غلام دھرتی کا آزاد باسی__سفر خان بلوچ

450

عظیم ہیں وہ لوگ جو دوسروں کی خوشحالی کےلئے اپنےذاتی دکھ درد و  تکالیف کو خاطر میں لائے بغیر ہر مشکل و آزماہش سہنے کو اپنا طرز زندگی تصور کر لیں۔ جو اپنے سینے میں دھڑکتے دل سے ذاتی خواہشات کی گٹھڑی کو نکال باہر پھینک دیں، جن کے نزدیک زندگی کا اولین و آخری  مقصد انسانی اقدار و وقار کے ترنگے کو دائم بلند رکھنے کی جدوجہد میں مصروف عمل رہنا ہو۔ یقینا بہت ہی کم یاب ہونگے ایسے لوگ جو اس طرح کے چیلنجز کی قبولیت کا گنھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں اور اس سے بھی کم وہ لوگ جو اپنی آخری سانسوں تک اپنے تعین کردہ راستے میں عائل تمام آزمائشوں سے گزر کر اپنے متعین کردہ اصولوں پے پابند رہتے ہوئے منزل کی جانب محو سفر ہوں اور سرفراز ٹھرتے ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ دیوانے ہی ہونگے جو اوروں کے لئے بخیر کسی لالچ و متاح خود کو دہکتے ہوئے کوہیلوں کی بٹھی میں جونک دیتےہوں۔جو ہمارے سماج کے اندر پائی جانی والی غلاظت، بزدلی اور گری ہوئی سوچ کو اپنانے سے انکار کرتے ہوں اور انسان ہونے کا صیحح حق ادا کرتے ہوں۔ پر  دوسروں کےلئے مر مٹنے کا جزبہ حریت رکھنے والے ایسے لوگ آج کل پیش چشم دکھتے ہی کہاں ہیں۔

پر مری خوش بختی کہ چند ایک ایسے ہی دیوانوں کی صحبت میں اٹھنے بھیٹنے کا فیض نصیب یوا۔

ان دیوانوں میں سے ایک میرا سالم جان تھا جو 18 سال کی کم عمری میں انسانی بقا کے جنگ میں  لڑتے لڑتے خود کو دار صلیب تک لے گیا اور ایک بار بھی اف کیے بغیر گلزمیں کے آغوش میں دفن ہو نے کو تیار ہو گیا۔جس کے آگے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنا ایک لعنت سے کم نہ تھا اور باحث عزت تھا ان زنجیروں کو تھوڑ کر صدا حق بلند کرنا اور مجھ جیسوں کہ جو فکری پختگی کے حوالے سے ان سے ہزار درجہ کمتر ہیں ان پر اس امر کو واضح کرنا کہ سماجی تبدیلی و قومی آزادی کہ جن کے حصول کے ہم دعویدار ہیں ہم سے کس چیز کے متقاضی ہیں۔

جنگیں بہت کچھ چین لیتی ہیں ماووں سے نونہال بیٹے، بہنوں سے ان کے عزیز بھائی،  لوگوں سے ان کی زندگیاں،گھر بار،ارمان، خواہشات اور پتہ نہیں کیا کیا۔ جنگی ماحول میں پرورش پانے والے لوگ از حیات تا مرگ ہزاروں اقسام کے لاعلاج نفسیاتی امراض لئے زندہ رہتے ہیں، انہین مجبور رکھا جاتا ہے کہ وہ سماج کے اندر کسی بھی  ایسے عمل کی دلجوئی سے گریزاں رہیں  جو  کسی طور ان کے نفساتی امراض کی نشاندہی کرے، انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ ایسے کسی بھی شخص کی حوصلہ افزائی قطعنا نہ کی جائے جو تاریک گلیوں میں تمھاری رہنمائی کسی روشنی کی کرن کی جانب کرے، انہیں غلامی سے محبت و آزادی سے نفرت کرنے کا پابند کیا جاتا ہے، غلامانہ سماج میں لوگوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیں ایسی پٹیاں جن کے پار آنکھ ہر چیز دیکھ سکے ماسوائے ظلم و  ظالم اور مظالم کے آگے کھڑے اس شخص کو جو غلامی تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہو۔  غلام شخص اپنےحاکم کی اخلاقی برتری کو اس قدر قبول کرتا ہے کہ آقا غلام کو بے حس کر دیتا ہے، غلام شخص کے ذہن،دل و دماغ سے احساس کا مادہ ختم کر دیا جاتا ہے اس کے نزدیک ظلم ڈھانا، اپنے حق کیلئے اٹھنے والے  ہاتھوں کا کٹ جانا محض ضیافت کا سامان ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ، آقا کہے تو جی لو گر حکم حاکم ہوا تو مر جائو۔۔

غلاموں کی ایک ایسی ہی بستی بلوچستان میں پیدا ہونے والا میرا سالم جان جو پیدا ہوا تو ایک غلام لیکن اپنی تمام زندگی غلامی کے خلاف جنگ میں صرف کر دی، اس نے بے حس ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے سرزمیں پر بسے ہر شے کی بے بسی و لاچاری کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، وہ اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے اور اپنے کانوں میں روھیاں ڈالنے پر اپنے آقا سے احتجاج کرتا رہا، کیونکہ وہ ان آوازوں کو سننا چہتا تھا جنہیں دیگر تمام لوگوں نے سننے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ظلم کے وہ مناظر دیکھنا چھتا تھا جن کو دیکھ کر سب نے اپنا منہ پرے کر لیا تھا- وہ خود پر اور اپنے لوگوں پر اپنے آقا کی اخلاقی برتری کو قبول کرنے سے انکاری ہو گیا تھا اور اس کے خلاف بندوق اٹھا کر لڑنے کو تیار ہو گیا تھا۔وہ  غلامی سے نفرت کرنے لگا تھا  اور آزادی کی کھوج میں نکل پڑا تھا، اندھرے میں ایک ایسی روشنی کے پیھچے کہ جو خود کو جلائے رکھنے کے عیوز انسانی خون کا متقاضی تھا. وہ دیوانگی کی حد تک ایک تنگ گلی میں دور سے ظاہر آزادی نام کے کسی ایک کرن کے پیچھے بھاگتا رہا اور اس بات پر مصر رہا کہ وہ اس روشنی میں ضم ہو جائے تاکہ روشنی کی اس کرن کو مزید جلا بخش سکے کہ اس کے بعد  اندھیرے میں درست سمت کا متلاشی کوئی شخص راستہ بھٹک نہ جائے۔

گوران بالگتر کے پہاڑوں سے منسوب ایک قصہ ہمیشہ سے زبان ہر عام و خاص پے رہا ہے کہ 73 کی بلوچ-پنجابی جنگ نے گوران کے پہاڑوں کو دشمن فوج کے گندے لہو سے ناپاک کر دیا تھا کہ جب وہ بلوچ سرمچاروں سے شکست پاش ہوئے تھے اور اب 41 سال بعد  شہید سالم نے اپنے ہمراہ شہید غنی جان اور شہید حلیم بلوچ کے ساتھ مل کر اس کسہ دیرینہ کی ترمیم و توسیع کی ذمہ داری کو انجام تک پہنچایا، اور اپنا پاک خون بہا کر گوران کے پتھروں و چٹانوں کو مردار ہونے والے پاکستانی فوجیوں کے گندے و ناجائز خون سے مختی دلائی  اور انہیں قابل فرستش بنا ڈالا۔

بے شک بلوچ وطن کی مٹھی نازاں ہو گی اپنے ایسے تمام تاریک ساز بیٹیوں پے کہ جنہوں نے اپنے خون سے اس کے بنجر و گیاباں پہاڑوں کی حفاظت کی اپنے جسم کے ٹپکتے لہو سے اس کی سرحدیں کھینچیں اور جس کی تشخیص کیلئے لڑتے لڑتے اسی میں سما گئے ۔ اور جو اپنے بعد اپنی سرزمیں پے پیدا یونے والی نسلوں کیلئے ایک باحث فخر شہ میراث میں چھوڑ گئے کہ وہ زندگی تلک اپنا سر فخر سے بلند کریں گے اور کہیں گے کہ ہاں یہ وہی سرزمیں ہے کہ جہاں پے سالم و دیگر تمام شہدا نے جنم لیا تھا۔ وہ سرزمین کہ جس پر وہ قربان ہوئے تھے ،  وہ سرزمیں کہ جو آج آزاد ہے کہ جس کے ہم آزاد باسی ہیں۔