نوآبادیاتی نظام کے بلوچ سماج پر اثرات – حصہ سوئم – شہیک بلوچ

392

نوآبادیاتی نظام کے بلوچ سماج پر اثرات 
حصہ سوئم: تعلیمی پہلو

تحریر : شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

حصہ دوئم 

کارل مارکس نے برطانیہ کے ہندوستان میں ترقی کے منصوبوں کو ہی ہندوستان کی اصل ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔ ترقی کا لفظ اکثر سننے میں آتا ہے لیکن نوآبادیاتی نظام اپنے ترقی کی بات کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو منظم و طاقتور کرنے والی ترقی کو بیان کرتا ہے، دیسی کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے ترقی دینا چاہتا ہے لیکن اصل میں وہ اس کے ذریعے اپنی ترقی کے عمل کے منصوبے کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور ایسا تب تک ممکن ہے جب تک نوآبادیاتی نظام کا تسلسل برقرار رہے اور برقرار رہنے کے لیئے دیسی سے شعور کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ تعلیم کو کنٹرول میں رکھنا نوآبادیاتی نظام کی ایک گہری چال ہے۔ علم کی حقیقت کو گمراہ کن حد تک غلط بیان کرنا نوآبادیاتی پالیسیوں کا وطیرہ رہا ہے۔

برطانوی دور میں لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام جس کا مقصد مقامی نمائندے پیدا کرنا تھا، برطانیہ کے چلے جانے کے بعد آج تک وہی نظام تعلیم چل رہا ہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام برقرار ہے۔ ایک ایسی ذہنیت منتقل کی جارہی ہے جو بالکل اپاہج ہے، نقل زدہ ہے۔ رٹے لگانے سے لے کر امتحان حال میں نقل کرنے تک ہم کس تحقیق، تخلیق یا تنقید کی امید کرسکتے ہیں؟

نصاب اس قدر بوسیدہ ہے کہ طالب علم کے لیے بیزاری کا باعث بن جاتا ہے اور وہ بیزاری اس قدر شدید ہوتی ہے کہ طالب علم راہ فرار اختیار کرتا ہے۔

پاؤلو فریرے نے اس تعلیمی نظام کو بنکنگ طرز تعلیم قرار دیا یعنی ایسے سانچے تشکیل دینا جن میں اپنے من پسند مواد کو جگہ دیا جاسکے لیکن اس کے علاوہ کچھ بھی ان میں سمو نہ سکے۔ فریرے کا نیا انسان یا فینن کا اول کو آخر اور آخر کو اول ہونے کی راہ میں یہ بنکنگ طرز تعلیم ایک رکاوٹ ہے کیونکہ یہ انسان کو شعور دینے کی بجائے شعور کے تمام راستوں پر جانے سے پہلے ہی بیزار کردیتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فلسفہ، سائنس اور دیگر سماجی علوم سے دیسی خود کو محروم کرلیتا ہے۔ یہ نوآبادیاتی نظام کا ایک نمائندہ بننے کا سلسلہ ہے جس کے مدمقابل دیسی کے پاس کچھ ہے تو وہ مزاحمتی فکر جس کی بنیاد پر وہ مقامی نمائندہ بننے کی بجائے ایک انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ آج اگر بلوچ نوجوان باشعور ہے تو یہ بلوچ تحریک کا ثمر ہے، بی ایس او نے تخلیق، تحقیق و تنقید کا شعور دیا اور بلوچ نوجوانوں نے علم کی جانب سفر شروع کیا۔ فینن سے لے فریرے، نیچرل فلاسفرز سے لے کر کلاسیکل فلاسفی غرض ہر پہلو پر بلوچ نوجوان اپنے بساط کے مطابق تشنگی کو بڑھاتا گیا۔

آج بلوچ نوجوان کافی باشعور ہوچکا ہے لیکن اس شعور کو صحیح سمت فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں نوآبادیاتی نظام کی نفسیات میں الجھنے سے خود کو بچاتے ہوئے ایک نیا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

نوآبادیاتی نظام تعلیم کا مقصد ذہنوں کو انفرادی مفاد پرستی کی جانب دھکیلنا ہے کہ جہاں اجتماعی مقصد سے بیزاری دکھائی جائے لیکن ہمیں اپنی تحریک کو اس حد تک منظم کرنا ہوگا کہ نوجوان اجتماعی مقصد کے اہمیت بابت باشعور ہوں اور کہیں بھی ذاتی مفاد کے لیے اجتماعی مقصد کو نقصان نہ پہنچائیں بلکہ تحریک میں ایک مثبت کردار ادا کریں۔

بلوچ نفسیات پر برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی transformedقبائلی، مذہبی و تعلیمی نظام کے گہرے اثرات ہیں اور کہیں نہ کہیں یہ اثرات ہمارے تحریک کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بلوچ کی مزاحمتی تحریک ہی بلوچ قوم کی اصل بقاء ہے لیکن اسے جب تک منظم نہیں کیا جاتا تب تک یہ کسی نہ کسی سطح پر نوآبادیاتی پالیسیوں کا شکار ہوتا رہیگا لیکن جب ہم تحریک کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کرینگے تب نوآبادیاتی نظام ہمارے جدوجہد کے سامنے ڈھیر ہوجائیگا اور ہم ایک نئے سماج کی تخلیق میں کامیاب ہونگے۔

آخری تجزیہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ نوآبادیاتی نظام کے شکنجوں کو سمجھ کر اپنی تحریک کو اس کے پنجے سے نکال کر منظم کرنے میں لگائیں اور انتہائی محنت سے دوبارہ تحریک کو نیشنلزم کے ڈگر پر گامزن کریں کیونکہ یہی شعور کا حاصل حصول ہے وگرنہ کج روی نے آج تک مسائل پیدا کرنے کے کسی مثبت رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ آج بلوچ تحریک ایک نئے فیز میں داخل ہوچکی ہے اور ہم پر ذمہ داریاں بھی کئی زیادہ ہے اس کے لیے تمام ہم فکر جہدکاروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔