بولان میں آپریشن جاری: راگئے سے اغوا کئے گئے ایک خاندان کی تفصیل مہینے بعد موصول ہوئیں ۔ بی این ایم

302

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پورے بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔ بولان میں کئی دن سے جاری آپریشن میں متعددافرادکو لاپتہ کیاگیاہے۔ ان میں سے صرف چند لوگوں کی گرفتاری کی تصدیق پاکستانی فوج نے گزشتہ روزاپنے بیان میں کردی ہے مگر انہیں منظر عام پر نہیں لایاگیاہے۔ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر پاکستانی اداروں نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اٹھانے کا دعویٰ کیا مگر آج تک ان میں سے کسی کو بھی منظر عام پر نہیں لایاگیاہے۔اقرار و انکار کوئی معنیٰ نہیں رکھتے، سب کے سب پاکستانی بلیک ہول میں غائب ہیں۔ یہ نہ صرف بلوچ کیلئے ایک قومی المیہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن چکاہے ۔

انہوں نے کہا کہ فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والوں میں سے صرف چندافراد کی شناخت ہوسکی ہے جن میں حاجی عزیز سمالانی عمر چالیس سال ، جلمب ولد طور خان مزارانی عمر 43 سال ، جمعہ خان محمد حسنی عمر 75 سال، پیرو محمد حسنی 80 سال ، ہپڑسی محمد حسنی عمر 42 سال، غازو سمالانی عمر 35 سال، اکبر سمالانی عمر 40 سال،تیمور خان عمر 38 سال،شیر خان ولد تیمور خان عمر 30 سال شامل ہیں۔یہ لوگ مال مویشی پالنے والے عام اورنہتے لوگ ہیں۔ ان کے علاوہ بڈھو مزارانی، شادی گل چھلگری، میشدار سمالانی، گل حسن سمالانی، لالو مزارانی اور گلاب خان مزارانی خاندان سمیت لاپتہ ہیں اور ان افراد کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نذر آتش کردیاگیا ہے اور مویشیوں کو بھی لوٹا گیا ہے۔فوج نے نہ صرف انہیں گرفتاری کے بعد لاپتہ کیاہے بلکہ کئی علاقوں میں گھروں کو نذرآتش کرنے کا سلسلہ جاری رکھاہے۔ واضح رہے کہ لاپتہ کئے جانے والوں کی اصل تعداداس سے کہیں زیادہ ہے ۔

ترجمان نے کہا کہ بسیمہ کے علاقے راگئے اور مشکے سے اغوا کئے گئے کئی خواتین اور بچے تاحال فوجی قید میں ہیں اور انہیں لاپتہ رکھ کر کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ راگئے کے ایک علاقے بمبکان آپریچ سے ایک خاندان کی تفصیل ہمیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں 80 سالہ علی محمد ولد چٹا، فریدہ زوجہ اسماعیل، عازیز زوجہ اسماعیل، آٹھ سالہ مجیب ولد اسماعیل، تین سالہ سعداللہ ولد اسماعیل، ایک سالہ شریف ولد اسماعیل، پانچ سالہ لڑکی حسینہ بنت اسماعیل، گل پری زوجہ عبدالمالک چار بچوں سمیت( جنکی عمریں آٹھ سال تک ہیں)، نازگل زوجی اقبال دو بچیوں سمیت، مریم زوجہ محمد چار بچوں سمیت شامل ہیں۔ ایک مہینے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک خاندان کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں کیونکہ علاقہ فوجی حصار اور مواصلاتی نظام کو منطقع کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پروم سے دوافرادنور جان ولد دوست محمداوراشفاق ولد عبدالخالق کو لاپتہ کیاگیاہے ۔اشفاق کی عمر محض گیارہ سال ہے ۔گوادر سے بھی تین افراد لاپتہ کئے گئے ہیں۔ دشت کے مختلف علاقوں میں فوج کی نقل و حمل میں تیزی لائی گئی ہے۔ ان علاقوں میں ایک اور خونی آپریشن کا خدشہ ہے جبکہ ان علاقوں میں چند روزقبل ہی ایک بڑے آپریشن میں متعدد افراد کو لاپتہ کرنے کے ساتھ لوٹ مار اورگھروں نذرآتش کیا گیاتھا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بتایاکہ پاکستانی فوج کے لئے بلوچ کا خون بہانا ،اٹھاکر لاپتہ کرناگھربار اجاڑنا ،ما ل ومڈ ی لوٹنا ایک معمول بن چکاہے ۔عالمی قوانین پاکستان کے سامنے اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ یہی بنیادی وجہ بلوچ قومی اورانسانی المیے میں پاکستان کے جنگی جرائم میں بین الاقوامی اداروں کو بھی اس طرح خاموش رہنے پر پاکستان کے ساتھ فریق بنانے کی سبب بن جائے گا۔ نام نہادآزادپاکستانی میڈیا کی جانب داری اور پاکستانی بیانئے کی تشہیر اور بین الاقوامی میڈیاکی عدم رسائی نے بلوچ قوم کے مشکلات میں بے حد اضافہ کردیاہے۔ ہم بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی فریضے کی ادائیگی میں مزید تاخیر نہ کریں بصورت دیگر پاکستانی اسے ایک استثنیٰ کی صورت میں استعمال کرکے بلوچ قومی وجود کو مٹانے کے لئے اپنی دہشت گردی میں روز بہ روز اضافہ ہی کرے گا ۔