ہر بلوچ دہشت گرد؟ – دیدگ دودا

397

ہر بلوچ دہشت گرد؟

دیدگ دودا

دی بلوچستان پوسٹ 

ہمیشہ سے سنتا آیا ہوں کہ بلوچستان میں را کے ایجنٹ حالت خراب کر رہے ہیں۔ چونکہ میں اسی سرزمین کا باسی ہوں۔ مجھے تو حقیقت کا پتہ تھا۔

ہوا یوں ایک دن پنجاب کے کسی یونیورسٹی میں اسٹیٹ کے مضمون پر بات ہورہی تھی تو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر بحث ہونے لگی۔ تو ہماری میم کہنے لگی کہ” پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو ہمیشہ ہندوستان کی طرف سے مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچستان میں موجود را کے ایجنٹ حالت خراب کر رہے ہیں اور بلوچوں کو اکسا رہے ہیں کہ وہ ملک کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جائیں۔”

ان کا یہ کہنا ہی تھا کہ میں دل ہی دل میں مسکرانے لگا اور میم کی نظر نہ جانے کیسے مجھ پہ پڑی۔ میں بلوچی کپڑوں میں تھا تو وہ جان گئی ہونگی کہ میں بلوچ ہوں۔
پھر بھی وہ پوچھنے لگی :کیا تم بلوچ ہو؟
میں : جی میم ۔
تو وہ کہنے لگی ، ” تو کیا اپ کے علاقے میں را کے ایجنٹ موجود نہیں ہیں۔”
میں کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا پر نہ وقت، نہ حالات اور نہ ہی جگہ میرے بحث کے حق میں تھا۔
تو سادگی سے بول پڑا : میم 20 سال ہوگئی میری عمر پر آج تک تو نہیں دیکھے ۔
تو وہ پوچھنے لگی تو یہ آزادی پسند لوگ کون ہیں جو مسلح تنظیمیں چلا رہے ہیں؟
میں سوچتے ہوئے کہ کیا کروں اے خدا کیا کہوں کہ جواب بھی دے سکوں اور کسی نقصان سے بچ سکوں ۔ تو سادگی سے بولا : میم آج تک ان سے ملاقات نہ ہوپائی کہ پوچھ سکوں۔

نہ جانے میرا لہجہ تھا یا انکی حالات سے لا علمی۔ ایک سوال کیا انہوں نے جس کا جواب تو شاید مجھے بھی پتہ نہ تھا۔ پر اس سوال نے میرے دل پر ایک اثر چھوڑ دیا اور مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
وہ سوال کچھ یوں تھا کہ
اگر بلوچستان میں را کے ایجنٹ موجود نہیں ہیں تو کیا یہ (آپ)سب بلوچ ہیں جو دہشتگردی کر رہے ہو؟
کچھ لمحے تو میں خاموش ہی رہا، پھر میری نظروں کے سامنے ایک طرف بلوچستان کی وادیوں میں خون جما دینے والی سرد ہواوں کے چلتے سڑکوں پر بیٹھے مائیں، بہنیں اور ننھے بچے جو کسی کے ایک نظر کے منتظر تھے، تو دوسری طرف برف پوش پہاڑوں میں کھلے آسمان تلے سردی میں ایک پرانا کمبل اوڑے کچھ لوگ جو شاید ایک روشن صبح کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

ایک کے بعد ایک کچھ ایسے ہی منظر میری آنکھوں کے سامنے اس طرح چلنے لگے جیسے موت سے پہلے انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال دکھائے جا رہیں ہوں۔ اس عمل نے شاید کچھ ہی سیکنڈ لیئے مگر مجھے بہت کچھ بتا دیا۔
“تو کیا ہر بلوچ دہشت گرد” اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔

پھر کالی راتوں میں بندوقوں سے لیس سرخ آنکھوں اور جانوری عادتوں والے کچھ لوگوں کے چہرے میرے سامنے آگئے اور لب خاموش سے ہو گئے۔ پر دل نہ مانا اور کچھ مظلومیت بھرے لہجے میں، میں نے جواب دیا ۔
“میم آپ لوگوں کے لئے تو اختر مینگل بھی ایک غدار ہے جو صرف لاپتہ افراد کی بات کرتا ہے اور ماما قدیر بھی ایک غیر ملکی ایجنٹ ہے آپ لوگوں کے لئے “۔ بس پھر کلاس میں خاموشی چھا گئی۔

یہ جواب تو میں نے دےدیا پر وہ سوال جو میم نے مجھ سے پوچھا تھا۔ کوئی میرے دل کو مطمئن کرنے والا جواب نہ ملا مجھے کہ کیا واقعی ہر بلوچ دہشتگرد ہے؟ کیا اپنا حق مانگنا دہشتگردی ہے؟ کیا اپنے پیاروں کی رہائی کے لیئے احتجاج کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا اپنے دھرتی ماں کے مٹی سے پیار کرنا دہشتگردی ہے؟
تو شاید ہاں ہوں میں دہشتگرد اور ہر بلوچ دہشتگرد ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔