ماھل میرا معلم – بْرمش کرار

389

ماھل میرا معلم

بْرمش کرار

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں ہر ایک انسان کا یہی خواہش ہے کہ میں دوسرے پر سبقت لے جاؤں، اسی طرح مرد ہر وقت عورت کو زیر رکھنے اور اُن سے آگے بڑھنے کی سعی کرتا ہے۔

جب کبھی عورت گھر سے نکلی یا نئی راہوں میں محوِ سفر ہوئی تو عورت کو واپس اپنی محدود دنیا تک محصور کرنے کے لیئے مردوں نے نَت نئے حربے آزمائے، کبھی مذہب کا سہارا لیا گیا، تو کبھی نام نہاد ثقافت کا لیکن اس بات سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکاری نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی تحریک یا زندگی کے کسی بھی مسئلے میں عورت کا ایک مخصوص واجب کردار ہوتا ہے۔

آج عورت نے اپنے آپ کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ چُپ رہ کر اور مردانہ تسلط کی دین ایک مخصوس دنیا تک محدود رہ کر گُھٹ کر مر نہیں سکتی اور زندگی کے ہر میداں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہ سکتی ہے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورت کا بھی ایک منفرد اور جامع کردار رہا ہے اور اسی طرح بلوچ قومی تحریک میں بھی عورت نے ایک ساتھی کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔

بلوچ تحریک گواہ ہے کہ بلوچ عورت مردوں سے کبھی پیچھے نہیں رہے بلکہ اُن کے شانہ بشانہ رہ کر اس تحریک کو منزلِ مقصود تک لے جانے کے لیئے قربانیاں دیں۔ انہی ناموں میں کچھ معروف نام ہانی، گْوھر، زرّیں، مئی چاگلی، آدینگ گُنگ، سمّی، گراناز کے ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے بلوچ سماج خاصکر بلوچ عورتوں کو متاثر کیاـ

جب مغربی بلوچستان میں دادشاہ ایرانی شاہ رضا پہلوی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہے، تو اُن کے ساتھ ناز بی بی بھی جنگ کے میداں میں اتر کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ بلوچ عورت بھی ظلم و ستم اور استعماری قوتوں کے خلاف چُپ رہنے والی نہیں، یہ کوئی انوکھی و ناممکن بات نہیں بلکہ بلوچی روایات کا حصہ ہے کہ جب بھی بلوچ چاگرد پر کوئی خطرہ پنپتا نظر آیا، تو بلوچ عورت بھی مردوں کے ساتھ میدان میں آ جائیں ـ بلوچ علامتی کردار بانڑی سے لیکر جدید دور کی بلوچ قومی آزادی کی تحریک تک بلوچ عورت قومی مسئلوں پر اپنے مردوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی روایت کو اسی تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں انہی ہزاروں گمنام و عیاں ناموں میں ایک نام ماہَل بلوچ کا بھی ہے(شاید میں ماہل کو لفظوں میں بیان نہ کر پاؤں اس کی ہر وقت یہی خواہش تھی کہ وہ بلوچستان کے لیئے کچھ کر سکے۔

مجھے یاد ہے کہ جب مجھے ماہل بلوچ کی تربیت کا ذمہ دیا گیا تھا تو میں نے اُس کے اندر قوم و قومیت کے لیے ایک عجیب ولولہ و جزبہ دیکھا، ماہل باتیں کرنے سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھنے والی ایک پختہ کامریڈ ہیں، وہ ایک اچھے انسان کے علاوہ ایک اچھی دوست بھی ہیں۔

کتابوں سے اس کا “مھر” بھی عجیب تھا اور تنظیمی کاموں اور ہر اس کام میں جہاں سماج کو فائدہ ہوتا ہے ان میں بھی پیش پیش تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے کہا تھا اپنا خیال رکھو کام ہوتے رہیں گے، تو اس نے کہا کہ ہمارے شُہداء نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں اور ہم اپنا تھوڑا وقت دے نہیں سکتے۔ ماہل کی قابلیت اور جزبے کو دیکھ کر سنگتوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں ذمہ داری دی جائے گی۔

جب کبھی کسی سنگت کی شہید ہونے کی خبر آتی تو ماہل عجیب خیالوں میں گُم ہوجاتی اور جب کبھی دشمن کو شکست دینے کی خبر آتی تو وہ عجیب خوشی کی کیفیت میں ہوتی۔ ماہل آزادی کو اپنا ایمان تصور کرتی تھی، جب میں اسے دیکھتا ہوں، تو مجھ میں بھی ایک عجیب احساس پنپ اُٹھتی۔ اگر میں ایمانداری کی بات کروں تو مجھے ماہل کی حد سے زیادہ مہرباں ہونے سے ڈر لگتا تھا۔

ہزاروں بلوچ بیٹیاں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنا فرض نبھانا چاہتی ہیں لیکن سیکولر و روشن خیال بلوچ سماج میں بھی مردانہ تسلط اپنا رنگ دکھاتی ہے اور عورت اسی تسلط کے دھول میں پیچھے رہ جاتی ہیں، چند روایتی و مذہبی جملے ماہل جیسے کرداروں کو چپ کرنے میں کافی ہوتی ہیں، مذہب سے بغاوت کا الزام، ثقافت کو روندھنے کا طنز، گھر سے نکلنے کا طنز نیز عورت ہونے کا طنز ـــ اور ماہل کے بھائی نے ماہل کو پابند کردیا اس کا جرم صرف یہی ہے کہ اس نے سرزمیں کے ہزاروں بیٹے اور بیٹیوں کی طرح اس سماج میں روشنی پھیلانی چاہی ـ

لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ قومی سوچ کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور جس کسی نے بھی اسی سوچ کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اُسے کوئی روک نہیں سکتا، یہ اسی سوچ کی مرہون منّت ہے کہ بلوچ ورنا اپنے سر بھی قربان کرنے سے نہیں کتراتے، فکر کا گلا دبایا جا سکتا ہے نا کہ روشنی کو کوئی روک سکتا ہے، جب مجھے معلوم ہوا کہ ماہل کا بھائی بھی اسی تحریک کا حصّہ ہے، جس کا حصّہ ہونے کی سزا ماہل کا بھائی ماہل کو دے رہا ہے، خود کو انقلابی کہتا ہے تو میں سوچنے لگا آیا ماہل بھی انہی ہزاروں عورتوں کی طرح پیچھے رہ جائے گی جو مردوں کے سماج کا نشانہ بنے؟

یا ماہل کا بھائی یہ سوچتا ہے کہ ماہل اُس سے آگے ہے جو اُس کے انا کو نہیں بھاتا؟ پھر میں سوچتا ہوں کہ وہ بھائی کیسے انقلابی ہو سکتا ہے جو اپنے بہن کو ہزاروں بلوچ بہنوں سے الگ سمجھے؟ پھر میں سوچتا ہوں آیا ماہل کو بھی پیچھے کی طرف دکھیلا گیا لیکن وہ تو ہار ماننے والی نہیں وہ ضرور واپس آکر اپنی اسی مقام سے اپنے سفر کو دوبارہ جاری رکھے گی ماہل تو کسی کا بھی پابند نہیں ہوسکتی، وہی قومی سوچ ماہل کو ایسی ہی بیٹھنے نہیں دے گی۔

ہوسکتا ہے کہ میں ماہل سے کبھی بھی نہ مل پاؤں لیکن یہ میرا ایمان ہے کہ ماہل جہاں کہیں بھی ہو، کسی بھی حالت میں ہو اپنے دشمنوں کو ضرور شکست دے گی اور انہیں باور کرائے گی کہ ہم ہر وقت اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ہمیں کوئی بھی بہلا نہیں سکتا، ہزاروں زنجیروں میں باندھ کر بھی ہمارے فکر کو ختم نہیں کرسکتا۔ وہ میری جونیئر تھی لیکن میں نے ماہل سے بہت کچھ سیکھا، میرے اُستادوں میں سے ایک ماہل ہے۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔