کارکن: انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی – عبدالواجد بلوچ

486

کارکن: انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

آج دنیا میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ورکرز اور سپورٹرز کے بغیر ایوانِ اقتدار اور کسی بھی کامیابی تک جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ”کارکنان“ وہ طبقہ سیاست ہوتا ہے، جو دامے درمے سخنے اور قدمے ہٹلر،مسولینی،چرچل اور گورباچوف کو عالمگیر شناخت دیتا ہے، جو گاندھی،خمینی،بھٹو جیسوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا سکتا ہے۔ یہی کارکن اور سپورٹرز ہوتے ہیں جو راتوں رات لیڈر کو آسمان تک پہنچاتے ہیں اور یہی طبقہ بعض اوقات بھرے بازار میں معمر قذافی جیسے حکمران کی جان بھی لیتا ہے، صدربش کے منہ پر جوتا بھی مارتا ہے۔ یاد رہے یہی لوگ انقلاب فرانس، انقلاب ایران اور دنیا میں بہت سی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ یہی لوگ اگر نظم و ضبط میں ہوں تو لیڈر کے لیئے آگ میں کود جاتے ہیں، لیڈر پر جان واری کرتے ہیں اور اگر بپھر جائیں تو لیڈر کی عظمت کا بت ہمالیہ و کے ٹو سے اٹھا کر زمین کے پاتال میں جاکر دفن کردیتے ہیں۔ یہ وہ کرشماتی لوگ ہیں جو سیاسی پارٹی کو جب چاہیں زندہ کردیں اور جب چاہیں زندہ درگور کردیں۔ دل میں ٹھان لیں تو مردہ جماعت کو زندہ کردیں۔ دل و دماغ میں من چلے کا سودا سمایا تو آسمان سے گراکر کھجور میں اٹکا دینا بھی ان کا شیوہ ہے۔ کارکن فیکٹری کا ہو یا سیاسی پارٹی کے مالکان انہیں اپنا سرمایہ قرار دیتی ہے۔ سیاسی کارکن کسی بھی پارٹی کا آئین،منشور اور فرنٹ پیج ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر کوئی بھی اس کی پارٹی کا عروج و زوال، بلندی و پستی اور خارزار سے مرغزار تک کی فلم دیکھ سکتا ہے۔

دنیا میں پارٹی ورکرز کو عزت و اکرام ملتا ہے۔ سیاست اور حکومت کی Main Streamsمین شامل کیا جاتا ہے۔اسے اس کی کارکردگی پر پولیٹیکلIntelectualتسلیم کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارے ہاں بلوچ سماج، بلوچ معاشرے میں انقلابی رہنمایان ہوں یا پارلیمان پرست لوگوں نے کارکنان کے ساتھ جذباتی کھیل کھیل کر ان کے خواہشات کا گلہ گھونٹا ہے یا تو ان ہی اصل کارکنان کے اندر سے چند موقع پرست،پیداگیر، منافقین کو چن چن کر اپنے جمعداریوں کے محل تعمیر کیئے ہوئے ہیں۔

بلوچ سیاست پر ہمارے لیڈران ہر وقت جب اقتدار کی شیرین کرسی پر براجمان ہوئے تو بعد میں اپنے ان کارکنان، جنہوں نے انہیں اس مقام پر فائز کیا کی حیثیت اور اہمیت کو بھول کر ان کو ردی برابر سمجھ کر اسے کچرا دان میں پھینک دیا، کیونکہ ہر اس لیڈر نے اپنی خود ساختہ اکثریت کے لیئے پیداگیر جو تیار کیئے ہوتے ہیں۔(لیکن یاد رکھیں پیداگیر اور موقع پرست کارکن جو بھی ہوں، وہ کسی بھی تحریک یا پارٹی کے ساتھ قطعی مخلص نہیں ہوتے) سیاسی پارٹیوں کے لیڈران جنہیں انہی کارکنان نے، اس نہج تک پہنچایا، انہیں ایک مقام عطاء کیا، ان کی ایک حیثیت بنا ڈالی، اس سماج میں، لیکن عزت و احترام کے ملتے ہی انہی کارکنان پر شب خون ماری گئی، ان کی جگہ موقع پرست، منافقین، پیداگیر، چاپلوسوں کو اہمیت دے کر انہیں ڈیرہ جمانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ہمیشہ مخلص کارکنان کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھیلا گیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے.

70سالوں پر محیط اس تحریک بلوچ میں ہمیشہ قیادت کی جانب سے یہ استحصال جاری رہا ہے۔ آج کی اس تبدیلی کے دور میں لیڈرشپ کی روش بے رخی، انا پرستانہ سیاست، موقع پرست اور پیداگیروں کی اہمیت، منافقوں کی برتری نے مجموعی طور پر نظریاتی و فکری اور مخلص کارکنوں کو پریشان، مضطرب اور ناامیدی کے کگار پر لاکھڑا کیا ہے۔ مثبت تنقید،غلط پالیسیوں پر نقطہ چینی، ردانقلابی رویوں پر نظرثانی کی ڈیمانڈ پر ان مخلص کارکنان کو مختلف خطابات سے نوازنا یقیناً ان کی برسوں محنت اور جہد کے ساتھ کھلا مزاق ہے۔

آج ہمارے سماج میں کارکنان زخمی روح کی مانند نڈھال نظر آتے ہیں۔ انہیں فکری و نظریاتی خوراک ادویات و گھرکی سخت ضرورت ہے اور اس سے بڑھکر اسے اپنی شناخت مقام اور توقیر چاہیئے ورنہ ان شہداء کے نام پر سیاست کرنے والے ہمارے لیڈران اپنے کارکنوں کے بدولت سجائی گئی حکمرانی کے محل میں بیٹھے، اپنے چند موقع پرستوں، پیداگیروں اور منافقوں کے اس دیوان کے بدولت کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کیونکہ کل جب سخت حالات کا سامنا ہوگا، تو شاید یہ بھاڑے کے ٹٹو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں کیونکہ سیاست کے اس کسادبازاری میں آپ کی شہرت کا انڈیکس تیزی سے گرتا جوچلاجارہا ہے. اسی امیدکے ساتھ کہ کارکن اپنی اہمیت کو پہچان کر انقلابی فیصلوں کی افادیت کو سمجھتے ہوئے، انقلابی فیصلوں کی پاس رکھ کر تحریک آزادی کو آگے بڑھائیں گے۔