آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں – ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ

468

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے ممتاز سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی ایک سو پندرہویں سالگرہ کے موقع پر جی ایم سید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھی قوم کے لئے جی ایم سید کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ وہ ایک رہبر اور ایک نمایاں مصنف تھے۔ سندھیوں کی غلامی سے نجات اور آزادسندھو دیش کی بنیادیں جی ایم سید کے فلسفے میں مضمر ہیں۔ ان کے فکر و عمل و تعلیمات سے استفادہ کرکے سندھی قوم پاکستان سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ اس جدید دور میں دوسری قوموں کو غلام رکھنا پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گو کہ پاکستان جیسی غیر فطری ریاست سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد دیگر اقوام پر قابض ہوکر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی غلامی میں بلوچ، سندھی اور پشتون کی قومی بقاء، زبان و ثقافت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔

انہوں نے کہا بلوچ قوم کی طرح سندھی بھی غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سندھی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایات روندی جارہی ہیں۔ سندھی نوجوان اسی طرح زندانوں میں اذیتوں سے گزارے جارہے ہیں جس طرح ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان پاکستان کے زندانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں اور شہید ہورہے ہیں۔ آج سندھی بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزرر ہے ہیں جہاں قابض ریاست ان کے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ سندھی ایک قدیم تہذیب کا وارث اور ہزارہا سالوں سے اپنی سرزمین کا مالک ہے اور اپنی صوفیانہ نظریات کی وجہ سے انسان دوست اور اپنے ہمسایوں سے پرامن بقائے باہمی کے قائل قوم کی پہچان رکھتی ہے۔ لیکن آج یہ عظیم قوم ایک ایسی ریاست کا غلام ہے جو تہذیب و روایات سے مکمل طورپر ناآشنا ایک خونخوار درندہ ہے۔ پاکستان سندھی تہذیب و ثقافت پر یلغار کرکے یہاں مذہبی انتہا پسندی کے بیج بو کر اس کے روایتی اقدار کو پاؤں تلے روندنے کی کوششیں کررہا ہے تاکہ سندھی قوم سے اس کی پہچان چھین کر انہیں اپنی ہی سرزمین و ثقافت سے بیگانہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور پشتون قوم کے لئے اپنی سرزمین، قومی بقاء اور تشخص کی حفاظت کے لئے واحد راستہ قومی آزادی اور پاکستانی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ پاکستان نے اپنے سامراجی اتحادیوں کے ساتھ مل محکوم اور مظلوم قوموں کی سرزمین پر یلغار کرکے انہیں مٹانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ چین کے ساتھ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) جیسے معاہدے بلوچ اور سندھیوں کے وسائل کے استحصال کے منصوبوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

سات دہائیوں سے پاکستان ہمیں اپنی کالونی بنا کر نہ صرف ہمارے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے بلکہ ہمیں اپنے ہی سرزمین سے بیدخل کرکے اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ان حالات میں سندھیوں کو جی ایم سید کی سالگرہ کے موقع پر یہ تجدید عہد کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عالمی قوانین کے تحت جد و جہد کے تمام ذرائع استعمال کرکے اپنی منزل آزادی کی جانب گامزن ہوں گے۔ گو کہ یہ ایک کھٹن راستہ ہے اور ہم ایک غیر مہذب، ظالم اور عالمی اقدار سے عاری ایک ایسی ریاست کے غلام ہیں جو بنگالیوں اور بلوچوں کی نسل کشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر چکی ہے مگر آزادی کے بغیر بلوچ اور سندھی قومیتیں پاکستان کے ان مظالم اور نسل کش پالیسی کے تحت کرہ ارض پر ناپید ہوجائیں گی۔