گوریلہ جنگ – یاسین عزیز بلوچ

592

گوریلہ جنگ

یاسین عزیز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

یہ وہ جنگی طریقہ کار ہے جو نسبتاً طاقت اور وسائل کے حوالے سے کمزور فریق اپنے طاقت ور دشمن کے خلاف استعمال میں لاتا ہے، ہمارے ہاں زبان عام میں گوریلہ جنگ کو چھاپہ مار جنگ کہتے ہیں اور اس جنگی طریقہ کار پر کار بند رہنے والوں کو چھاپہ مار یا گوریلہ بھی کہتے ہیں گوریلہ اصل میں ہسپانوی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی چھوٹی چھڑپ یا مختصر جنگ کے ہیں۔ گوریلہ جنگ کی ایک طویل تاریخ ہے، گوریلہ جنگ ہسپانوی اور فرانسیسیوں کے مابین 1814 میں اپنے پیدائش سے لیکر آج تک اپنے بلوغت کے سفر طے کرتا آرہا ہے۔

گوریلہ جنگ نے جہاں دنیا کو بہت بڑے بڑے نام دیئے ہیں جن میں چی گویرا، کاسترو، ماؤزے تنگ، عمر مختار، پربھاکرن، ماجو مدادر، کانو سینیال وغیرہ وہاں ایسے شخصیات نے گوریلہ جنگ کے بلوغت میں بھی اہم کردار ادا کیئے ہیں۔ یہ ایک جنگی طریقہ کار کاتسلسل ضرورہے، مگر مکمل جنگ نہیں۔ بولیویا میں سی آئی اے اور امریکی فوج نے اسی طریقہ کار کو اپنا کرڈاکٹرچی گویرا کی گرفتاری میں کامیابی حاصل کی، امریکی فوج نے بھی چھوٹے چھوٹے گوریلہ دستے تشکیل دیکر ڈاکٹر چی گویرا کے خلاف جنگ شروع کی گوریلہ جنگ مختلف مقامات و حالات اور مختلف اوقات میں من و عن یکساں نہیں رہا ہے۔ اسکی نوعیت حالت اور اسکے مقاصد ہمیشہ مختلف رہے ہیں۔

بالکل اسی طرح بلوچوں میں بھی گوریلہ جنگ کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے، بالاچ گور گیج کے حوالے سے ایک تاریخ موجود ہے، جسکا نام روایتی قصہ کہانیوں میں تیمور نامی فاتح کے خلاف جنگ میں بھی لیا جاتا ہے۔ انگریزی سامراج کے خلاف گوریلہ جنگ میں طوطا شیرانی، علیان لوہارانی اور خدائیداد بجارانی اور نورا مینگل جیسے شخصیات نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف آغا عبدالکریم بابونوروز، بابو شیرو مری سمیت انگنت نام سامنے آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تاریخ ایک زنجیر کے مانند ہوتی ہے، جسکی بہت سے کڑیاں ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ بلوچوں میں آج بھی جاری و ساری ہے۔ کم جنگی وسائل میں طاقت ور دشمن کے خلاف چھپ کر وار کرنا چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑنا ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے۔ اس میں کامیابی اور ناکامی کے امکانات کو سمجھنا کافی مشکل و پیچیدہ ہوتا ہے اور اس صورت میں تو اور بھی زیادہ جب آپ ایک واحد قوم ہوکر نہیں لڑ رہے ہوتےہوں۔

بلوچی ڈھانچہ آج بھی ساراوان، جھالاون، لسبیلہ، خاران، مکران، ڈیرہ جات و قلات سے قومی تشکیل کے ارتقائی مراحل سے گذر رہا ہے۔ ہمارا موجودہ ہر لیڈر اسی تاریخی تسلسل کی دین ہے۔ نواب خیربخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، یوسف عزیز مگسی کے خیالات سوچ سیاسی ضرور تھے لیکن انکے پیچھے ایک سیاسی مضبوط پلیٹ فارم نہیں تھاانکے پیچھے قبائل تھے۔ قومی تشکیل میں ہمارے ان شخصیات کا کردار کس قدر انقلابی رہا یا ارتقاء کے رحم و کرم پر منحصر رہا یہ ایک الگ بحث ہے، جو تحقیق طلب ہے بلوچستان میں نیپ بھی اسی قبائلی اتحادیہ کی مرہونِ منت رہا۔

بیان کردہ تمام صورت حال میں جو سب سے اہم نقطہ ہے وہ زمینی حقائق اور اپنے عوام کی حالت اور اپنے حقیقتوں سے مطابقت ہے۔

ویتنام کیوبا اور دیگر اقوام کے طرف سے لڑی جانے والے کامیاب گوریلہ جنگوں سے اگر بلوچ جنگ کا موازانہ کرنا شروع کیا جائے تو یہ ایک غیرمناسب عمل ہوگا، دیکھا جائے توہمارے جدوجہد کے تاریخی تسلسل میں مضبوط منظم سیاسی پارٹی کا وجود موجود نہیں، ہم قومی تشکیل کے حوالے سے کسی بھی طرح کے انقلابی مرحلے سے نہیں گذرے ہیں ہمارا تکیہ ہمارے قبائلی قوت پر رہا ہے، ہمارے یہاں قبائل کے مزاج کے مطابق مزاحمتی مسلح طریقہ کار کو بروئے کارلایا گیا ہے، ہم نے دشمن کے خلاف مزاحمتی گوریلہ جنگ ضرور کی ہے لیکن اپنے جنگ کو اُسکے مقصد کے حوالے سے منظم کرنے کی کوششوں سے قاصر رہے ہیں، بقول صورت خان مری ہم نے حقیقی سیاسی نوعیت کے ضرورت سے پہلو بچایا ہے کیوں ؟ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں لیکن اس حقیقت کو ناسمجھنا یانظرانداز کرنا بھی بہت بڑی ناانصافی ہوگی کہ ہم میں سے ہر جدکار اس وقت کسی نہ کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، ہمارے رشتے اور روزمرہ زندگی کے مفادات اور ہمارے قومی جدوجہد کے ضروریات ہمہ وقت تبدیلی کا تقاضہ کرتے ہیں، تبدیلی از خود انقلاب سے تعلق رکھتا ہے۔ سوچ میں تبدیلی کی ابتداء سے عمل کا آغاز ہوتا ہے لیکن پختگی کے مراحل کتنے پیچیدہ اور صبر آزماء ہوتے ہیں وہ آج ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔

ان اقوام کو قومیتیں بننے میں کتنا عرصہ لگا اور وہ کن کن مراحل سے گذرے یہ ہمارے لئے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ فطری قوانین کا مجموعہ ایک ہی ہے جو انسانی سماج کے ارتقاء پر ہر جگہ ایک ہی طرح سے لاگو ہوتا ہے، اگر فرق ہوتا ہے تو زمان و مکان کا مثلاً بلوچستان اور امریکہ میں ایک ہی وقت میں پیدا ہونے والے بچے ایک ہی وقت میں بلوغت کے دہلیز میں پہنچتے ہیں لیکن وہ اپنے اپنے ماحول طرززندگی آب و ہوا خوراک آسائش و مشکلات کا عکاس ہوتے ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں مجموعی حوالے سے ہمارا شعور کس سطح پے ہے ہمیں درپیش آس پاس کےحالات کس نوعیت کے ہیں ہمارے لوگوں کی حالت کیا ہے، ہمارے سماج میں وہ جو تبدیل ہوسکتے ہیں یا ہورہے ہیں اور وہ جو فی الوقت تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن وہ ہمارے آزادی کے خلاف نہیں اُن دونوں کےلئے الگ الگ قوانین کے ساتھ ہم کیسے ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ ہم قومی آزادی کےلئے سرگرم عمل ہیں، ہمارے آزادی کے حق کو تسلیم کرنے والا کوئی بھی ہو وہ ہمارا دوست ہے اور ہمارے آزادی کے خلاف ہونے والےبلوچ بھی ہمارے دشمن ہیں اور جو بلوچ ہمارے دشمن کے رضا کارانہ خدمتگار ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں اس حد تک کی سمجھ بوجھ کےبعد ہی ہم کیوبا، ایسٹ تیمور، ماؤزے تنگ وغیرہ کی سطح تک پہنچنے کےلئے عملی طور پرمزید سخت انقلابی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے جب جدوجہد شروع کی تو ہم دنیا کے ان عظیم ہستیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، ہم اپنے بارے میں بھی بہت کچھ نہیں جانتے اور سمجھتے تھے آج بھی سوال یہی ہے کہ ہم کتنا جانتےہیں؟

موازنہ کرنے کی میزان کے ساتھ مراحل کی پہچان ضروری ہے، ہمارا سفر جاری و ساری ہے ہم مختلف مراحل سے اگر مثالی کامیابیوں کے ساتھ نہیں گذرے ہیں تو ہم رُکے بھی نہیں ہیں، ہم پیچھے بھی نہیں ہٹے، ہمیں اپنے تغیرات پر نظر رکھنا چاہیئے اور اپنے ہی تغیرات کے ممکنات و امکانات کو سمجھکر کر کام کرنا چاہیئے۔ ہمارامسلح جدوجہد نہ ہی واقعاتی سوچ سے شروع ہوا ہےاور نہ ہی صد فیصد اصولوں سے نکلا ہے، قابضین کے خلاف اپنے آزادی کیلئے مزاحمتی عمل کا تسلسل ہے جو آج ایک حوصلہ افزاء اور ناقابل شکست صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ اسکو قومی حوالے سے منظم کرنے کی حقیقی کوششوں کی ضرورت ہے۔

ہم اپنے دستیاب وسائل و طاقت کو کس طرح سے ایک قومی قوت کے طور پر بروےکار لا سکتے ہیں یہ آج کا بنیادی سوال ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔