ڈاکٹر دین محمد سمیت ہزاروں بلوچ پاکستانی ٹارچر سیلوں میں قید ہیں – بی این ایم

250

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو کچلنے اور تحریک سے وابستہ سیاسی دانش اور پختہ فکر و شعورکے حامل افراد کو حراست بعد لاپتہ کرنا اورانسانیت سوز اذیت کا نشانہ بنانا اور بہیمانہ تشددسے شہید کرنا پاکستانی ریاست کا معمول بن چکا ہے۔ کئی سالوں سے جاری اس غیر انسانی عمل میں ہزاروں لوگوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا ہے اور انہی لاپتہ افراد میں ہزاروں لوگوں کو غیر انسانی تشدد سے شہید کر کے ان کی لاشیں جنگلوں، ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 2009 میں آج ہی کے دن پاکستان کے خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ نہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کا مرکزی رہنماء ہے بلکہ وہ ایماندار اور قابل معالج کے طورپر سرکاری شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو اورناچ جیسے پسماندہ علاقے سے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا جہاں وہ ایک مسیحا کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو حراست میں لے کر اذیت گاہوں میں پابند سلاسل کرنا بلوچ قوم کو ایک بہادر اور جی دار لیڈر سے محروم کرنا ہے۔ انہیں لاپتہ کرنے کا مقصد بلوچ قوم کی دانش اور پختہ شعور کو کچلنا ہے لیکن پاکستان اس میں سراسر ناکام ہوچکا ہے کیونکہ پابند سلاسل ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہر باشعور کے دل کے غزالی دھڑکنوں میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر دین جان آج ہر بلوچ کے شعور کا جزولاینفک حصہ ہیں۔ وہ بلوچ سماج اور معاشرت میں ایک ہستی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں جس کی آواززندان سے گونج رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے پرامن احتجاج کے تمام راستے آزمائے۔ حتیٰ پاکستان کے عدالتوں کے بھی دروازے کھٹکھٹائے لیکن پاکستان کے عدالت اپنی منافقت، جانبداری اور ریاستی فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیا کے عدالتی تاریخ کے لئے بدنما داغ بن چکے ہیں۔ بلوچ قوم پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ عدالت، میڈیا اور نام نہاد سول سوسائٹی ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں اور بلوچ قوم کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان گزشتہ انتخابات کی بلوچ قوم کی مکمل بائیکاٹ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اس بار فوجی بربریت اور تشدد پر مشتمل نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوکر مظالم کی نئی داستان رقم کررہی ہے۔ نام نہاد جمہوری انتخابات کے تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے بلوچستان کے طول وعرض میں لوگوں کو اٹھاکر لاپتہ کرنے کے سلسلے میں بے پناہ شدت لائی گئی۔ پاکستان نے یہاں اپنے پارلیمانی حواریوں کے ساتھ لاپتہ افراد کو الیکشن میں لوگوں کو زبردستی حصہ داری کرنے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔پاکستان چالیس ہزار لاپتہ افراد میں صرف ایسے چند لوگوں کو رہا کررہا ہے جنہیں یا تو الیکشن کے کامیابی کے حربے کے طور پراٹھایا گیا تاکہ انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کر کے ان کے رشتہ داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ آج تک پاکستان نے ایک سیاسی ورکر کو رہا نہیں کیا ہے اور ہزاروں زیرحراست لوگوں میں چند لوگوں کی رہائی بلوچ پر احسان نہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ تعداد اسی دوران اٹھاکر فوجی ٹارچرسیلوں میں منتقل کئے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کو صرف گزشتہ دو مہینوں میں اپنے آبائی علاقوں سے بیدخل کر کے فوجی کیمپوں کے بغل میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ بندوق کے زور پر ان سے ووٹ ڈالوائے جائیں۔

ترجمان نے کہا کہ بی این ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ ریاستی اذیت خانوں میں ہزاروں تشدد سہنے والوں میں سے ایک ہیں جنہیں آج پاکستانی عقوبت خانوں میں نو سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کی بیٹیاں سمّی بلوچ اور مہلب بلوچ نے تاریخ ساز جدوجہد کی ہے۔ یہ بہادر بچیاں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں زندگی گزار کر بڑی ہوگئی ہیں۔ڈاکٹر دین جان کے خاندان نے بے پناہ مظالم سہہ لئے ہیں۔ ان کے دونوں گھروں کو لوٹنے کے بعد فوج نے قبضہ کر کے انہیں فوجی چوکی میں تبدیل کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی بچیاں طویل جدوجہد میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کوئٹہ تا اسلام آباد ٹرین مارچ اور پیدل لانگ مارچ کا بھی حصہ رہیں مگر ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پاکستان بلوچستان میں تمام انسانی حقوق کی اصولوں کو پامال کرکے بدترین دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان کے یہ مظالم تمام بلوچ جہد کار اور ان کے خاندان دو دہائیوں سے سہہ رہے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کے جہد سے دستبردار کرانے کیلئے قابض ریاست مختلف طریقوں سے سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کو نشانہ بنانا شروع کرچکی ہے۔ اس میں خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں واشک اور جھاؤ کے مختلف علاقوں میں خواتین کو اغوا کرکے فوجی کیمپوں میں منتقل کرکے ان کی عصمت دری کی گئی۔ گوکہ ایسے واقعات نئی نہیں ہیں مگر اب ان میں نہایت شدت لائی گئی ہے۔ اس اجتماعی سزا کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو کچلنا مقصود ہے مگر بلوچ عوام اور سیاسی کارکن سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کی تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹر دین محمد جیسے رہنماؤں کا لاپتہ ہونا اور کئی رہنماؤں کے شہید ہونے کا دکھ ضرور ہے مگر ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ان بیش بہا قربانیوں کے بدلے اپنا مقصد بلوچستان کی آزادی حاصل کر کے شہداء کے ارمانوں کی تکمیل کریں گے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی اور اس مسئلے کو دنیا میں متعارف کرانے کیلئے بی این ایم نے آج سوشل میڈیا میں #SaveDrDeenMohdBaloch
کے ہیش ٹیگ سے ایک مہم چلائی، اس میں حصہ لینے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔