بلوچستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے – بی ایچ آر او

230

اقوام متحدہ جیسے اعلیٰ مہذب ادارے سمیت دیگر اداروں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے پامالیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے کہ آپ کے علم میں ہے کہ بلوچستان گزشتہ کئی دہائیوں سے فوجی آپریشنوں کے زد میں ہیں، آئے روز کے آپریشنوں میں ہزاروں کی تعدا د میں لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا، کئی لوگ ان آپریشنوں میں اپنے مال و مویشیوں سمیت جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، کئی لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں روز بروز اضافہ تشویشناک عمل ہے جس نے لوگوں کے طرز زندگی کو کافی حد تک متاثر کرکے انہیں نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔سیکورٹی فورسز کی جانب سے جاری آپریشنوں میں لوگوں کی ہلاکت، ان کی جبری گمشدگی کے واقعات بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا مظہر ہے جس سے کسی بھی صورت چشم پوشی نہیں کیا جاسکتا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں میں بھی خاصا اضافہ ہورہا ہے۔ ماہ ستمبر 2018 بھی دیگر مہینوں کی طرح عوام پر قہر کی صورت میں نازل ہوا، بلوچستان کے طول و عرض میں جاری آپریشنوں میں انسانی جانوں کا ضیاع، ان کے گھروں کو جلانے کے واقعات، جبری گمشدگی کے واقعات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جس پر عالمی دنیا کی خاموشی ایک حیران کن عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ ایک سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے جس میں بھرپور منصوبہ بندی کے ذریعے اضافہ کیا جارہا ہے۔ جبری گمشدگی کے واقعات نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو شدید خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سیکورٹی فورسز نے جھاؤ اور گردنواع کے علاقے کو گھیرے میں لیکر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے 4 خواتین سمیت متعدد افراد کو اغواء کرنے کے بعد مرکزی آرمی کیمپ منتقل کردیا۔ جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے خواتین کے ناموں کی شناخت خیر بی بی بنت محمد حسین، ماہ جان بنت محمد سلیمان، سمینہ بنت مراد اور لال خاتون بنت غلام محمد کے ناموں سے ہوئی ہیں جبکہ آواران کے علاقے پیراندار لوپ سے گل بہار زوجہ شہید رسول بخش کو اغوا کرکے آرمی کیمپ منتقل کردیا۔ سیکورٹی فورسز نے خواتین کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد کل علی الصبح رہا کردیا۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں لوگوں کو تفتیش کے نام پر اٹھا کر آرمی کیمپ منتقل کرنا، انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا نئی بات نہیں لیکن اب اس پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے مردوں کے بجائے عورتوں کو تفتیش کے نام پر گرفتار کرکے بلا وجہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس سے بلوچستان بھر میں خوف کے ماحول کو جنم دیا ہے۔

انہوں نے کہ 2009 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو جبری گمشدہ کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی جس کا تسلسل آج نہ صرف جاری ہیں بلکہ فوجی آپریشنوں، جبری گمشدگی کے واقعات میں بڑے پیمانے پر تیزی لائی گئی ہیں۔ پہلے پہل بلوچستان سے ان لوگوں کو اغواء کیا جاتا تھا جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا، رفتہ رفتہ اس پالیسی میں تیزی لا کر ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا اور احتجاج کرنے والے خاندانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی اور اب خواتین اور بچوں کولاپتہ کرنے کے عمل میں تیزی لائی گئی اور ان خواتین کو نشانہ بنایا گیا جن کے شوہر، بھائی یا خاندان کے دیگر افراد سیاسی عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔

دسمبر 2017 میں مشکے سے درجنوں خواتین کو اغواء کرکے آرمی کیمپ منتقل کردیا گیا، گریشہ سے لاپتہ ثنااللہ کی اہلیہ کو تین بچوں سمیت اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح جولائی 2018 میں آواران، جھاؤ اور مشکے سے سینکڑوں افراد کو لاپتہ کرکے آرمی کیمپ منتقل کردیا گیا جن میں بزرگوں، نوجوانوں اور خواتین سمیت بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی جن کو شدید تشدد کے بعد آرمی کیمپ منتقل کردیا گیا جن خواتین کو اغواء کیا گیا ان میں گل بانو اور ان کی بیٹی گنجل بی بی، جھاؤ کوہڑو سے صائمہ زوجہ انیس جبکہ مشکے النگی سے نور ملک کو ان کی دو بیٹیوں سمیت اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا اور ان میں کئی خواتین کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شدید زخمی حالت میں رہا کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان ایک نو گو ایریا میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں فوجی آپریشنوں کے دوران مواصلات کے نظام کو مکمل جام کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جبری گمشدگی، آپریشنوں کے دوران کے نقصانات کا صیح تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا ہے اور میڈیا کی جابنداری اور اقوام متحدہ جیسے اعلیٰ مہذب ادارے سمیت دیگر اداروں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے پامالیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جاری خونی آپریشنوں میں اغواء ہونے والے خواتین کے دوران حراست قتل عام کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں، کچھ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہمراہ حاملہ خواتین کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا جو نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی انسانی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روندنے کے مترادف ہے۔

حالیہ دنوں جھاؤ کے علاقے ٹوبوکڈ سے 4 خواتین کی جبری گمشدگی اور آواران سے 1 خواتین کو آرمی کیمپ منتقل کرنا وہ تسلسل ہے جس کا آغاز دسمبر 2017 میں کردیا گیا تھا اور فورسز نے اسی تسلسل کو وسیع پیمانے پر بلوچستان بھر میں اسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سیاسی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے انسانی حقوق سے محروم کرنے کی کوششوں میں بھرپور تیزی پیدا کردی ہے۔

انہقں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات، فوجی آپریشنوں میں خواتین اور بچوں پر تشدد اور سیاسی کارکنان کی ماورائے عدالت قتل نہ صرف عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی اقدار کو اپنے پاؤں تلے روندھ کر انسانیت کی تذلیل کرنے کی کوشش ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات عالمی انسانی اداروں کیلئے شرم کا باعث ہے۔ یہ انسانی مسئلہ نہ صرف بلوچستان کا مسئلہ ہے بلکہ یہ اس خطے کے لیے تشویشناک صورتحال ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر حکومتی اداروں اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اقدامات نہ اٹھائے تو انسانی المیے کا رونماء ہونا یقینی ہے جس کی ذمہ داری مہذب دنیا کے مہذب اداروں پر عائد ہوتی ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ آپ اس انسانی مسئلے کو بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کرکے اپنے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بھرپور انداز میں سر انجام دیں کیونکہ آپ کی جانبداری نے اس انسانی مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ آپ اس اہم انسانی مسئلے پر آواز اٹھا کر بلوچستان میں فوجی آپریشن، قتل و اقدام قتل، جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل عام جیسے واقعات کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرکے غیر جانبدار صحافی ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔