کہیں یہ نا بینائی تمہیں معذور نہ کردے ــــ اسرار احمد ابراہیم

267

بلا شک وشبہ بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کی مثال  کہیں اورآپ کو نہیں ملے گا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں %70 فیصد گوسٹ اسکولز ہے اور باقی جو %30 اسکولز ہیں ان پر اشرافیہ کا راج ہے۔ اس عالم میں تعلیمی پسماندگی اپنی جگہ بجا ہے۔

باقی دیہات اور شہر سے دور دراز علاقوں میں تو اسکولز صرف ایک کمیٹی ہال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ کبھی سرکاری شہزادوں کی میٹنگ اور شادی بیاہ کے تقریبات تو کبھی علاقے کے میر و معتبر کے جرگہ اور فیصلے کرنے کا جگہ بھی کبھی کبھار یہی اسکولز ہوتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں اس صوبے کے عوام کو تعلیم کے نام پر سبز باغ دکھاتے ہیں۔

تعلیم کے ساتھ اب سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اب بلوچستان میں تعلیم کاروبار کے لحاظ سے عروج پر ہے۔ بس بزنس کیلئے ایک تعلیمی ادارہ کھولو اور تعلیم حاصل کرنے کے آس لگائے نوجوانوں کو لوٹو۔

خیر یہاں غریب اور متوسط طبقے کی تعلیم تک پہنچ کی تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ رہی بات گزارہ کرنے والوں کی تو وہ بھی آج کل بے پناہ مشکلات کا سامنا کرہے ہیں۔
رواں ماہ بلوچستان سے اعليٰ تعلیم صاحل کرنے کی پر امید کچھ نوجوان کے ساتھ جو دردناک واقعہ پیش آیا یقیناً اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی میں کچھ عناصر سرگرم ہیں۔

پہلے یہاں میر سردار نواب لوگوں کو بس اپنے در کے سوا کہیں نہ جانے نہ ترقی اور نہ تعلیم صاحل کرنے کا موقع دیتے۔ بس کچھ زندگی کی خرچہ دیکر اسے ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ یوں ایک باپ کا اثر بچوں پر پڑتی اور بچہ بھی صرف سردار نواب کے در کا ہر وقت سوچ میں تھا کہ ایک طرح سے میر صاحب کے ساتھ منسلک ہوجاؤ جیب خرچہ مل جائے گا۔

یہ تھے کچھ عرصہ پہلے کی حالت۔ اب کافی حد تک  قوم میں شعور آگئی ہے۔ اب ان کا دھیان زیادہ تر تعلیم کی طرف ہے۔ تعلیم میں ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں ہے۔ اعليٰ عہدہ حاصل کرنے کیلئے مقابلے کی امتحانات میں ہر وقت صف اول میں کھڑے رہتے ہیں۔ نہ صرف ڈگری حاصل کرنے کیلئے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں بلکہ PCS اور CSS کے امتحانات کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اس حالت میں بھی اس قوم کے بد قسمتی نماياں ہے۔ جوکہ حالیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کا واقعہ پیش آیا۔
علم کے پیاس بجانے کے بجائے لاہور یعنی کالجوں کا شہر میں اس سرزمیں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے پیاس کو خون سے بجا دیا۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی کہی مرتبہ ان نوجوانوں کا لاہور والے اسلامی بھائیوں نے ڈنڈوں، پسٹل، لات اور مکوں سے خوب خاطر توازن کروائے۔ اس لئے تو لاہور والے مہمان نواز کہلاتے ہیں۔ اکثر کسی کو لاہور والوں کے مہمان نوازی پر شک ہے تو وہ جاکر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لے۔
حال ہی میں اسلامی جمعیت طلباء کے کارندوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء پر انتہائی بے دردی سے حملہ آور ہوئے جس سے بہت سے طلباء زخمی ہوئے۔

آخر کب تک محکوم اور مظلوم اقوام درندگی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جس ظلم اور زیادتی کا شکار ہوئے شاید ہی اس کی مثال کہی مل جائے۔ ایک طرف ان غنڈوں نے بے رحمانہ حملہ آور ہوئے دوسری طرف بے شرم انتظامیہ اور حکومت بھی ظلم کرنے میں پیچھے نہیں رہا۔ زخمی طلباء کو بجائے اسپتال لیجانے کے سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔ سوشل میڈیا پر تو واضع ان بدمعاشوں کے ہاتھوں میں پسٹل اور ڈنڈیں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں پولیس کا فرض بنتا کہ مسلح کو روکتا لیکن ظلم کے حد ہوگئی پہلے ان غنڈوں سے معصوم طلباء پر ظلم کی پہاڑ تھوڑ دیئے پھر انہی متاثرہ طلباء کو گرفتار کیا گیا۔
پنجاب حکومت کی ظلم سے یہاں تک دل نہیں بھرا پھر انہیں معصوم طلباء کو دہشت گرد جیسے غلیظ لقب سے بھی نوازہ۔ اب سنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ ان تعلیم کے امید لئے طلباء کو مسلح گروہوں سے منسلک کرنے کا گھنائونی سازش کی جارہی ہے۔ اگر اس طرح کا رویہ رکھا گیا ان طلباء کے ساتھ پھر شاید اس کے بہت خطرناک اثرات دونوں صوبوں کے درمیاں پڑے گا۔
اس ظلم کے گھڑی میں ہمارے لکھاریوں اور دانشوروں حضرات کا خاموشی کا روزہ رکھنا چہ معنی دارد؟ پنجاب کے نام نہاد صافی، کالم نگار اور اینکرز کیوں سچ کو بیان نہیں کرتے۔ سلیم صافی، اوریا مقبول، حامد میر جیسے کالم نگار جوکہ جھوٹے چھوٹے سانحے پر تو کچھ صفحے سیاہ کرتے ہیں لیکن اس انسانیت سوز واقعے پر کیوں خاموش ہیں۔ آخر حکومت کے رویہ پر کیوں سوال نہیں کرتے۔ کیا واقعی پنجاب کا یہی منصوبہ ہے کہ بلوچ طلباء پر مسلح کا ٹپہ لگاکر انہیں مسلح بنائے؟؟؟