شہداء زہری اور بے غرض خضدار تحریر: میر احمد

514

شہداء زہری اور بے غرض خضدار

تحریر: میر احمد

دی بلوچستان پوسٹ

جب شہید امتیاز جان کی شہادت کی خبر ملی تو میں حیران رہ گیا، ایک سوچ نے شدت سے دماغ کو گھیر لیا میں خود کوخود میں ڈھونڈ نےلگا، سوچوں میں گم ہوا کیونکہ میں جب بھی فیسبک پر آجاتا تو اپنے پکچر اوپلوڈ کرتا یا کسی دوست کی تصویر دیکھ کر کمنٹس میں اس کی تعریف کرنے لگتا ہوں، مجھے خود معلوم نہیں ہوتا کس کی تعریف کررہا ہوں کس کو کمنٹس کررہاہوں بس صبح سے شام تک شام سے صبح تک فیسبک پہ فضول کی پوسٹیں فضول کے بحث بازی کمٹس ہوتا رہتا وقت ضائع کرتےرہتے۔

آج پہلی بار سنا اور دیکھا زہری کے غلام سماج سے بولان تک سفر کرنے ولا بہادر امتیاز آج ہمیں چھوڑ کر مادر وطن پر قربان ہوکر چلا گیا۔

ویسے نورگامہ، چشمہ، مشک، یا زہری کے دیگر علاقوں میں آج بھی نوجوانوں کی اکثریت بلوچ قومی آزادی کی جہد سے بے خبر و بیگانہ ہیں اور اپنے اپنے نواب، سردار میر و معتبروں کے چاپلوسی میں مگن درباری بن چکے ہیں، غلامی کی بدترین شکل میں جکڑے ہوئے، پھر بھی غلامی کے احساس سے محروم ہیں۔

جب شہید امتیاز کی تصویر میرے نظروں سے گذری، تو کچھ الفاظ اس تصویر کے ساتھ لکھے دیکھا کہ وہ امتیاز سے دلوش بنا ہے، ایک انقلابی بنا ہے، وطن پرست مہروان رہنما امتیاز کیا سے کیا بنا ہے، اُس کی سوچ یا کردار کو بیان کرنا میرے گُمان سے آگے ہے۔

تب ہی کچھ احساس ہونے لگا کہ امتیاز جیسا شخص ایک سردار کے گھر میں جنم لینے والا شخص، اُسی گھر میں اس کی پروریش ہوا۔ پلا، بڑا ہوا، کھیل کود کر بچپن سے جوانی میں قدم رکھا پھر ایک سوچ کے پیروی کرنے لگا۔ وہ سوچ غلامی سے آزادی تک کا سوچ، اپنی قوم آنے والے نسل کے لیئے سوچ، ایک قبضہ گیر کی ظلم سے چھٹکارا پانے کے لیئے سنگت امتیاز آپ کی ہمت بہادری سوچ و کردار میرے لفظوں کا محتاج نہیں، نا تو آپ جیسے بہادروں کے عظیم قربانیاں میرے قلم سے بیان مکمل ہو سکتا ہے۔ میرے بس کی بات نہیں کہ سنگت میں آپ کے جرت مندانہ بہادری و دلیری کو قلم بند کر سکوں۔ آپ نے خود کو خود عظیم بنا کے ثابت کیا دکھایا کے آپ کتنے بہادر ہو، وطن پرست ہو، جدوجہد آجوئی کے کارواں کا ایک نڈر سپاہی ہو۔

کردار ہی انسان کو عظمت کی چوٹیوں پر پہنچا دیتا ہے، کردار کو عظیم بنانے کا فیصلہ انسان کے خود کے اختیار میں ہوتا ہے کہ میں کون سا راستہ اختیار کرکے خود کو عظیم ثابت کر سکتا ہوں اور امر ہوکر اپنے ہم خیالوں کے درمیان میں رہتی دنیا تک جی سکتا ہوں، مثبت سوچ نظریہ و فکر ہمشہ زندہ رہتا ہے چاہے انسان کو موت آ جائے لیکن اس کا سوچ و کردار کبھی نہیں مرتا، وہ ہمیشہ زندہ و جاویداں رہتا ہے، صدیوں تک ایک تاریخ بن کے رہتا ہے، نسلوں کے لیے رہتی دنیا تک قائم رہتا ہے۔

کتنے خوش نصیب ہونگے وہ جن کے گھر میں امتیاز جیسے بہادر بیٹے نے آنکھ کھولا، دن رات باتیں کیا ہوگا، وہ دوست کس قدر خوش نصیب ہوں گے جنہوں نے امتیاز جیسے جہد کاروں سے تربیت حاصل کیا۔ دوستوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اپنے شہر یا علاقے میں خود کو ایک عام سا شخص سمجھ لینا ملنا جلنا، وہ اپنے آپ کو میر یا سردار کبھی بھی تصور نہیں کیا کیونکہ وہ وطن زادہ تھا، وہ اپنے وطن کا ایک سچا سپاہی تھا، وہ ایک ہمدرد غم خوار ساتھی رہنما وطن پرست تھا، وہ سب کو برابری کی نظر سے دیکھنے والا مخلص مہروان سنگت امتیاز ہی تھا۔

امتیاز چاہتا تو وہ بھی اپنی زندگی باقی سردار زادوں کی طرح گذار سکتاتھا، وہ بھی خوش رہ سکتا تھا، اُس کے پاس تو سب کچھ تھا۔ وہ ایک قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا، عزت، شہرت، دبدبے کا اُسے کیا ضرورت تھا، پہاڑوں پر جانا باغی ہونا تکلیف اٹھانا دشت و پٹ میدانوں میں لنگڑی و خواری، پیاس، گرمی، سردی، برداشت کرنا۔ امتیاز چاہتا تو وہ بھی اپنے لوگوں کے اوپر راج کرسکتا، اپنے سرداریت کا رعب دِکھا سکتا لیکن امتیاز نے ایسا ہر گز نہیں کیا ایک انقلابی وطن دوست آزادی پسند ذاتی قبائلی سوچ کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ ایک آنے والےنسل کے لیئے سوچتا ہے، قوم کے لیئے نا کہ ایک قبیلے یا اپنی خاندان، آپنی ذات کیلئے۔

اگر ہم باقی سردارں کو یا سردار زادوں کو دیکھیں۔ جیسے کے سردار ثناءاللہ ہے، اس کا بیٹے سکندر تھا، اس کا بھائی مہراللہ اور اُس کے بھائی کا بیٹا میر زیب چوری ڈکیتی اور لوگوں کو اغوا کرنا، مال مویشی کو لوٹنا، معاشرے میں جتنے گندے کام ہوتے وہ سب کرتے، کسی کے ننگ و ناموس کے ساتھ کھیلنا کسی کی جان لینا، ان لوگوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انجیرہ کراس سے گاڑیوں کا گذرنا ہوتا، تو سب کے چہروں پر ایک خوف چھا جاتا، زہری سے خضدار کا سفر لوگوں کے لیے موت کا سفر بن جاتا، رستے میں رکنا لوگوں کی تلاشی لینا، تنگ کرنا، گاڑی سے اُتار کر لوگوں کو بے عزت کرنا، بے گناہوں کو بت رحمی سے قتل کرنا گولیوں سے چھلنی کرنا۔ یہ سکندر، زیب اور نعمت جیسے لوگوں کا پیشہ تھا، یہ لوگ اپنی سرادری کی سرپرستی میں نہیں بلکہ سرکار کے سرپرستی میں یہ سب کرتے، بدمعاش قابض ریاست کے کہنے پہ قتل و غارت اغواء و تشدد، زہری سمت بلوچستان بھر میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاست ان نام نہاد سرداروں کو بلوچ قوم کی نسل کشی میں براہِ راست استمال کرتا۔ پتہ نہیں میرے قوم کے نوجوانوں کو کب ہوش آئے گا کب غفلت کی نیند سے جاگ جائینگے۔

لیکن ظُلم کی اندیھری راتیں زیادہ دیر تک نہیں ٹکنے والے ہوتے، ایک روشن صبح کا آغاز ضرور ہوتا ہے، اندھیری راتوں کے بعد آخر کار وہ صبح دیکھنے کو مل ہی گیا، جب سکندر، نعمت اور زیب کو بی ایل اے نے انکے آنجام تک پہنچایا۔ ایک ایسی عبرت ناک موت کی نیند سلادیا نا تو لاشوں کی پہچان ہوا نا دفنانے کے قابل رہے اور پھر ہزاروں ماؤں بہنوں کے کلیجے کو ٹھنڈک ملی۔

ایک دن کچھ کام سے خضدار جانا پڑا، اپنی تیاری کرلی صبح مجھے خضدار جانا تھا، گاڑی والے کو خبر کیا کہ میرے لیئے ایک سیٹ چھوڑ دے۔ صبح ہوتے ہی میں گھر سے نکلا، اسٹاپ کی طرف جہاں مجھے گاڑی والے نے کہا فلاں جگہ پہ صبح آنا ہے، میں وہاں پہنچا کچھ دیر کے بعد گاڑی بھی پہنچ گیا، گاڑی میں بیٹھ کر خضدار کی جانب بڑھنے لگا، سب علاقہ کے جانے پہچانے لوگ گاڑی میں بیٹھے تھے۔ سب خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے، چشمے سے ہوتے ہوئے بلبل کی جانب ایک خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملا، جب سورج کے کرنیں پہاڑی کے چوٹی سے میرے زہری کو ایک خوبصورتی بخشتے ہوئے روشنی پھیلا رہیں تھیں، ہر طرف ہریالی، ایک دلکش سما، لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے، میں بھی ان خوبصورت نظاروں کا لطف لیتا رہا، بلبل سے ہوتے ہوئے ماس تیراسانی پہنچ گیا۔ جہاں ضیاء جان کا شہادت ہوا تھا۔ جہاں اس نے اپنے مقدس لہو سے تراسانی کے پیاسے دھرتی کو سیراب کیا تھا۔

وہاں سے ہوتے ہوئے گزان پہنچا جہاں ضیاء الرحمان عرف دلجان کا جنم ہوا، اس گاؤں گزان کو اس وقت کیا پتہ تھا کہ یہاں دلجان جیسا ہستی رہتا ہے، وہاں سے ہوتے ہوئے بدو کشت، بھپو، خطیا ،خیر، آخر آنجیرہ کراس آپہنچے جس کا ذکر کئی بار ہوا ہے۔ ایف سی، کے چیک پوسٹ کے قریب پہنچتے ہی سب کی بولتی بند ہوگئی۔ سب کے چہروں پر خوف، ہر کوئی اپنے جیب میں ہاتھ ڈال رہا تھا، اپنے اپنے شناختی کارڈ چیک کروانے، سب کے شناختی کارڈ چیک ہوئے، گاڑی کی چیکنگ کیا گیا، پھر وہاں سے خیر وعافیت سے نکل پڑے، ہائی وے روڈ پہ سب کے چہروں میں پھر سے ہنسی خوشی اُبھرنے لگا، آخر خضدار کے قریب سنی پہنچ گئے، اب وہاں چیکنگ کرنا ہے، شناختی کارڈ دکھانا ہے۔ ایک کرائے کا فوجی کھڑا سب کے کارڈ ایک ایک کرکے دیکھ رہا تھا۔ ایک ضعیف بزرگ میرے آگے والے سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، جس کا کارڈ ایف سی اہلکار کے ہاتھ میں تھا، ایک طرف گاڑی میں بیٹھے چاچا کو دیکھ رہاتھا، ایک نظر کارڈ کو۔ “چاچا آپ کے کارڈ کا ڈیٹ ایکسپائر ہوچکا ہے، آپ کیسے جارہے ہو؟” چاچا شائد بہت عرصے کے بعد خضدار جارہا تھا کچھ ضروری کام سے یا اس کی طبیعت کچھ ٹیھک نہیں تھی اپنا علاج کروانے جارہاتھا۔ وہ کم ظرف اونچی آواز میں چاچا کو کہنے لگا، “گاڑی سے اترو اور مرغا بن جاؤ یا یہ مرچ کھالو” ایف اس کے ہاتھ میں مرچ تھے۔

یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے زمیں نکل گیا، ایسا لگا کسی نے سینے پر خنجر سے وار کیا ہو، دل خون کی آنسو رو پڑا، بس ایک بزدل کی طرح بیٹھا گاڑی میں تماشائی بن کے تماشا دیکھ رہا ہوں۔ آخر کر بھی کیا سکتا تھا۔ ایک غلام ہوں، غلام کی طرح بیٹھ کے یہ منظر دیکھ رہاہوں، سب گاڑی کے سواری حیران رہ گئے، ڈرائیور نے آگے بڑھتے ہوئے ایف سی والے کو سر سر کہتے ہوئے، منتیں کررہا تھا، “سر ابھی چاچا جارہاہے نادرہ آفس ڈیٹ بنوایگا۔”

مگر بے احساس انسانیت کے حدیں پار کر چکے تھے، کسی کی بات مانے کو تیار ہی نہیں تھے، اُسی میں پیچھے سے گاڑیوں کی رش لگی ان کی چیکنگ شروع ہوگئی، باقی ایف سی والے اُن گاڑیوں کو چیک کرنے لگے۔ ڈرائیور منت کرکے بڑی مشکل سے چاچا کا کارڈ لینے میں کامیاب ہوا۔ پھر سنی سے آگے خضدار بازار کی طرف جانے لگے، جب اسٹاپ پہ پہنچے، سب اُتر گئے، ہر کوئی اپنے کام سے بازار کا رخ کرنے لگا۔ میں قریبی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے کا آرڈر کیا۔ تب ہی سوچوں میں کھوگیا اپنی غلامی، بزدلی، بےبسی، چاچا کی لاچاری، وطن کے بے خواجہی، پر اندر ہی آندر سے آنسوؤں کے زارو قطار شروع ہوگئی کہ ہم کتنے بےحس اور بے احساس لوگ ہیں۔ جب اپنی دھرتی، اپنے وطن میں ایک کرائے کے سپاہی کی کیا حیثیت ہے پیچ سڑک پہ روک کر ہماری شناخت پوچھتا ہے، ہم سے ہمارے سامنے ہمارے بزرگوں کی عزت تارتار کرکے کہتا ہے، یہ مرچ کھاؤ یا روڈ پہ مرغا بنو، ہمارے ماں بہنوں کی ہمارے سامنے تلاشی لیتا ہے ہمارا شناخت پوچھتا، ہماری شناخت بلوچستان ہے ہماری پہچان یہ دھرتی ہے، جس کی آزادی کے لیئے بے پناہ لمہ وطن کے فرزندوں نے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے۔ آج بھی کررہے ہیں۔

زہری بھر کے نوجوانوں کو بس اتنا کہوںگا جب کبھی فٹبال، کرکٹ ،پکنک منشیاتی سوسائٹی، پارٹیوں سے فرصت ملے تو شہید دلجان، ،شہد امتیاز ، کی قربانیوں پر ضرور ایک بار سوچ لینا کہ جن عظیم شہیدوں نے اپنے آج تمہارے کل کے لیئے قربان کیئے۔ ان شہدوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ کیوں پیش کیا؟

ماؤں بہنوں کے ننگ و ناموس کی خاطر اس دھرتی کے خاطر اس دھرتی کے مظلوموں کی خاطر آنے والے مستقبل کی خاطر اپنے لہو قربان کرکے ان کھلی فضاؤں میں، بولان سے آتی ہواؤں کو محسوس کرنا، کن عظیم شہیدوں کے لہو کی خوشبو مہکتے ہوئے ہزاروں ارمان بیان کرکے گزر جاتا ہے۔
ایک بار ضرور شہموز کی گھٹ و تلاروں میں جا کے دیکھنا، ہزاروں شہیدوں کی قدموں کی نشان گزرتے ہوئے مل جائیں گے، دلجان و امتیاز کی آج بھی ہنستے مسکراتے ہوئے چہرے ہمارے رہنمائی کرتے نظر آینگے۔

سنگت آپ مادروطن کا قرض ادا کرکے چلے گئے اور ہمارے کندھوں پہ ذمہ داریاں چھوڑ گئے۔ بقول شہید بالاچ مری اگر میرے مرنے کے بعد کسی ایک کو غلامی کا احساس ہوا تو میں آمر ہوجاؤنگا۔ وہی ہوا آج امتیاز و دلجان کی قربانیوں نے کئی ورناؤں کو اپنے غلام ہونے کا احساس دلادیا۔

قومی آزادی کی جنگ سے ہم جتنا کنارہ کشی کرلیں، یہ اتنے ہی شدت سے ہمیں اپنےگرفت میں لیگا۔ اس جنگ کا اگر خاتمہ چاہتے ہو تو اپنے آنے والے نسلوں کو آزاد ہواؤں میں سانس لینا دیکھنا چاہتےہو تو ہمیں اس جنگ کا حصہ بننا ہوگا۔ دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم بھی دلجان، امتیاز و باقی شہدوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کسی بھی قسم کے قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔