اوستہ محمد ریلوے اسٹیشن کی تباہ حالی اور بڑھتے ہوئے عوامی مسائل – سنگت طاہر میرانی

775

اوستہ محمد ریلوے اسٹیشن کی تباہ حالی اور بڑھتے ہوئے عوامی مسائل

تحریر: سنگت طاہر میرانی

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان ریلوے پاکستانی معیشت میں پچھلے 150سالوں سے بہت اچھا کردار ادا کررہا ہے جس میں تقریبا 79000سے زائد لوگ ملازمین ہیں اور کم از کم 80ملین مسافراندرون ملک ہرسال سفر کرتے ہیں، ریلوے کا یہ ادارہ 1803میں لندن میں قائم کیاگیا اور 1855میں سندھ ریلوے کمپنی کے نام سے ایک دفتر لندن میں کھولا گیا جبکہ ملک کی سب سے پہلی ریلوے لائن کراچی سے روہڑی تک بچھائی گئی۔ پہلے ٹرین کا آغاز عوام کے لئے 13مئی 1861 کو ہوا جو کہ کراچی سے کوٹری تک تھا اور اس کا ٹوٹل دورانیہ 105میل یعنی 169کلومیٹر تھا ۔

1927میں بلوچستان کے علاقوں میں زرعی زمین کوآباد کرنے کے لئے صوبے کی سب سے بڑی نہر کیرتھر کنال بنائے جانے کے بعد جعفرآباد کے علاقے اوستہ محمد میں زرعی اجناس کی دیگر علاقوں میں رسائی اور عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے 1940میں ریلوے اسٹیشن اوستہ محمد کا انعقاد کیا گیا اور اس لائن کے بچھتے ہی سندھ و بلوچستان میں ٹرین سروس سمیت بڑے پیمانے پر دیگر تجارتی سروس بھی شروع ہوگئی تھی۔ اوستہ محمد ضلع جعفرآباد بلوچستان میں 2010 سے ریلوے کا نظام درہم برہم ہے جس کی وجہ سے سندھ ، بلوچستان اور پنجاب سے اوستہ محمد ضلع جعفرآباد کے ٹرین کی آمدورفت کا نظام بلکل اب تباہ ہوچکا ہے۔ اوستہ محمد ریلوے اسٹیشن حتیٰ کہ اچھا خاصا کما کردینے والے ریلوے اسٹیشنز میں شمار ہوتی تھی جبکہ یہ سواری کم آمدن والے افراد کے لئے بھی کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ اوستہ محمد سے لاڑکانہ کا کرایہ 50 سے 80 روپے کے درمیان ہوا کرتا تھا جو کہ آج کل ویگن پر 200 سے 250روپے تک پہنچ چکا ہے، کسی بھی تنخواہ دار یا غریب آدمی کے لئے اتنا کرایہ ہردن دے پانا مشکل ہے۔ ریلوے لائن کی بندش سے مسافروں کے علاوہ کاشتکاروں کو بھی شدید نقصان کا سامنا ہے کیونکہ جعفرآباد اس وقت زرعی لحاظ سے بلوچستان کا واحد ضلع ہے جہاں پر صرف چاول کی 120سے زائد ملیں ہیں اور گندم کے ساتھ ساتھ دیگر زرعی اجناس بھی وافر مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 1940میں قائم کی جانے والی اوستہ محمد ریلوے اسٹیشن کو 2010میں مکمل طور پر بند کردیا گیا جس کے باعث سندھ ، پنجاب اور دیگر علاقوں سے بلوچستان کا تجارتی راستہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے اور عوام اس سستے سفر سے بھی محروم ہوگئ ہے۔ اس قدیم اسٹیشن پر لینڈ مافیا نے بھی قبضہ کرلیا ہے حتیٰ کے لوگوں نے اپنے دکان اور گھر تک بنا لئے ہیں، اس علاقے میں ٹرین کی بندش کے بعد اب ٹرانسپورٹ مافیا سمیت لینڈ مافیا کی بھی چاندی ہوگئی ہے اور ٹرانسپورٹرز لوگوں سے من چاہے ریٹ وصول کرتے ہیں اور انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اوستہ محمد میں اچھی طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے مریض سندھ اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں لے جانا پڑتا ہے جبکہ سفری سہولیات مہنگی ہونے کی وجہ سے ایک ریلوے ہی ان کا سہارا تھی جس سہولت سے اب اوستہ محمد کا غریب طبقہ محروم ہوچکا ہے۔

دیکھا جائے تو ریلوے نظام تباہ ہوچکا ہے، سڑکوں کی تعمیر میں ملوث حکام اور انجینئرز نے ریلوے کی لائنوں کو قالین بنادیا ہے اور پاکستان ریلوے نے مواصلات کے اہم ذرائع کے خلاف اس جرم کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا۔ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں ریلوے کی ترقی میں کوئی زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور تمام فنڈز پنجاب یا مرکزی لائن ٹرینوں پر چلے جاتے ہیں جہاں پر سفر کی سہولیات قابل ذکر ہیں۔ وفاقی حکومت خاص طورپر وزارت ریلوے نے بلوچستان میں ریلوے نظام کی ترقی پر بہت کم ہی توجہ دی ہے۔ بلوچستان جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اب تک بہت سے علاقے ٹرین جیسے سستے سفرکی سہولت سے بھی محروم ہیں، ریلوے نظام بلوچستان میں سب سے زیادہ نظرانداز کئے جانے والے شعبوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف پنجاب ہے جہاں صوبے کے عوام کے مفادات کو نظرانداز نہیں کیاجاتا تو دوسری طرف بلوچستان ہے جس کے عوام ہرقسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور کئی سالوں سے بلوچستان حکمرانوں کی توجہ کا مرکز بھی نہیں رہا حتیٰ کہ بلوچستان سے منتخب شدہ نمائندے وحکمران بھی اسمبلیوں میں کبھی ان معاملات کو نہیں اٹھاتے تاکہ وہ وفاقی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ بلوچستان کی طرف اپنا رویہ بدلیں اور عوام کوتمام تربنیادی سہولیات فراہم کریں۔

اس ضمن میں اوستہ محمد سمیت پورے ضلع جعفرآباد کے عوامی حلقے نئے وزیراعظم عمران خان صاحب اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ اوستہ محمد ضلع جعفرآباد کے ریلوے ٹرین کے نظام کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ عوام اس سستے سفری سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور کاشتکاروں سمیت دیگر لوگوں کے بھی مسائل حل ہوسکیں۔