سرخ سلام زہرہ بلوچ – ہانی بلوچ

660

سرخ سلام زہرہ بلوچ

تحریر: ہانی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

دنیا میں کسی قوم کے عروج و زوال میں اس کے نوجوانوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، تاریخ ان لوگوں کے ناموں کو فراموش نہیں کرسکتی، جنہوں نے اپنے قوم کے عروج میں اپنا کردارادا کیا۔ تاریخ ان لوگوں کی ہمت کو اپنے انداز میں بیان کرتی ہے، جو اپنی زندگی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیئے قربان کردیتے ہیں، جیسے چے گویرا جو دمے کا مریض تھا، مگر اپنی زندگی کے 37 سال مظلوم انسانوں کی دکھ، درد لاچاری و نا انصافیوں کی خلاف آواز اٹھانے میں گذاری۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال اس لیئے جیل میں گذارے کہ دنیا میں نسل پرستی کا خاتمہ ہو۔ بھگت سنگھ، ہوچی منہ، کارل مارکس، لینن اور فیڈل کاسترو بلاشبہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نظریات تاقیامت یاد رکھی جائیں گی۔

کہتے ہیں کہ انسان کبھی نہیں مرتا بلکہ اس کا جسم مرتا ہے، آج یہ عظیم لوگ دنیا میں نہ ہونے کے باوجود اپنے عمل اور نظریات کو تحریری شکل میں ہمیں مہیا کرکے جینے کا سامان فراہم کرچکے ہیں کیونکہ انکے خیالات و نظریات ہمارے لیئے راہ نجات ہیں اور ان پر عمل کرکے ہی ہم دنیا میں اپنی جنت کو پاسکتے ہیں۔

بلوچستان بھی ایسے ہی باہمت اور حوصلہ مند و بہادر عوام کی سرزمین ہے، جہاں عوام نے ہر دور کے طاقتور سامراجیوں کو ناکوں چنے چبواکر اپنی سر زمین سے بے دخل کیا۔ شہید غلام محمد، بالاچ مری، رضا جہانگیر، کامریڈ قیوم اور دیگر بلوچ شہدا کے عملی جدوجہد نے بلوچ قوم کو آزادی کے لیئے جدوجہد کرنے کا درس دیا اور انہی شہیدوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہزاروں نوجوان اپنے مادر وطن کے آغوش میں ابدی نیند سونے کے بعد قوم میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کر چلے۔ آزادی کے اس سفر میں ہر طبقہ فکر نے اپنا کردار ادا کیا۔ بی ایس او آزاد، بی این ایم ، بی آر پی و دیگر بلوچ تنظیموں نے اپنی جدوجہد سے قوم میں آزادی کی ایک نئی روح بیدار کی، آزادی کے اس کارواں میں بی ایس او آزاد کا کردار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بی ایس او آزاد نے بلوچ قوم میں شعوری بیداری پیدا کرنے کے لیئے ہزاروں نوجوانوں کی قربانی دی، ہزاروں نوجوان آزادی کے جرم میں نذر زندان ہوئے لیکن انکے ہمت و جوش میں کمی نہیں آئی، انہی کرداروں میں ایک کردار شیریں بلوچ ہے جو بی ایس او آزاد مند زون کی سینئر نائب صدر تھی۔

زہرہ بلوچ عرف شیرین بلوچ نے دیگر بلوچ نوجوانوں و زالبولوں کی طرح اپنی غلامی کو محسوس کرکے انقلابی بلوچ تنظیم بی ایس او آزاد کو 2014 میں جوائن کیا اور اپنی آخری سانس تک اپنی تنظیم و قومی تحریک سے وفادار رہی۔ زہرہ بلوچ ایک با ہمت اور مخلص ممبر تھی اور اپنی قابلیت سے بی ایس او آزاد مند زون کی نائب صدر منتخب ہوئی اور اس کھٹن راستے کے ہر مشکلات اور مصائب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور تاریخ میں سرخ رو ٹہری۔ انہیں قومی تحریک سے دست بردار ہونے کی بھی دھمکی دی گئی، لیکن انہوں نے ان منفی ہھتکنڈوں کو پس پشت ڈال کر اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ بد قسمتی سے 17 مئی 2018 کے ایک خونی ایکسیڈنٹ میں وہ وفات پاگئے، انکی ناگہانی موت سے ہر آنکھ اشکبار ہے اور انکے وفات پانے سے بی ایس او آزاد ایک ایمان دار کارکن سے محروم ہوگئی لیکن انکے عزم و ہمت و حوصلوں نے ہمیں جو طاقت بخشی ہے، وہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہم انکی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دینگے اور انکے نا مکمل مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ بی ایس او آزاد زہرہ بلوچ کی قربانیوں کو سرخ سلام پیش کرتی ہے بلوچ قومی تحریک میں ان کا نام سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائیگا آج شیرین بلوچ ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کا نظریہ ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہیگی۔