقی بنیادوں پر، اس کے بعد یہ سمجھنا کہ سفارتکاری کا معیار کیا ہے؟ کم سے کم قومی جنگ سے دستبرداری، راہ فرایت، آرام اور سکون کی زندگی گذارنے کو سفارتکاری کا نام دینے والے گمراہ کن حرکت کو خوبصورت شکل دینا اس دور میں جھوٹ اور فریب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔

خود سفارتکاری کیا ہے؟ اس کا معیار کیا ہے؟ اور سفارتکاری کرنے والے کون کون ہونگے؟ کب ہوگا اور کیسے ہوگا؟ ایک طویل بحث اور موضوع ہے، اس پر تفصیل سے آئیندہ اپنے کسی کالم میں ضرور بحث کرینگے۔

یہاں صرف قابل ذکر بات اور موضوع، قوت اور طاقت کے ساتھ مختصر موجودہ صورتحال اور تبدیلیوں کا موضوع زیر بحث ہے، سفارتکاری اس لیے درمیان میں آگیا کہ کچھ لوگوں کی آراء یہ ہے کہ بلوچوں کی مضبوط سفارتکاری نہیں ہونے کی وجہ سے بلوچ نظر انداز ہورہے ہیں یا بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں صرف مضبوط سفارتکاری کی ضرورت ہے، اس پر توجہ ہونا چاہیئے، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ سفارتکاری سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر سفارتکاری کو پہلے سمجھنا چاہیئے کہ وہ کیا بلا ہے؟ سفارتکاری کے حوالے سے جو تصویر پیش کررہے ہیں کیا سفارتکاری وہی ہے؟

یہ صرف میری ذاتی رائے نہیں بلکہ یہ ایک مانا اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ طاقت کے بغیر دنیا کی نظروں میں آپ کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہوگا، دنیا کے اپنے اپنے مفادات ہونگے، اس چیز سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ طاقت ہی ہوگا جو آپ کو دنیا کے مفادات سے جوڑ کر دنیا کے مفادات کے لیئے آپکو دنیا کی ضرورت بنادیگی، پھر آپ بحثیت غلام قوم اپنے سب سے اہم اور اعلیٰ مفاد، قومی آزادی اور قومی بقاء کو سامنے رکھ کر دنیا کو منوانے کی کوشش کرو گے، جب تک آپ طاقتور نہیں ہونگے اس وقت تک آپ کی کوئی اہمیت نہیں۔

قومی طاقت اور قومی قوت کسی کے انتظار سے اور کسی کے صرف مالی مدد و کمک سے یا حالات کی تبدیلی سے نہیں (ضرور یہ بھی قومی طاقت کی تشکیل میں حقیقت ہونگے) بلکہ قومی طاقت اور قومی قوت کی تشکیل، محنت و مشقت، تکلیف وآلام، صبر و برداشت، مستقل مزاجی، مسلسل کوشش، مضبوط کمٹنمٹ، خلوص اور خاص کر قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان تمام عوامل کو نظر انداز کرنا، پھر انتظار میں قومی طاقت کی آرزو اور خواہش رکھنا، صرف اور صرف خوف اور لالچ میں مبتلا ہوکر خاموش راہ فراریت اور دستبرداری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

تبھی ایسے طبقے جب اچانک رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں کا سنتے ہیں، تو پریشان، مایوس اور مزید خوفزدہ ہوتے ہیں، جو انتظار میں تھے امریکہ آکر تیار پلیٹ میں ہمیں آزادی دلا دیگا، جب تک ہم آرام و سکون کے ساتھ کسی اسٹیشن و ائیرپورٹ پر امریکہ کا انتظار کرینگے تو ایسی سوچ نا صرف ہمیں خود خوفزدہ کردیگا بلکہ پھر ایسے لوگ دوسروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرینگے کیونکہ یہی لوگ پہلے نوجوانوں کو سبز باغ دکھاکر ان کو مکمل بے حس کرچکے ہیں، انہیں بیوروکریٹک سوچ میں مبتلاء کرچکے ہیں، اب خوفزدہ نہیں ہونگے تو کیا کرینگے۔

ایک بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حالات ضرور تبدیل ہونگے اور ہوتے رہینگے، کبھی تحریک کے لیے موافق کبھی ناموافق مشکلات میں اضافہ ہوگا، مصائب و تکلیف زیادہ ہونگے، مگر بجائے حیران و پریشان سرگردان اور خوفزدہ ہونے کے منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی مرتب کرکے آگے بڑھنا ہوگا، اسی کو مستقل مزاجی کہتے ہیں اور بغیر مستقل مزاجی کے تحریکوں اور جنگوں کی کامیابی ناممکن ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں