ریحان – مہاران بلوچ

627

ریحان

تحریر – مہاران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کون ہے ریحان؟ دنیا کے ان گنت لوگوں میں سے اسی شخص کا نام کیوں سننے میں آیا؟ اس بھیڑ میں کیا کیا اس شخص نے کہ اسکا نام خوشبو کی طرح مہکنے لگا، وطن کی آب ہوا میں پھیلتی یہ خوشبو اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہوا پھیل رہا ہے۔

کبھی اس شخص سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی اس نام کے بارے میں سنا تھا۔

11 اگست کے دن صبح میں نے فیسبک کھولا اور 11 اگست کے کمپین کے حوالے سے کچھ پکچرز اپلوڈ کئیے تو تب ہی مجھے ایک سنگت شاہ دوست کا فیسبک اسٹیٹس نظر آیا ‘رخصت اف اوارون سنگت’ میں نے چیک کرکے لائیک کردیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی، شہید امیر جان کے شہادت کے بعد یہ الفاظ ہر زبان پر عام رہے، ہر سنگت کے گفتگو کا اختتام انہی الفاظ میں تھے تب ہی خیال نہ آیا کہ آج کے یہ الفاظ عظیم مقصد پر کامیاب ہونے کے لیئے جانے سے پہلے کے الفاظ ہیں، یہی ہوا اور پھر کچھ دیر بعد فون چیک کیا تو شاہ دوست نام کے اسٹیٹس دیکھ کر حیران رہ گئی، دوستوں سے معلوم کرنے کے بعد پتا چلا کہ ہمارا ہنس مکھ مہربان مخلص ساتھی شاہ دوست ہم سے ہمیشہ کے لیئے بچھڑ گیا ہے فیسبک چیک کرنے کے بعد جب ریحان جان کے تصویر پر نظر پڑی تب وقت تھم سا گیا کہ ہمارا شاہ دوست ایک فدائین ہے۔ وہ اس قدر عظیم حوصلہ و ہمت کا مالک نکلا کہ اس نے اپنے مقصد اپنے قوم کی خاطر اپنا جان قربان کرگیا۔

شاہ دوست ایک فیسبک آئی ڈی جس سے تعلق بغیر کسی کام ضرورت کے پڑا تھا نظریہ فکر ایک ہونے کے سبب ایک میسنجر گروپ جہاں ضیاء شعبان کے نام سے، جاوید سارنگ کے نام سے اور ریحان شاہ دوست کے نام سے ایڈ تھے۔ جن سے ہمیشہ گفتگو ہوتا رہا جنہیں دیکھے بغیر ہم نے اپنے ننگ ناموس اپنے وطن مادر کے رکھوالے مان کر انکے دیوان سے لطف اندوز ہوتے رہے، وہ بھی ہمیں دنیا کے عظیم رشتوں میں پرو کر ہمارے ہر لفظ ہر بات کی رہنمائی کرتے رہے ان سے الفاظ کے رشتوں نے ہمیں زندگی کے معنوں سے آگاہ کر رکھا، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھے بغیر ہم نے خون کے رشتوں سے مظبوط رشتے بنائے تھے یہ انکے سچے پن اور مخلصی ہی تھی جس نے مجھے اس قابل بنایا جس نے مجھ جیسے کئی لوگوں کو انسان بننے کا رستہ دکھایا۔

جب وہ اس قدر کامیاب ہوجاتے ہیں کہ اپنے زمہ کا ہر کام مکمل کرتے ہیں تو ایسے دیوانے اپنے جان سے گذر کر مکمل ہوجاتے ہیں انہیں زندگی سے بس یہی سروکار ہوتا ہیں کہ انکی سانسیں وطن کے بزگ لوگوں کے کام آجائیں، وہ اپنے شناخت کو مٹا کر ہمارے شناخت کو پہچان بخشتے رہے ہیں وہ ہر دور میں زندہ رہنے کا ہنر پاتے ہیں۔

جاتے جاتے ہمیں جگا کے گیا وہ شاہ دوست ایک عظیم ہستی کا بیٹا اور میرے وطن کا ہمدرد اور سچا سپاہی رہا، وہ کوئی اور نہیں ریحان تھا جسے ہم شاہ دوست کے نام سے جانتے تھے وہ الوداع کہہ کر چلاگیا تھا اسے واپس نہیں آنا تھا، وہ اپنا فرض پورا کرکے وطن کا قرض اتار کر مادر وطن پر جان نچاور کر چکا تھا وہ جانتا تھا کہ آج اس لمحے کے بعد اسے آزاد ہی ہونا ہے اور وہ اس میں کامیاب ہوگیا وہ خود آزاد ہوکر ہمیں آزاد ہونے کا رستہ دیکھا گیا، ایسے رستوں کا چناؤ کرنے والے ہی اصل رہنما ہوتے ہیں وہ عملی طور پر کردکھاتے ہیں اور ایسے رہنماؤں کی پیروی کرنے والے کبھی رستہ نہیں بھٹکتے۔

یہ عظیم ہستی نے اپنے عمل سے اور بہادری سے بتا کے گیا ہےکہ وہ وطن کا غمخوار ہیں ، ایسے لوگ وطن کے حلالی فرزند کہلاتے ہیں۔

آج میں نے جان لیا کہ یہ سچا جہدکار اور مادر وطن کا سپاہی جو اتنے کم عمری میں مادر وطن کے عشق میں اپنے جان کی پرواہ کیئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ لیا مجھے سنگت کے شہادت پر فخر ہے، وہ جاتے جاتے یہ بتا کے گیا ہے کہ وطن کے لیئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ، فدائیں ریحان کوئی اور نہیں وطن کا حقیقی ثپوت تھا، اس نے اپنے لوگوں کو اپنے کردار سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں راہ راست پر لانے کے لئے فدائی حملے کو چنا، ریحان جان نے اپنے اس فدائی حملے سے بلوچ تحریک اور بلوچ نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی جاتے جاتے کہہ گیا ”رخصت اف اوارون سنگت آک” یہ خوبصورت الفاظ ظاہر کرتے ہیں ریحان نے اس کمسن عمر میں اتنا بڑا فیصلہ خوشی خوشی قبول کرلیا، اس نے اپنی زندگی اپنے مقصد کی خاطر بخوشی قربان کردیا۔ وہ رخصت کرکے نہیں گیا اسے یقین تھا کہ وہ اسی مٹی میں رہے گا آنے والے ہزاروں سالوں تک وہ ہر ایک کے زبان پر اس مٹی پر چلتی ہوا میں شانتل کے آواز میں چٹانوں کے سینے میں حانی کے یادوں میں زندہ رہے گا۔

اسے یقین تھا کہ میرے اس عمل اور اس نظریے سے ہزاروں ریحان پیدا ہونگے اور ایسے ہی مادر وطن کے لئے دشمن کو نیست نابود کرنے کے لئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کرتے رہیں گے اور اگر کبھی کمزور پڑیں گے تو میرا بہادرانہ عمل اور نظریہ انہیں درس سمت دیتا رہے گا اور وہ ہر وقت دشمن پر قہر بن کر ٹوٹنے کے لیے تیار رہیں گے۔

مجھے یقین کامل ہے کہ ریحان آج اپنے باقی ساتھیوں سے بغل گیر ہوکر ہمیں، ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہوگا وہ دیکھ رہا ہوگا کہ وہ کس قدر دشمن کو خوفزدہ کرکے چلا گیا وہ دیکھ رہا ہوگا کہ اس نے کس قدر اپنے قوم کو جگا کر چلا گیا
وہ دیکھ رہا ہے مسکرا کر کیونکہ وہ کامیاب ہوکر چلا گیا
وہ دیکھ رہا ہیں میرے الفاظ کس قدر اسکے قربانی کے سامنے حقیر نظر آرہے ہیں
پھل آپ عظیم ہو آپ کے قربانی کے لیے آسمان و زمین پر ایسے گراں قدر الفاظ نہیں جو آپ کے شخصیت کو بیان کر سکے یہ الفاظ آپ کے شخصیت کے ذرہ برابر بھی نہیں۔

میں قوم کی ایک بیٹی اور آپ کے نظریاتی بہن کے چند الفاظ جو دل پر بوجھ بن کر پڑے تھے
میرے الفاظ آپ سے معذرت خواہاں ہیں اور نم آنکھیں اس غرور میں ہیں کہ مجھے اس سفر میں ریحان جیسے بھائی ملے