بلوچ مسئلے کو ہڑپنے کا نیا کرتب ۔ سمیر جیئند بلوچ

198

بلوچ مسئلے کو ہڑپنے کا نیا کرتب

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

برصغیر کو جس طرح انگریز داد نے تقسیم کرنے کیلئے پھندہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ ڈالا اور اس میں کامیابی حاصل کی ،حالانکہ شروع میں، اس نے اس جال کو تجارت کے نام پر پھیلا نے کا آغاز کیا تھا اور کچھوے کی چال اور رفتار سے پورے برصغیر کا اکلو تا وارث بنا بیٹھا، پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے ہندوستان کے وسائل لوٹنے کیلئے ٹرین کے لائن تیزی سے بچھانے شروع کیئے تاکہ وسائل کو جلدی سے اپنے ملک یورپ پہنچایا جاسکے اور اسی حکمت عملی میں نمایاں اہداف حاصل کرنے لگے۔ جب ہندوستان کے باشعور سیاسی رہنماؤں نے وسائل کو بے دریغ لوٹنے اور استحصال روکنے کیلئے مسلح سیاسی جدوجہد شروع کی اور انگریز کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنی شروع کر دیں، تو انہیں یقین ہوچلا کہ جب غلام نے مالک سے آنکھ ملایا ہے تو یقیناً زوال کی الٹی گنتی کا اشارہ سمجھا جائے، بعد کے دنوں میں ایساہی ہوا۔ انگریز داد کے خلاف ہندوستان میں نہ صرف نفرت کا آغاز ہوگیا بلکہ باقاعدہ انکے حاکمیت اور قبضے کے خلاف جہد کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔

بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس جیسے دھرتی کے ہزاروں پروانوں نے دشمن کے خلاف جلنا شروع کیا، توانکے پاؤں زمین پر ٹک نہ سکے اور زمین سرکنے لگا، اب فرنگی برصغیر ہندوستان کے بٹوارے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ کس طرح آنے والے وقت کے دوران اپنے مقابل اسے کمزور حریف رکھا جائے، یہاں مختلف گھناؤنے سازشوں کے علاوہ انھوں نے یہ گھڑابھی کھود دیاکہ جاتے جاتے کیوں نہ ہندوستان کو اس کے اند گرایا جائے یا ایسا ناسور زخم دیا جائے کہ بغیر کٹے اس کی کوئی دوا نہ نکلے، چنانچہ انہوں نے پاکستان کی شکل میں انہیں چوٹ پہنچائی، اور یہ چوٹ آخر میں مذہب کے ذریعے ناسور کی حقیقی شکل اختیار کی، ہندستان کا بٹوارا ہوا۔

لامتناہی تباہی اور خون کی ہولی ہندو مسلم کے نام پر بہائی گئی، اس خونی کھیل میں جان مال ملین کے حساب سے زوال ہوئے مگر واقعی اس کے باوجود کٹا ہوا زخم مندمل نہ ہوا، جب بھی پانی نے اسے چھواتو یہ مذہبی ناسور پھر ہرا بھرا ہوا مسجد مندر ،گائے کے گوشت ،مذہب کی تبدیلی پر آج بھی دنگا فساد کی وہی ریت چلی آرہی ہے، جسے ۱۹۴۷ء سے انگریز اور جناح نے بویا تھا۔

ان کے جانے اور پاکستان کو گود لینے بعدان کے فرزند اور انکے دم چھلے محمد علی جناح نے وہی انگریز داد کا شیطانی چال اور فطرت اپنا کر معصوم بلوچوں پر دھرایا۔ شروع میں انکے وکیل بن کر مسیحا بننے کا وعدہ کیا، جب یہاں پاوں مکمل جم گئے توپاکستان کو ہاتھ میں لینے کے بعد اپنے کلائینٹ بلوچستان کے خان کے گردن پر بے قابو اونٹ کی طرح بیٹھ گئے۔ انھوں نے شروع میں اسی طرح مذہب کو استعمال کیا، جب بلوچ نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ انہوں نے اپنے ہمسایہ پاکستان ہندوستان کا حشر دیکھ لیا تھا اوراب تک بھولا نہ تھا۔ جب یہاں یہ کارڈ فیل ہوا تو اس نے آنکھیں دکھانے شروع کیئے، یہاں بات نہ بنی تو عالمی اداروں کے منہ پر طمانچہ مار کر ریاست بلوچستان پر بزور شمشیر حملہ آور ہوکر اسکے سابقہ احسانات کو روند کر قبضہ کرلیا۔ خان کو گرفتار کرکے ریاست کو اپنے قبضے میں کرلیا۔

اس کے ردعمل میں خان کے بھائی نے مسلح جہد شروع کی مگر انہیں ورغلاکر زندانوں میں ڈال دیا گیا، اس طرح بلوچ اور پنجابی کا خونی جنگ اس دن سے جنم لیا، جو ہنوز جاری ہے۔

بلوچ کو جھانسہ دینے کیلئے پاکستان نے مختلف ادوار میں اپنے شیطانی حربے آزمائے کہ کسی طرح بلوچ کو ریاست بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کیا جائے، یہاں جہالت کا اندھیرا ہو، مذہبی جنونیت پھیلانے کی سازش ہو مگر یہ توقعات بر نہ آنے پر اس نے اب ایک نیا تماشہ کرتبہ دکھانے کا عمل شروع کیا کہ جس کے ذریعے ان کا خیال ہے کہ بلوچ کو نکیل ڈالا جاسکتا ہے۔ مگر ان منصوبوں میں منہ کی کھانی پڑی وہ یوں کہ دوہزار میں پھر بلوچ سرپر کفن باندھ کر اپنے ملک کو پاکستانی قبضے سے چھڑانے کیلئے میدان میں کود پڑے حالانکہ جنگ چھڑنے سے قبل انھوں نے اپنے قبضہ کو دوام دینے کیلئے میگا پروجیکٹس کا آغاز بلوچستان میں کیا، ڈیم بنانے شروع کیئے، پھر سیندک جیسے منصوبے کے علاوہ گوادر ڈیپ سی پورٹ کا آغاز کیا۔ اس کا خیال تھا کہ لاکھوں کے حساب سے یہاں پنجابی مہاجر آباد کار لاکر بلوچ کو اقلیت میں اس طرح تبدیل کیا جائے گا کہ جس طرح کراچی میں بلوچوں کا کیا گیا۔ حقیقت میں دیکھا جائے، تو گوادر اور کراچی میں ایک ہی مماثلت او قدر مشترکہ ہے وہاں بھی پورٹ بنا پورٹ کے آڑمیں لوگ مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے، بڑی کھیپ مہاجر کی شکل میں دستیاب ہوئے۔ جب انہوں نے یہاں ہندووں کو مارنا شروع کیا تو وہاں سے مسلمان بھاگ کر آئے منصوبے کے مطابق انہیں پنجاب میں جگہ نہیں دی گئی تو انہوں نے کراچی کا رخ کیا اور پاکستان کی اشرافیہ بھی یہی چاہتی تھی پس وہ آباد ہوئے تو لاکھوں بلوچ اس طوفان کے سامنے دب گئی۔ انجام اب سامنے ہے، بلوچ کا شناخت مٹ گیا، لہٰذا گوادر میں شطرنج کی وہی چال پاکستان چلا مگر ناکام ہوکر منہ کے بل گرگیا۔ اس کے بعد اس نے خونی کھیل شروع کیا جو کہ تسلسل سے اپنے عروج پر پہنچا ہے، ہزاروں بلوچ کارکن اور کئی لیڈر ایجنسیوں کے ہاتھوں شہید کروائے گئے اور غائب کردیئے حتیٰ کہ یہاں بلوچ خواتین بھی غائب اور شہید کرنے سے پنجابی نے کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ انہیں اس خونی کھیل کے ساتھ اب ایسا محسوس ہورہاہے کہ بلوچ کی دھرتی ہمارے پاؤں کے نیچے سے کھسک رہی ہے۔

انہوں نے ایک نیا چال شروع کیا ہے کہ شاید انہیں اسطرح موقع ہاتھ آئے کہ کچھ عرصہ مذید اپنے قبضے کو بلوچستان پر برقرار رکھ سکھیں تاکہ سیندک کی سونے کے منصوبے کی طرح کچھ اور منصوبے ہاتھ لگیں تو یہ چال اب افغان بنگالی مہاجرین کو شناختی کارڈ کی شکل میں چلا نے کا اعلان ہے کہ کوئی سبیل نکلے۔ مگر انکی بھول ہے کہ جب بلوچ آزادی پسند چین اور پنجابی کو قبول نہیں کرتے، تو افغان اور بنگالی مہاجرین کے بوجھ کو کیوں برداشت کریں گے اور اپنے پاوں پر کلہاٹی ماریں گے۔ بلوچ پہلے ایران افغانستان ،اور خلیجی ممالک سمیت خود پاکستان کے صوبہ سندھ اور پنجاب میں آباد اور منتشرہیں۔

ویسے پاکستان کا خواب دیکھنے کا عمل اچھا ہے کہ اس طرح یہ آبادی کی موجودگی اگر ہم بلوچ جنگ کو ثبوتاژ کرنے کیلئے ریفرنڈم کا ڈھنڈورا پیٹ کر کروائیں تو غلامی کے حق میں رائے زیادہ سامنے آجائے گا۔ خواب اچھاہے شرط یہ کہ بلوچ آزادی پسند قبول کرلیں۔ انکے نہ ماننے کا کھلا سچ یہی کافی ہے کہ پورے مکران میں دو دو کلومیٹر پر فوجی چوکیاں ہونے کے باوجود پنجابی آباد کار نہیں ٹک سکتے تو آئندہ پٹھان بنگالی کیسے بلوچستان میں بیٹھ سکتے ہیں؟

 

 دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔