منفی انائیت – تحریر: برزکوہی

420

منفی انائیت
تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

اکثر سوچتا ہوں کس طرح اور کیسے اپاہچ بلوچ قبائلیت، نیم قبائلیت اور روایتی طرز سیاست کے منفی اثرات، علامات، حرکات، عادات اور خصلتوں کو آسان انداز میں آسانی کے ساتھ قرطاس پر اتاروں، تو پھر دماغ میں مشکلات اور امتحان کی گھڑی کی سوئی چلنا اس وقت شروع ہوتا ہے، جب ذہن میں یہ بات گھوم گھوم کر ذہن کو بدترین الجھن میں مبتلا کردیتا ہے کہ کیا اپاہچ بلوچ قبائلیت نیم قبائلیت اور روایتی طرز سیاست کے منفی اثرات، علامات اور حرکات کو ایک ایک کرکے سیدھے سادھے اور واضح انداز میں قلم بند کرنا یا اظہار رائے کے طور پر پیش کرنا خود قلم اور تحریر کے معیار کی توہین اور ستیاناس کرنا نہیں ہوگا؟ آپ سوچ رہے ہونگے کیسے؟ اس لیئے نہیں کہ ان کو بیان کرنا اور ان کی نشاندگی کرنا مناسب اور ضروری نہیں بلکہ اس لیئے کہ یہ ایسے ہلکے پھلکے گرے ہوئے اور سطحی رویوں اور رویوں سے جنم لینے والے علامات ہیں کہ ان کو اپنانا اپنی جگہ کم از کم اس اکیسویں صدی کے دور میں بحثیت ایک قوم اور بحثیت ایک قومی جہدکار کہ اب بھی اور اس حالت میں جہاں قومی زیست و موت اور بقاء اور فنا کا پروانہ سر پر منڈلہ رہا ہو، پھر بھی ان کو زیر بحث لانا بھی باعث شرمندگی ہوتا ہے۔ مگر کیا کریں! ان کی موجودگی بھی حقیقت ہے، ان کے نقصان اور منفی اثرات اور اثرات کی اثر اندازی بھی حقیقت ہے، تحریک کو آگے بڑھنے سے روکنے اور اسپیڈ بریکر لگانے اور انکا بطور رکاوٹ بننا بھی ایک حقیقت ہے اور بلوچ قومی تحریک کو زوال اور برباد کرنے کا اہم عنصر ہونا بھی حقیقت ہے۔

کبھی کبھار میں زوال اور بربادی کی بات لیکر جب زبان پر لاتا ہوں تو اکثر اسے مایوسی، ناامیدی اور بے بسی کے معنوں میں کچھ ذہن قبول کرتے ہیں، جو سراسر غلط ہے، کم از کم میں مکمل پراعتماد اور پر امید ذہنی سطح تک یہ برملا اور فخریہ کہتا ہوں، میرے نزدیک اس وقت اور آئیندہ بھی مایوسی ناامیدی اور بے بسی کا ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں، البتہ ایسے رویوں کو بار بار ہرمقام، ہر سطح پر بیان کرنا اس سوچ اور نیت کے ساتھ ان کا بیخ کنی اور حوصلہ شکنی ہے اور یہ ختم و کمزور بھی ہورہے ہیں لیکن اگر حالات اور چلیجنز کے پیش نظر بروقت ختم نہیں ہوئے، پھر شاید خدا نہ کرے ہم یہ بھی موقع گنوا دیں گے اور پھر قومی تحریک ایک تاریکی میں بٹھک کر سرد خانے کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسی سوچ، احساس، درد، خدشے، تکلیف اور پریشانی کو لیکر انتہائی شدت، نفرت اور حقارت سے ایسے رویوں کی مخالفت کرنا، ان پر سختی سے تنقید کرنا شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ ردعمل کیا ہوگا؟ کیسا ہوگا؟ اس کی پرواہ نہیں، اپنا ذات، نفرت کا نشانہ بنے گا، متنازع ہوگا، ناقابل قبول ہوگا کچھ حیرت اور مسئلہ نہیں، قومی تحریک قومی مفاد اور قومی مقصد کے حصول کی خاطر یہ سب سے آسان سودا ہے اور یہ سودا شعوری بنیادوں پر قبول کر چکے ہیں۔

تو میں پہلے بارہا کہہ چکا ہوں، تجربہ اور مشاہدہ کرچکا ہوں کہ اس وقت پورا بلوچ سماج سنڈیمن اور پنجابی کی مشترکہ تشکیل شدہ اپاہچ قبائلی و نیم قبائلی اور سیاسی حوالے سے روایتی پاکستانی طرز سیاست یعنی مسلم لیگ، پی پی پی، جمییت، بی این پی، نیشنل پارٹی، تحریک انصاف وغیرہ جیسے سیاسی خدوخال میں مقید اور اثرات کاشکار ہے اور پھر بلوچ قومی تحریک کا جنم اور تخلیق بھی ایسی خدوخال معاشرتی اثرات اور ماحول کی کوکھ سے ہوا تو قومی آزادی کی منفرد فکر اور قربانی، محنت اپنی جگہ لیکن سماجی اثرات کا لامحالہ قومی تحریک پر اثر اندازی بھی ایک حقیقت ہے۔ میرے ادراک، حس اور احساسات کی گھنٹی باربار ہر وقت دماغ کو پیغام ارسال کرتی ہے کہ جب تک یہ اثرات کم یا بعض سطوحات پر بلوچ تحریک میں دستیاب ہونگے، تو پھر اس وقت تک قومی تحریک کی کامیابی ممکن نہیں بلکہ انتشار، تقسیم در تقسیم، قومی تحریک کا مقدر ہوگا۔ شاید میں غلط ہوں لیکن کیا کریں اب یہ خیال، تصور یا آپ کہہ سکتے ہیں تلخ حقیقت میرے ذہن اور شعور کا حصہ بن چکا ہے، شاید اس سوچ اور خیال سے چھٹکارہ اب ممکن نہ ہو۔ اس وقت تک جب تک کوئی ٹھوس دلیل، علم، تحقیق اور فلسفہ اس تصور کی ضد میں پیش نہ ہو۔

انگریز سنڈیمن، بشمول پنجابی کا مشترکہ تخلیق اور تشکیل شدہ اپاہج قبائلی و نیم قبائلی اور روایتی طرز سیاست کے علامات، عادات، رویے، خصلتیں اور منفی اثرات چیدہ چیدہ اور قابل ذکر جو کہ غور طلب ہیں درج ذیل ہیں۔

سب سے پہلا انا یا اناپرستی تو انا ایک فطری چیز ہے لیکن اس کا بھی مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے، مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وه انسانیت کے لیئے خیر ثابت ہوگا ، اور اگر ان کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو انسانیت کے لئے شر بن جائیں گے –

بقول اسکالر مولانا وحیدالدین انانیت (ego) کا مثبت یہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لئے جمنے کا مزاج پیدا هوتا ہے- اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ هو تو وه موم کی مانند هو جائے گا اور عزم و جزن کے ساته وه کوئی کام نہ کر سکے گا – انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گهمنڈ کا مزاج پیدا هو جائے- آدمی کو چاہیئے کہ وه اپنی انانیت کو اس منفی حد تک نہ جانے دے، ورنہ وه تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا –

تو بلوچ تحریک میں انا کی مثبت پہلو کم منفی پہلو زیادہ نظر آتے ہیں اور انا کے ان منفی پہلوؤں سے ضد، ہٹ دھرمی، گھمنڈ، غرور، تکبر، حسد، خودغرضی، لالچ، سستی شہرت، بدنیتی، منافقت، جھوٹ، دھوکہ و فریب وغیرہ وغیرہ پیدا ہوتا اور یہ رویے خود بہت سے ایسے رویوں کو جنم دیتے ہیں جو قومی تحریک کے لیے زہر قاتل بن جاتے ہیں، جن کی بنیاد ہمیشہ انا کا منفی پہلو ہوتا ہے، جو بعد میں مختلف شکل اختیار کر لیتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1۔بدترین شکل بلوچ ہوتے ہوئے، بلوچ کہتے ہوئے اپاہچ قبائلیت اور روایتی سیاست کی کٹر مخالفت کرتے ہوئے پھر بھی عملاً انقلابی بلوچ نہیں بننا بلکہ اندر ہی اندر سے رویوں، کردار، فعل و حرکات اور عمل سے اپاہچ قبائلیت اور روایتی سیاست کے بدبودار علامات ظاہر کرنا ہے، بے شک ہم بلوچ ہوسکتے ہیں لیکن انقلابی بلوچ نہیں جب خود انقلابی بلوچ نہیں پھر انقلاب اور قومی آزادی لانا کیا ممکن ہوگا؟

2۔اپنی کمزوری، غلطی اور خامیوں کو کبھی بھی نہیں ماننا، کبھی کبھار زبان کی حد تک یا ایک حد تک تسلیم کرنا لیکن دل و جان سے اور عملا! تسلیم نہیں کرنا بلکہ بلاواسطہ یا بالاواسطہ دوسرے پر ڈالنا اور اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کےلیئے جھوٹ جواز اور بہانہ گھڑکر پیش کرنا یعنی برملا تسلیم نہیں کرنا اس سوچ کے تحت میں کیسے غلطی کو مان کرغلط ہوسکتا ہوں کیسے اپنے آپ کو غلط کہوں؟ یہ سوچ خود انا کا منفی استعمال ہوتا ہے۔

3۔کسی دوسرے کو اپنی مرضی منشاء اور خواہش کے مطابق کوئی بھی معمولی یا غیر معمولی کام فراہم کرنا اور کروانا خود انتہائی چالاکی اور ہنرمندی سے شریک ہونا بھی اور لاشریک ہونا۔ نتیجہ صحیح ثابت ہوا تو سینہ تان کر اپنے کھاتے میں ڈالنا نتیجہ غلط ثابت ہوا تو پھر خود کا ہاتھ کھینچ کر دوسرے کے حصے میں ڈالنا۔

4۔کتنا ہی قریبی، بااعتبار، ایماندار، بازو اور جگری دوست یا اس کے ساتھ خونی رشتہ بھی ہو اس کی ہمت، علم و شعور ہنر صلاحتیوں اور کارناموں کو زبان ہی سے داد دینا لیکن دل و دماغ میں برداشت نہیں کرنا بلاواسطہ یا بالوسطہ اس کی عمل اور کردار کی مخالفت اور اس میں کیڑا نکالنے کی کوشش کرنا، جس کے تانے بانے برائے راست عدم برداشت پر مضمر ہو۔ یعنی عدم برداشت کا رویہ اور ذہینت بھی ایسی گندی سوچ کی عکاسی ہوتا ہے۔

5۔یہ سوچ کر یہ تسلیم کرنا کہ وہ صحیح کررہا ہے اور صحیح کہہ رہا بلکہ حقیقت بھی یہی ہے اور برملا بلکہ عملاً اسے تسلیم کرنا اور داد دینا چاہیئے لیکن اس کے صحیح کہنے اور کرنے کو اس بنیاد پر غلط ثابت کرنا کیونکہ دوسرا کہہ رہا ہے، میں نے کیوں ایسا نہیں کہا اور ایسا نہیں کیا یا نہیں کرسکتا ہوں، یہ حسد بغض اور جلن کی واضح نشاندہی ہوتا ہے۔

6۔خود غرضی کے مختلف شکل ہوتے ہیں بدترین اور پہلا شکل صرف اور صرف اپنی ذات کے علاوہ باقی کسی کا نہیں سوچنا، ہر چیز، ہر خواہش، آرام و سکون، سہولت، شہرت، عزت و مرتبہ، مقام، حیثیت، دولت، طاقت پورے قوم، دنیا، دوست، تحریک بھاڑ میں جائیں صرف میرے ذات اور میرے خاندان کو تسکین پہنچے۔ اس کے بعد پھر اپنے قبیلے، مخصوص گروہوں اور تنظیم کا سوچنا بھی خود غرضی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، ڈاکٹر چے گویرا اس لیئے دنیا میں عظیم نہیں ہوا کہ وہ صرف جہدکار یا گوریلا لیڈر تھا یا شہید ہوا بلکہ اس لیئے عظیم ہوا کہ وہ اپنے ذات، خاندان، قوم، علاقہ، ملک، سب کی سوچ سے نکل کر پورے انسانیت کی غرض میں قید ہوا، اسی لیئے بے غرض انسان چے گویرا کے نام سے یاد ہوتے ہیں۔

خود غرضی کی پہلی شکل اپنی ذات اور خاندان والی شکل کے لوگ کبھی بھی کسی وقت بھی انقلابی نہیں ہوسکتے ہیں، وہ صرف اور صرف انقلابی تحریک کے ساتھ اگر وابستہ ہوتے ہوئے بھی اپنی معاشی مفادات سستی شہرت کی خاطر تگ و دو کرتے ہیں، جن میں ذرہ بھی اجتماعی و قومی احساس اور مخلصی نہیں ہوتا ہے، ان کے سارے کردار و عمل مصنوعی اور ظاہری ہوکر سادہ لوح لوگوں کو آحمق اور بے وقوف بنانے کی خاطر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا، جس طرح مذہب کے نام پیر و مرشد بزگ اور ملا اور تحریک کے نام پر ایسے خود غرض لوگ ہوتے ہیں۔

7۔دوسروں کو اپنی نظر میں حقیر و فقیر نتو خیرو سمجھ کر خود کو عقل کل، عقل سلیم سمجھنا دوسروں کی باتوں اور موقف پر توجہ نہیں دینا، نہیں سننا، اپنا منہ ادھر ادھر کرنا یا اپنا گردن آسمان پر لٹکا کر دوسروں کو اہمیت نہ دینا یا ان کا مذاق اور طنز اڑانا یا اپنی بات کو زبردستی منوانا، جذباتی ہونا، اوٹ پٹانگ دلیل دیکر غصے میں کسی کو خاموش کروانا، دراصل گھمنڈ کے ساتھ ساتھ بدترین جہالت کی نشاندگی ہوتا ہے۔

8۔اپنی ذاتی سوچ، مزاج، طبیعت، مرضی اور خواہش کے برعکس معمولی سے غیر معمولی کسی دوسرے بندے کی بات اور چیز کو برا مان کر زندگی بھر دل و دماغ میں جگہ دیکر غصہ ناراضگی اور نفرت کا انتقام لیکر مکمل لاتعلق رہنا، بجائے بحث و مباحثہ اور دلیل کے یہ سوچ خود کم علمی کے زمرے میں شمار ہوکر ایسے گندی ذہینیت اور رویوں کی عکاسی ہوتا ہے۔

9۔حقیقت، سچائی، اپنا شعور، ضمیر اور اصل حقائق سے برعکس سب کو خوش کرنے کی خاطر لحاظ، رواداری، ذاتی سنگتی، تعلق، رشتہ داری، قبیلہ و علاقہ پرستی، ماحول، ذاتی مفاد، اور متنازع ہونے کی ڈر سے ہر ایک کے مزاج، طبیعت اور خوش رکھنے کی خاطر من و عن اسی طرز کا موقف اپنانا یا ہر جگہ اپنی باتوں اور آراء کو اسی ماحول اور لوگوں کے مزاج کے مطابق تبدیل کرنا منافقت کی آخری انتہاء اور چاپلوسی اور خوشامدی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

10۔لوگوں کو خاص کر دوستوں کو ایک فکر، سوچ، پروگرام، پالیسی، علم و شعور کے بجائے سطحی چیزوں مراعات، سبزباغ دکھانے جھوٹی تسلیاں دلانے، ان کے دل و دماغ میں ہمدردی حاصل کرنے، خود بدترین دھوکا و فریب ہے اور یہ عمل خود مستقبل میں نفرت کا نشانہ ہوگا، جو اس شخص نے خود پھیلایا تھا۔ یہ گندی ذہینت خود تحریک کے لیئے کینسر سے کم نہیں۔

11۔باقی بلوچوں اور باقی علاقوں سے اپنے علاقے اور قبیلے کو شعوری یا لاشعوری طور پر اہمیت دینا، فخر محسوس کرنا، خود قبائلیت اور علاقائیت کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جو تحریک کی تقسیم کی ایک بنیاد ہے۔

12۔لیڈری اور کمانڈری، تنطیم پارٹی اور تحریک میں ایک سائینسی طریقہ کار ذمہ داری اور ذریعہ ہوتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، جب بھی یہ عاجزی اور انکساری سے الگ ہوکر مرتبہ شہرت مقام اور دوسرے سے اعلیٰ شکل اختیار کرلے گا یا اس میں معتبری کا ایک ہلکا سا جھلک نمایاں ہوگا تو پھر یہ خود اپاہچ قبائلی و نیم قبائلی سرداری نوابی ٹکری وڈیرہ میر و معتبر اور جاگیردارانہ شکل اختیار کریگا، جس کے منفی اور گند آلود اثرات سے پورا تحریک متاثر ہوگا اور تحریک پارٹی اور تنظیم میں معتبری کا ایک رجحان اور شوق پروان چڑھ کر تحریکی ذمہ داریاں اور سرگرمیاں رفتہ رفتہ منہدم پڑجائینگے اور کمانڈر اور لیڈر کا رویہ اور طرز عمل بھی سردار نواب میر و معتبر اور وڈیروں جیسا ہوگا، پھر صرف اور صرف ایک دوسرے کے ٹانگیں کھینچنے اور سازشیں شروع ہوگا جو تحریک کا زوال ثابت ہونگے۔

13۔قطع نظر سیاسی اختلافات، نظریاتی اختلافات، علمی اختلافات، غیر معمولی مسائل ایشوز اور ناقابل حل معمالات اور غلطیوں کے علاوہ صرف ذاتی ضد مخالفت معمولی آسائش، مراعات، عہدہ، سستی شہرت، لالچ کے خاطر ایک پارٹی سے دوسرے پارٹی میں آنا جانا روایتی طرز سیاست کے لوٹاگری جیسے اثرات کے علامات ہیں، یہ رجحان مستقبل میں قومی تحریک کو پارلیمانی طرز سیاست میں تبدیل کردیگا، جو کہ انتہائی خطرناک رجحان ہے ایک دوسرے کے خلاف سازش عروج پر ہونگے سارا توجہ اسی پر ہوگا، دشمن درمیان سے غائب ہوگا۔

14۔کوئی بھی کام اور کارنامہ خدا کرے قومی تحریک بلوچ قوم کے لیے کتنا سود مند ہو، جب تک اس کام اور کارنامے کو قبول نہ کرنا مسترد کرکے اس کا مخالفت کرنا، اس سوچ کے تحت کہ کیوں میرا مرضی، صلاح ومشورہ شامل نہیں ہے، چاہے پینے کھانا کھانے سے لیکر کپڑے بدلنے تک صلاح و مشورے کا بھوکا رہنا، اس کو اپنی شان عزت تصور کرنا آخری حدتک پسماندہ اور پستی سوچ کا عکاسی ہوتا ہے۔ جو اپاہچ قبائلی سماج کے منفی اثرات ہیں۔ اور نفسیاتی حوالے سے مصنوعی عارضی معمولی عزت حاصل کرنے کی بھوک، خود احساس کمتری اور اپنی بے عملی اور نااہلی کی خود علامت ہوتا ہے یا پھر روایتی طرز فیصلہ خود کرنا صرف بطور رسم اور مصنوعی طور پر کسی سے صلاح و مشورہ کرنا، صلح مشورے کی شکل میں صرف اطلاع دینا اور دوسرے کو خوش کرنا بھی دھوکا اور فریب کے زمرے میں آتا ہے۔ یا پھر کسی بھی چیز پر صلاح و مشورہ اس لیئے نہیں کرنا کہ اگر صلاح و مشورہ کیا تو جس سے مشورہ کرنا ہے اس کی اہمیت بڑھ جائےگا، بس اس کو اتنا اہمیت نہیں دینا۔ یہ بھی انتہائی منفی اور عدم برداشت کا رویہ ہوتا ہے۔

یہ اور بات اور ایک الگ اور طویل بحث ہیں کہ تنطیموں میں کہاں اور کس وقت کس سے کیوں صلاح و مشورہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا کیوں نہیں ہوتا ؟ اس موضوع پر کسی اور وقت اکیڈمک بنیاد اور تنطیمی اصولوں کے بنیاد پر کسی اور مضمون میں بحث کرینگے۔

15۔کسی تحریکی دوست کو اس کے غیر ذمہ داری، غلطی، کمزوری یا بلاوجہ بطور سزا بطور احساس اس کو نظر انداز کرکے اور لاتعلق ہوکر بجائے قائل کرنے سمجھانے اور دلیل دینے اور کھلم کھلا مثبت انداز میں اسے اس کی غلطی اور کمزوری کا احساس دلانے یا سمجھانے، دوسرے کو اس بنیاد پر ترجیح اور ذمہ داری دینا تاکہ اس کو تکلیف اور احساس ہو یہ بذات خود بلیک ملینگ کے زمرے میں شمار ہوگا، اس کو احساس نہیں بلکہ مزید نفرت ہوگی۔

16۔معمولی یا غیر معمولی تنظیمی اور تحریکی کاموں کو بھول جانا، اہمیت نہ دینا یا نظرانداذ کرنا آج نہیں تو کل اور کل نہیں پرسوں تو پرسوں نہیں ہفتہ، مہینہ، سال لیکن اپنی ذاتی کاموں پر ایک منٹ طوالت برداشت نہیں کرنا، مکمل یاداشت کے ساتھ مکمل توجہ اور دلچسپی کے ساتھ اپنے ذاتی کام کرنا، پھر قومی فکر قومی کام قومی مقصد اور قوم کے ساتھ سوفیصد مخلص اور ایماندار ہونا خود مشکوک ہوتا ہے پھر سارے اجتماعی درد احساس مخلصی اور ایمانداری کے دعویں صرف دعوے اور مصنوعیت ہوتے ہیں۔

قوم و قومی فکر اور مقصد سے ایمانداری اور مخلصی کا سب سے آسان اور سادہ ترازو یہ ہے کہ ہر 24 گھنٹے کے بعد کوئی بھی جہدکار یہ سوچ لے کہ آج میں نے قوم و قومی فکر اور قومی مقصد کے لیئے کیا کیا ہے؟ اور اپنے ذات کے لیئے کیا کر چکا ہوں؟ تو پھر خود دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگا یعنی ترازو کس طرف بھاری ہوگا۔

17۔جو چیز میرے لیئے جائز ضرورت، مفاد خواہش اور طبیعت کے مطابق ہے، ان کو بس اصول اور روایات کا نام دینا، پہلے یہ دیکھنا کیا وہ واقعی تحریکی تقاضات کے مطابق ہیں؟ یا مزاج اور طبیعت اپنی ذہنی اختراع ہیں؟ یعنی دوسروں کے لیے وہ تمام چیزیں اور رویے صرف مختلف شکل و صورت اور نوعیت کی وجہ سے حرام اپنے لیے حلال اور پھر اس حوالے سے مختلف من گھڑت دلیل جواز اور بہانہ پیش کرنا روایتی سوچ کی اہم مرض ہے۔

18۔جلد ماحول اور حالات سے یا دوسرے کی باتوں سے متاثر ہونا سنی سنائی باتوں پر بغیر تحقیق کے یقین کرنا یہ خود نفسیاتی مرض ہے بقول فلسفی نطشے ایک Heard instinct ہوتی ہے، یہ انسان کی وہ جبلت ہے جو ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین دلا دیتی ہے۔ یہ وہ جبلت ہے جو ماسسز کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ پھر انہی سنی سنائی باتوں پر ایمان کی وجہ سے ہمارے اندر سنی سنائے جذبات اور اخلاقیات پیدا کردیتی ہے۔ ( heard morality )

اسی سے پھر ماس اوسط عامیانہ درجے کی زہانت والے غیر تخلیقی لوگ بنتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں میکانیکی سطح پرگزارتےہیں۔ ڈاکٹر، وکیل پروفیسر ٹیچر انجنیئر، پی ایچ ڈی، میکینک، مزدور، دکاندار بن جاتے ہیں جن کا کام سوچنا، تحقیق جستجو اور غور کرنا، یا سوال کرنا نہیں ہوتا۔۔بلکہ فالو کرنا ہوتا ہے وہ صرف کاپی پیسٹ ہوتے ہیں۔ جو سنتے ہیں۔ وہ اٹل سچائی ہوتا ہے۔ ان کے سوالات بھی بڑے عامیانہ سطح کے ہوتے ہیں۔ ‘نیک’ اور نیکی کے پرچارک بھی یہی غیر ذہین عامیانہ ذہنی سطح کے حامل لوگ ہوتے ہیں۔

19۔کسی سے اختلاف، تضاد، غصہ، ناراضگی ہو آمنے سامنے بات کرنے یا اپنے بات کو رکھنے سے گریز کرنا راہ فرار اختیار کرنا اور پشت پیٹ اور دوسرے کے غیر موجودگی میں بات کرنا الزامات منفی پروپگنڈہ اور کردار کشی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، جو انتہائی بزدل اور کم ظرف لوگوں کی ذہنیت ہوتا ہے۔

20۔اپنی تعریف پر خوش ہونا، ہر انسان کی خصلت ضرور ہوتا ہے لیکن اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر بات کرنے کو برداشت نہیں کرنا، چہرے کا زرد ہونا، غصہ کرنا، جذباتی ہونا، تعلقات کو منقطع کرنا اور اپنی تعریف کرنے والے کو سرپرچڑھانا خود کم عقل اندر سے خالی خولی اور ناکام لوگوں کی نشانی ہوتا ہے۔

21۔تنظیم پارٹی قومی فکر اور مقصد کے بجائے انحصار توقع افراد شخصیتوں کے اوپر ہو، ہمیشہ ذہن پر یہ سوچ موجود ہو بس ہماری ساری کے ساری توقع امید فلاں شخص فلاں فرد سے ایسی سوچ خود محدود اور سطحی سوچ کے ساتھ تحریک اور تنظیم کے لیئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں، میں فلانہ سردار، میر نواب لیڈر اور کمانڈر کا بس بندہ ہوں، یہ سوچ خود روایتی سوچ کی عکاسی ہے پھر تنطیم پارٹی قومی فکر سوچ کہاں؟ ان کا اہمیت کیا ہے؟ یہ بھی اپاہچ قبائلیت اور روایتی طرز سیاست کی کوکھ سے جنم لینے والی سوچ اور رجحان ہے۔

22۔تنطیمی اور تحریکی چھوٹے چھوٹے کاموں پر توجہ نہ دینا اور انہیں نہیں کرنا، اپنی شان و شوکت کے خلاف تصور کرنا ہر کامیابی کو بالواسطہ یا بلاواسط اپنے سر لینے اور ناکامی کو دوسروں پر ڈالنا خود پرستی اور نرگسیت کے مرض میں مبتلا لوگوں کی علامات ہوتا ہے۔

23۔اپنی ماضی کی معمولی یا غیرمعمولی کاموں یا کارناموں کو ہمیشہ داستان کی طرح فخریہ یاد کرنا، حال سے بے خبر اور غیرمتحرک ہونا اور مستقبل کو فراموش کرنا، بس حالات کے رحم و کرم پر زندگی گذارنا وقت گذاری اور وقت کو ضیاع کرنے اور ماضی پرستانہ سوچ کی عکاسی ہوتا ہے جو انسانی زوال کی واضح علامات ہوتے ہیں۔

24۔میں اور مسلسل اور ہمیشہ ہر جگہ ہر محفل اور ہرکام میں اگر میں میں کا لفظ استعمال کرلے کوئی پھر یہ جان لینا ایسے بندے صرف یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ میں ہوں، اگر میں نہیں ہوتا تو کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ بگڑ جاتا، ایسے انسان ذہنی اور عملی طور پر کسی کو بھی قبول نہیں کرتا، بحالت مجبوری سب کے ساتھ ہوتے لیکن دل و دماغ سب کچھ خود کو سمجھتے ہیں۔

25۔اپنے ماتحت شخص یا ٹیم ورک کو کوئی کام اور ذمہ داری سپرد کرنا، اس کی نگرانی اپنی جگہ لیکن ہاتھ میں ڈنڈے لیکر اس کے معمولی سے معمولی چیزوں پر ہر وقت اس سوچ کے تحت نظر رکھنا، کام اور ذمہ داری جب خراب ہوگا، تو اس پر الزام کا بوچھاڑ کرنا، اگر صحیح اور کامیاب ہوگیا، اپنے سر لینا یہ رویہ خود آخرکار ماتحت کام کرنے والوں پر نفسیاتی دباو ڈال دیگا، ان کا ہمیشہ کام خراب ہونگے اور خود ذہنی تناو کا شکار ہونگے۔

تو سب سے پہلے اپنی ذاتی تجربات، مشاہدات تعلیمی نفسیات و تعلیمی فلسفہ اور دوسرا مختلف تحریکات و لیڈروں کے کردار و عمل سے کم یا بہت استفادہ اور علم حاصل کرکے جو کچھ اظہار کیا، شاید وہ مکمل نہیں ہے اور مزید تفصیل وضاحت اور تشریح کرنے تشنگی بھی باقی ہے اور سب کو ایک مضموں میں سمو دینا شاید ممکن نہیں اگر مزید وسعت دیا جائے پھر مضمون کا معیار اور اصول سے نکل کر شاید کتابی شکل اختیار کرلے، اگر موقع اور توفیق ملا تو ضرور اسی اہم موضوع کو لیکر کتابی شکل میں مزید تفصیل کے ساتھ پیش خدمت کرینگے۔

یہ میرے صرف ذاتی نقطہ نظر اور ذہنی اختراع نہیں بلکہ تعلیمی نفسیات اور تعلیمی فلسفے کو جھنجھوڑ کر انسان کے کردار عمل و حرکات علامات اور باڈی لینگوہج انہی رویوں کا تشخیص کرتا ہے، علم نفسیات اور علم فلسفہ خود علم سائینس ہے، پھر علم سائنس کو مسترد کرنا، خود جہالت اور پسماندگی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

پھر ذاتی تجربات، تعلیماتی نفسیات اور تعلیمی فلسفے سے استفادہ اور تحقیق کرکے کوئی لاکھ اختلاف رکھے، میں بذات خود اپنے اس موقف پر قائم ہوں، اس وقت جب تک کوئی ٹھوس دلیل اور علمی تھیوری مقابلے میں سامنے نہ آئے، میں اپنی اس آراء اور موقف پر مکمل پراعتماد ہوں، جب تک بلوچ قومی تحریک برائے قومی آزادی میں قیادت سے لیکر جہدکاروں تک ایسے رویوں امراض خصلتیں موجود ہونگے، اس وقت تک بلوچ قومی تحریک ایک منظم اور موثر شکل اختیار نہیں کریگا بلکہ مشکلات دن بدن بڑھتے چلے جائینگے کم نہیں ہونگے، جب مشکلات اور مسائل زیادہ سے زیادہ ہونگے پھر منزل بھی دور سے دور تر ہوگا۔

تو علم و شعور سے ذہنی و فکری تربیت مدلل بحث و مباحثہ اور دشمن کے خلاف قومی جنگ کی شدت سے ایسے تمام منفی رویوں اور امرض کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی ہوگی، اس حوالے سے جتنا بھی ممکن ہو، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا ساتھ تیزی سے کام کرنا چاہے، صرف اچھا تصور ہی ہوگا اور کچھ نہیں۔

ضروری نہیں یہ رویے صرف قیادت میں ہو، ایک عام کارکن بھی میں بھی ہوسکتے ہیں مجھ میں بھی ہوسکتے ہیں، عام بلوچ میں بھی ہوسکتے ہیں، مگر مجموعی طور پر کسی میں کم کسی میں بھاز ضرور موجود ہیں، تو مقصد بالکل نہیں ہونا چاہیئے میرے خیال کے مطابق موجودہ حالات، درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھ کر پہلے بھی ایسے رویوں کی گنجائش نہیں تھی اب بالکل نہیں ہے، بس ہمیں صرف اور صرف انقلابی بلوچ عملاً بن کر ثابت کرنا ہوگا۔

اگر کوئی ان ہی تحریک مخالف غیرانقلابی رویوں، منفی رویوں کے وجوہات کے لیئے لاکھ جواز، دلیل، منطق، پیش کرے، کم سے کم میرا ذہن قبول نہیں کرتا ہے سوائے اس وقت عملاً تبدیلی کے اور کوئی گنجاہش نہیں۔

میں خود ہر سطح پر پہلے اپنی ذات سے لیکر کسی میں بھی ہو ضرور ان کی حوصلہ شکنی کروں گا، میں واضح کرتا ہوں کم از کم ہم کسی ایک مخصوص طبقے، افراد، گروہ کے خلاف نہیں ہیں، یہ رویے کسی اپاہچ قبائلی سردار، میر و معتبر، لیڈر، شوان بزگر، ڈرائیور، مزدور، دکاندار، کارکن وغیرہ یعنی تحریک سے وابستہ جس میں بھی دستیاب ہو، انہیں ان کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی مثبت انداز میں شدت کے ساتھ کرنا چاہیئے اگر کوئی بھی ہو عملاً ایسے گندے ذہنیت، سوچ و خیال سے پاک عملاً انقلابی بلوچ بن کر جدوجہد، قومی آزادی کا حصہ ہے یا ہوگا ضرور ہمارے لیئے اور سب کے لیئے قابل قبول ہوگا اور قابل قبول ہونا بھی چاہیئے۔