ریحان جان کی سوچ ۔ عائشہ بلوچ

436

ریحان جان کی سوچ

تحریر۔ عائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں قربان ریحان جان کی سوچ پر، ہمیشہ ہنسنے مسکرانے والا ریحان جان ہمارے گھر کا رونق و نور تھا، وہ مہر و محبت کا پیکر تھا۔ ناراضگی کا جواب بھی مسکرا کر دیتا، کبھی لڑائی ہوتی تو وہ تب بھی مسکرا کر مجھے مناتا وہ بھائی کے روپ میں ایک مہربان دوست جیسا تھا۔

مجھے ہمیشہ کہتا: “عاشی تم بہت جذباتی ہو جاتی ہو، یہ بہت بری عادت ہے ہمیشہ صبر سے کام لیا کرو۔” میں پوچھتی “کیا واقعی اس ماحول میں صبر کرنا چاہیئے۔”

تو وہ مجھے سے کہتا “پاگل ان سب سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنےوالا، ہماراجو فرض ہے ہمیں وہ ادا کرنا چاہیئے، جب ہم غلط نہیں تو صفائی کس بات کی دیں، ہمارا مقصد دشمن کی شکست ہے اور ہمارے پاس ابھی بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو دشمن کو شکست دینے کےلیئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اپنی جوانیاں اپنا قیمتی وقت اپنےقوم کی آزادی کےلیئے صرف کررہے ہیں۔ اپنے گھر، ماں، باپ، بہن، بھائی، خاندان سے دور کئی کئی سال پہاڑوں میں سخت اور کھٹن حالات میں اپناقومی فرض ادا کر رہے ہیں ہمارے قوم کے لیئے کتنے نوجوانوں نے اپناخون دیا، ان سب کے باوجود تم ان جیسے لوگوں کی باتوں سے مایوس ہو جاتی ہو، ہمارا مقصد یہ نہیں ہے۔”

“میری بہن ان سب سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر ہم مایوس ہوئے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے، حوصلہ مضبوط رکھو، ان نوجوانوں کے بارے میں سوچو، جو آج میدان جنگ میں ہیں، شہیدوں کو یاد کرو، کیاوہ مایوس تھے؟ کیا انہوں نے جنگ لڑنا بند کردیا؟ کیا وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں؟ نہیں نہ تو پھر میں اور تم کیوں مایوس ہوں۔”

کچھ وقت بعد مجھے پتہ چلا کہ ریحان جان نے یہ فیصلہ لیا ہے، میں حیران ہوئی ایسا کیسے؟

میری ریحان جان سے آخری مرتبہ ہونے والی بات چیت: “ریحان اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے ہمارے بارے میں نہیں سوچا؟”

ریحان جان: “نہیں میں نے پوری قوم کے بارے میں سوچا ہے۔”

“بھائی اتنا بڑا فیصلہ مت لو تم اور بہت سےکام کرسکتے ہو، ہم تمہیں نہیں روکیں گے”

ریحان جان: “تم مجھے کیسے روک سکتی ہو، مجھے منع کر نے کے بعد تم کیسے ان شہیدوں کی ماؤں بہنوں سے نظر ملا پاؤگی، جنہوں نے اپنا لہو اس قوم کو دیا ہے۔”

“بھائی تمہاری منگنی بھی ہوگئی ہے، زراسوچو!”

ریحان جان: “شہید نثار کی بھی منگنی ہوئی تھی اور بھی بہت سارےایسے نوجوان ہیں، جن کی منگنی یا شادی ہو چکی تھی انہوں نےبھی اپنالہو قوم و وطن کو دیا، کیا تم ان میں اور مجھ میں فرق کررہی ہو؟”

“میں فرق نہیں کر رہی ہوں، ہم سب کا درد ایک ہے۔”

ریحان جان: “تو پھر میرےلیئے بالکل مت رونا۔”

“میں تمہارے بغیر کیسے رہونگی۔؟

ریحان جان: “شہید دلجان کی بہن کو دیکھا تھا، وہ بھی تمہاری بہن ہے، اسے بھی اپنا بھائی اتنا ہی عزیز تھا، جتنا تمہیں میں اور بھی کئی ایسی بہنیں ہیں، اپنادل بڑا کرو اور قوم کے بارے میں سوچو۔”

“اللہ تمہیں کامیاب کرے ریحان جان۔”

ریحان جان: “امی، ابو، بہن اور بھائی کا خیال رکھنا، خداحافظ میری پیاری بہن دل چھوٹا مت کرنا۔”

مجھے فخر ہے اپنے بھائی کی سوچ اور کردار پر، ریحان جان آپ زندہ ہو ہماری سوچ میں ہمارے دلوں میں۔