احساس ذمہ داری – حکیم واڈیلہ

771

احساس ذمہ داری

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سماج آج اپنے تاریخی حیثیت اور سماجی ساخت میں کافی تبدیلیاں دیکھ رہا ہے، جہاں بلوچ اپنے شناخت، ثقافت اپنی زندگی اور آنے والے کل کیلئے کافی دشوار، سخت، کٹھن اور پر خطر حالات کے باوجود بھی جدوجہد کررہا ہے۔ بلوچ قوم ایک ہی وقت میں بہت سے محاذوں پر دشمن سے نبردآزما ہیں۔ جس میں مسلح محاذ پر جنگ کی صورت ہو، سیاسی میدان میں علمی و دلائلی محاذ ہو یا پھر انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کی جانے والی جدوجہد ہو۔

بلوچ قومی شناخت اور بلوچ قومی وجود آج ایک ایسے سنگین موڑ پر آ کھڑے ہیں، جہاں سے صرف دو ہی راستے آگے کی طرف بڑھتے ہیں ایک راستہ جو بلوچ شناخت، ثقافت، تاریخ اور بلوچ سرزمین پر بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرکے آہستہ آہستہ ختم کرنے کی جانب لے جائیگا۔

اور دوسرا راستہ بلوچ قومی بقاء، آزادی، خوشحالی و بلوچ سرزمین پر بلوچ راج کا ضامن ہوگا۔ اب یہ بات بلوچ قومی تحریک سے جڑے ساتھیوں اور تحریکی رہنماوں پر محیط ہے کہ وہ کس راستے کا چناؤ کرتے ہیں اور کس طرف بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم کی قسمت کو موڑتے ہیں۔ اس بات میں بلکل بھی شکوک و شبہات نہیں رکھنی چاہئے، ریاست پاکستان اور اسکے حواری کسی بھی طرح سے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور قومی شعور کو ختم کرنے کیلئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر ہمیں ختم کرنے کے درپے ہے۔ پر کیا بلوچ ان حالات و واقعات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم دشمن کو اسکی زبان میں سمجھانے یا سبق سکھانے کی طاقت و سکت رکھتے ہیں؟ کیا ہم دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کا مطالعہ کررہے ہیں؟ کیا ہم نے ایسی پالیسیاں مرتب کی ہیں جو دشمن اور اسکے حواریوں کو یہ احساس دلا سکیں کے بلوچ سرزمین پر بزور طاقت بلوچ قوم کو ختم کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں؟

ان سوالات پر اگر ایمان دارانہ تجزیہ کریں تو یقیناً ہمیں بلوچ مسلح مزاحمت میں ایک بہتری، مثبت تبدیلی، وقت و حالات کے مطابق سمتوں کے تعین سمیت زمینی حقائق کے مطابق پالیسیاں اور حکمت عملیاں دکھائی دیتے ہیں جو کہ مسلح محاذ پر بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور مجموعی طور پر خوش آئند بات ہے ۔

لیکن بلوچ قومی تحریک کے دوسرے اہم جُز جوکہ سیاسی محاذ ہے، اگر ہم اُس پر نظر دوڑائیں اور اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا ہم مسلح ساتھیوں کی قربانیوں اور بلوچ شہیدوں کے ارمانوں پر پورا اتر رہے ہیں؟ ہم ان پر خطر حالات میں بھی کیوں اس قدر آرام دہ اور پر سکون طریقوں سے آگے بڑھ رہے ہیں جیسے ہم عام حالات میں بڑھتے ہیں؟ کیا ہم ان حالات کی سنگینیوں کو سمجھنے سے غافل ہیں؟ کیا ہمیں یہ اندازہ نہیں کہ ریاستی ظلم و بربریت کسی کو بھی بخشنے والی نہیں؟ کیا ہم اس بات کو صرف اسلئے نظرانداز کرسکتے ہیں کہ ہم نوکریاں کرتے ہیں، ہماری زندگیاں بہت ہی مصروف ہیں، ہمیں اپنے لئے اپنے خاندان کیلئے اپنے دوستوں کیلئے اپنے ذاتی کاموں کی خاطر ۲۴ گھنٹوں میں سے تمام وقت درکار ہے؟

ہم اپنے قوم، اپنی بہنوں، اپنی ماوں اپنی بیٹیوں اپنی سرزمین کی خاطر لاپتہ ہوئے لوگوں یا ان کے اہلخانہ کیلئے اس لئے آواز نہیں اٹھا پاتے کہ ہمارے پاس وقت نہیں تو یقیناً ہم اپنے آپ سے، اپنے قوم سے اپنے ساتھیوں سے اپنے شہیدوں سے اپنے لاپتہ دوستوں سے اپنی سرزمین اپنے ضمیر سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے وقت کو کسی غیر ضروری اور غیر اہم کام میں صرف کررہے ہیں، کیونکہ ہم قومی مسئلوں پر کسی بھی دوسرے کو مسئلے کو اولیت دے ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ ہمارا پہچان، ہمارا نام، ہمارا زمین اور ہماری شناخت سے بڑھ کر ایک قوم دوست و وطن دوست سیاسی کارکن کیلئے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔

اگر ہم مطالعہ کریں اپنے آپ کا اپنے کردار کا اور خود احتسابی شروع کرکے اپنے گذرے ہوئے کل کے ان تمام غیر ضروری کاموں کی نشاندہی کریں، جس پر ہم نے دس منٹ سے دو گھنٹے تک کا وقت ضیاع کیا تھا تو اس وقت کو ہم اپنے قوم اپنی قومی تحریک اپنے لاپتہ افراد کے لواحقین کی خاطر خرچ کرسکتے ہیں اور وہ خرچ کیا ہوا وقت یقیناً لاپتہ افراد کے اہلخانہ کیلئے ہمت و مضبوطی کی وجہ بنے گی اور خود کو کبھی کمزور اور اکیلا محسوس نہیں کرینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔