سی پیک کی تکمیل سے بلوچ پاکستان اور چین کی دہری کالونی کا شکار ہوگا ۔ خلیل بلوچ

228

ماہی گیروں کو ان کے عظیم بحر بلوچ سے جدا کرنا ساحلی بیلٹ سے بلوچ کو بیدخل کرنے کی ابتداء ہے، پورٹ نے قدیم شکار گاہ چھین لئے اور پدی زر میرین ڈائیو کا نذر ہوچکا تھا اور واحد سہارا دیمی زر تھا اس پر بھی ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کے ساتھ ہی ماہی گیروں کے لئے سمندر کا راستہ بند کر دیا گیا۔ اس پر یہ ستم مستزاد کہ اب تک سی پیک نامی تباہی کے اکثر حصے خفیہ ہیں جو عملی صورت میں آنے سے مزید تباہی اور بربادی لائیں گے۔ بی این ایم چیئرمین

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی قبضہ گیریت اور چین کے توسیع پسندانہ عزائم مزید عیاں ہورہے ہیں گوادر میں ماہی گیروں کے گزرگاہوں پر قدغن پاکستانی قبضہ گیریت چینی توسیع پسندانہ عزائم کا چھوٹی سی مظہر و ثمر ہیں آج ماہی گیر کھلے سمندر میں شکار کے لئے محتاج بن چکے ہیں کل پاکستان اور چین گوادر سمیت پوری ساحلی بیلٹ سے بلوچ قوم کو بیدخل کر دیں گے جوں جوں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی تکمیل کی جانب بڑھے گا بلوچ اپنی دھرتی تہذیبی و ثقافتی ورثہ معاشی ذرائعوں سے محروم ہوکر پاکستان اورچین کی دہری کالونی کاشکار ہوجائے گا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ماہی گیروں کو ان کے عظیم بحر بلوچ سے جدا کرنا ساحلی بیلٹ سے بلوچ کو بیدخل کرنے کی ابتداء ہے۔ پورٹ نے قدیم شکار گاہ چھین لئے اور پدی زر میرین ڈائیو کا نذر ہوچکا تھا اور واحد سہارا دیمی زر تھا اس پربھی ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کے ساتھ ہی ماہی گیروں کے لئے سمندر کا راستہ بند کر دیا گیا۔ اس پر یہ ستم مستزاد کہ اب تک سی پیک نامی تباہی کے اکثر حصے خفیہ ہیں جو عملی صورت میں آنے سے مزید تباہی اور بربادی لائیں گے۔

ٓانہوں نے کہا کہ گوادر کے لوگوں کے لئے زمین تنگ کر دیا گیا۔ مقامی باشندے پانی کے بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں۔ وہ محنت مزدوری کے پیسوں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں لیکن اب روزی کے ذرائع یکے بعد دیگرے چھیننے کے حربے روبہ عمل لائے جا رہے ہیں تاکہ گوادر سے بلوچوں کا انخلاء ممکن بنایا جاسکے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ سی پیک کے اثرات اتنے تباہ کن ہیں کہ ہزار تاویلوں کے باوجود پاکستان انہیں چھپانے میں ناکام ہے اوراب تو کٹھ پتلی صوبائی حکومت بھی کھلے عام اعتراف کررہا ہے کہ سی پیک میں بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ملے گا حالانکہ یہ کٹھ پتلی حکومت بھی ریاست کا ساختہ و پرداختہ ہے۔

انہوں نے کہا گزشتہ پندرہ روز سے ماہی گیروں کی مسلسل احتجاج اور اپنے ہی سمندر تک رسائی کے لئے گزر گاہ کا مطالبہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ احساس غلامی کا علامت اور نہاد قوم پرستوں اور گوادرکے ترقی کا واویلا کرنے والوں کے منہ پر تھمانچہ ہے۔ آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ ماہی گیر دیمی زر ساحل پر ایک 800 میٹر چوڑی اور 1500 میٹر لمبی گودی (بریک واٹر) بنانے اور ساتھ ہی 40 فٹ چوڑی اور 80 فٹ لمبی آکشن ہال تعمیر اور آمدورفت کو یقینی بنانے کیلئے ڈھوریہ، گزروان اور بلوچ وارڈ میں تین گذرگاہیں بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

لیکن ان مطالبات پر حیلہ و بہانہ یہی ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان گوادر سے مقامی باشندوں کی جبری انخلا اور یہاں لاکھوں پنجابی اور چینی آبادکاروں کی آبادکاری کے منصوبے پر عمل کرنے کی تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے سارے منافعت بخش منصوبے پنجاب کے حصے میں اور بلوچستان کے حصے میں صرف استحصال، جبری مہاجرت اور سینکڑوں کی تعداد کی جبری حراست اور شہادت آیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم پر ظلم و ستم وسیع پیمانے پرجاری ہیں لیکن سی پیک اور سی پیک سے جڑے منصوبوں نے بلوچ قوم کو اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ جس طرح پاکستان کے مالیاتی وزیر پاکستان شوکت عزیز نے بتایا تھا کہ تین ملین سے زائد افراد سی پیک پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے گوادر میں آباد ہوں گے، اس کا آغاز ہوچکا ہے۔

جس طرح پاکستان گزشتہ 70 سالوں سے بلوچ قومی وسائل کا استحصال کر رہا ہے،سوئی گیس، سیندک اور ریکو ڈیک منصوبوں سے بے تحاشا فوائد اٹھاکر مقامی لوگوں کو شدید بھوک اور فاقہ کشی سے دوچار کیاگیا اسی طرح گہرے سمندر میں بندرگاہ کی تعمیر اور ٹرالروں سے سمندری زندگی کو تباہ کر دیا اور سمندر تک رسائی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ آئندہ چند سالوں میں بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ چین کی بھی کالونی بن کر دہری کالونی بننے سے بچنے کا واحد ذریعہ قومی تحریک آزادی ہے۔میں بلوچ کے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہر شخص اجتماعی سوچ اپناکر تحریک میں اپنا قومی فرض ادا کریں اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہمیں ناقابل بیان قومی مشکلات و تباہی سے دوچار کرے گا۔