کاش تمہاری ماں پہ بھی یہی گزرے __ میرین بلوچ

417

کاش تمہاری ماں پہ بھی یہی گزرے 

میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

کوئٹہ کے یخ بستہ تیز ہواؤں کے ساتھ درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ ہوا کے جھونکے بند دروازوں میں بھی خوفناک آواز برپا کرتا ہے.
تیز ہواؤں کی وجہ سے بجلی کے تاریں ہلنے سے بلب بج کر اندھیرا چھا جاتا ہے
بچے انجان و خوفناک آوازوں میں سہم جاتے ہیں.
اس طوفان سے بڑ ھ کر ایک طوفان برپا ہونے لگتا ہے.
زمین پر گھوڑوں کے ٹاپ کی آوازوں سے پوری گھر عزیتناک منظر پیش کرنے لگتی ہے
گھر کی دیوار، چھت لرز جاتے ہیں.
خدا رحم کرے کہیں زلزلہ تو نہیں؟؟
اتنے میں دروازہ پر زور زور سے دستک ہونے لگتی ہے،ماں گھبراتی ہوئی، دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہوئے یا اللہ ہماری حفاظت فرما، نہ جانے کس بد بخت کا گھر اجھڑا ہے کسی ہمسایہ کے گھر میں یا ہمارے کسی رشتہ دار کے گھر میں یہ آفت پیش آیا ہے.
قدموں کی آواز نزدیک ہوکر اچانک گھر کے دروازے پر آپہنچ جاتا ہے
جہاں ماں اپنے بچوں کو گھود میں لئے اللہ سے حفاظت کرنے کی التجا کر رہی ہے۔اسی حالت میں ماں کو کچھ انجان آوازیں سنائی دیتی ہے دروازہ کھولو ورنہ تو توڑ دیں گے، اتنے میں دروازے پر لاتوں کی بارش ہونے لگتی ہے اور کسی وزنی شے کی ضرب لگانے کی آواز آتی ہے.
ماں کانپتے ہوئے دروازے کی طرف بڑ ھ جاتی ہے
اس کے سامنے لمبے لمبے سایے حویلی، دیوار چھت بلکہ پورا گھر اُن سے بھرا پڑا ہے.
ایک نے ٹارچ جو بوڑھی ماں کی آنکھوں میں لگائی تھی جس کی روشنی سے آنکھوں میں چبھن کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہی تھی.
ماں: کون ہو بیٹا کیا چاہیے؟؟؟؟
کتنے بندے ہو گھر میں؟؟
ماں: میں اور میرے بچے…..
کہاں ہیں تمہارے بچے؟؟؟
بوڑھی ماں بلاتی ہے بیٹا باہر آتا ہے.
باقی لوگ کہاں ہیں؟؟
بس یہی ہے ایک اور بیٹا ہے جو ڈاکٹری پڑھتا ہے کچھ دن بعد اُس کے امتحان ہے.
کہاں ہے وہ؟؟؟ اور گھر میں کیوں نہیں ہے؟؟
ماں وہ ہاسٹل میں اپنے امتحانات کی تیاری کر رہا ہے بڑا نیک فرمان بردار اور محنتی بچہ ہے.
ہاں ہاں ٹھیک ہے ہمیں اُس سے ملوالو۔
ماں اپنے دوسرے بیٹا سے کہتی ہے چلو اپنے بھائی سے ملوا لو انھیں۔
گاڑیاں اسٹارٹ ہوتے ہیں گھر ایک دفعہ پھر لرز اُٹھتا ہے اور ماں کیلئے قیامت کی منظر پیش کرتی ہے.
یااللہ میرے لاڈلے آپ کے حوالے ہے آپ ہی ان کی حفاظت فرمائیں.
گاڑیاں گولی مار چوک سے موڑتی ہوئی بی ایم سی کے مین ہاسٹل میں داخل ہوتے ہی ہاسٹل کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں.
سعید بلوچ کے کمرے کے طرف بڑھتے ہیں انکے ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھل جاتا ہے جہاں معصوم سا طالب علم کتاب ہاتھ میں لئے سو رہا ہے لگتا ہے پڑھتے پڑھتے کب آنکھ لگ گئی گئی۔ کمرے میں کتابوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں.
سعیدجو آنکھوں کا ڈاکٹر بننے کا خواب لئے دنیا سے غافل سو رہا ہے،
اچانک اُس پر بڑے بڑے بوٹوں سے حملہ ہوتا ہے.
ؑ عنودگی میں معصوم کا خواب چکنا چور ہوتے ہیں،اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے، ہاتھ باندھے جاتے ہیں بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو اس حالات میں دیکھ کر کچھ نہیں کر پاتا اور بڑے بھائی کو سڑک کے بیچ میں چھوڑ کر ڈاکٹر کو نامعلوم افراد نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیتے ہیں.
گھر پہنچنے پر ماں پوچھتی ہے کہاں ہے تمہارا بھائی اُس کی امتحانات کی تیاری میں تو خلل نہیں ڈالا چند دن ہی تو ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے گا.
بھائی کے آنسو گرجاتے ہیں لرزتے ہونٹوں سے صرف یہی بول پاتا ہے.
اُسے لیے گئے.
ماں: کون تھے وہ کون تھے؟.
بیٹا: فوجی
ماں حواس باختہ ہو کر بیہوشی کے عالم میں خدا سے دعا کرتی ہے.
میرے جگر گوشہ کو لے جانے والوں۔
کاش….. تمہارے ماں پہ بھی یہی گزرے…