ایک سرخ سمندر __ اُمیتان بلوچ

442

بلوچستان یونیورسٹی کے اُس سبزہ زار میں نہ جانے بیٹھنے سے دل کیوں اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ساتھ میں ہی جہاں کرسیوں کی لگی خالی قطاروں کو دیکھ کر دل و روح پر ایک غشی طاری ہوتاجا ہے۔ اس سبزہ زار سے ان لوگوں کی یادیں وابسطہ ہیں جو میں نے دیگر دوستوں سے زبانی سنا ہے کہ یہاں کھبی ان لوگوں کی بھیڑ تھی، جو بلوچی چوٹ (مری بُر) پہنے، بڑی بڑی شلواروں سے مزین، گلے میں بلوچی (مکرانی)چادر اوڑھے، ہاتھوں میں کوچ و بلوچ، سقراط، ارسطو، چے گویرا، فیڈرل کاسترو، ہوچی من، کامریڈ کم ال سنگ، ودیگر کی کتابیں اٹھائے، لہراتے ہوئے، سرخ جھنڈے کے سائے تلے آزادی، انقلاب، قومی غلامی سے نفرت، قومی بقاء و تشخص کا قومی احساس، وت وجہی، کل کی خوشحالی، سیاسی شعور، کے بابت سرخ جھنڈے کے سائے تلے بلوچ طلباء اور طلبات سے پُرجوش خطاب کرتے، جو شعوری طور پر قومی جذبات کو ابھارتا تھا، جبکہ سبزہ زار کا یہ نظارہ ہی روح میں سموئے جذبات کو تازگی بخشتا تھا،سرخ جھنڈے کے بارے میں یہ رائے ہے کہ اسے لہراتے پچاس سال ہوئے ہیں اسے ہر دور میں گاڑھ کر ہٹھانے اور منظر عام سے مٹانے کی بہت کوشیشیں کی گئیں، مگر جسم و جان پر گہرے زخم لیے، ہاتھ، سر کٹاتے ایک کے بعد ایک نے اسے گِرانے نہیں دیا ہے، آج بھی اس کی شان بلند رکھنے والوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں، جو اپنی باری کا انتطار میں ہیں۔

ہاتھ و سر کٹاتے، سینے اور باقی جسم انسانی پر گہرے زخم سہنے والے آخری سانس تک مستقل مزاجی سے ڈٹے رہتے ہوئے، اتنی پُرجوش اور جذبات بھرے نعروں سے جان دیتے ہیں کہ دشمن کے ایوانوں کی در ودیوالیں ہلنے لگتے ہیں۔
ایک سرخ سمندر،۔۔۔۔۔۔ ہر گھر کے اندر،۔۔۔۔۔ ماؤں کی دعائیں،۔۔۔۔۔۔بہنوں کی صدائیں،۔۔۔۔۔۔۔ذرا زور سے بولو۔۔۔۔۔زرا پیار سے بولو۔۔۔۔۔للکار کے بولو۔۔۔۔۔

ان نعروں کی گونج بلوچ سرزمین کے کونے کونے میں پہنچتے ہی ہر گھر سے سینکڑوں، ہزاروں نوجوان ہاتھ میں قلم و کتاب لیے سرخ جھنڈے کو مضبوطی سے تھامے اس کاروان میں شامل ہوتے ہیں، جیسے پروانہ عشق شمع میں جل کر فنا ہوتا ہے۔

یہ باتیں بار بار ایک دوست کرتا تھا اور باقی دوستوں کے چہروں پر اس طرح افسردگی چاہ جاتی گویا وہ بھی ان یادوں کے حصہ تھے، جو آج نایاب ہوں، مگر یہ تمام باتیں میرے لئے نئے پن اور افسانوی باتوں سے زیادہ نہ تھیں۔
آج جب میں کلاس سے فارغ ہوا تو پہلے سے میرے انتظار میں بیٹھے دوستوں کے چہروں پر اب پہلی والی افسردگی گویا ختم نہیں ہوئی تھی، مگر کمی واقع ضرور ہوئی ہے، ایک دوست نے جھٹ سے اپنا ہاتھ شاہانہ انداز سے اس ویران سبزہ زار کی طرف اشاراتاً اٹھایا اور چلنے کو کہنے لگا جو کسی کے انتظار میں تنہا اور اپنے اندر غموں کا بھاری بوجھ لیے نڈھال، خستہ حال کرسیوں کے گھیرے میں اپنے قریب کے باقی باغیچوں سے کافی مختلف اور بیگانہ تھا۔

ہم اس سمت چلتے رہے اور محسوس ہوا آج کسی کی زندگی کے مختلف نشیب و فراز کو پچاس سال ہوچکے ہیں، تو اس دن اس پر کیا بیت رہی ہے؟ جس نے زندگی کے پچاس سالہ سفر میں دردناک دکھ، اپنے دامن سے وابسطہ اپنے ہم فکر لوگوں کو بِچھڑتے دیکھا ہے۔ میرے دل میں یہ سوال اٹھا کہ یہ کون ہے جو اتنے دکھ، تکالیف اور قہر کے کوکھ سے اپنے وجود کو زندہ رکھا ہوا ہے؟ آخر بازی ہارنے کی بجائے زندہ و تناور رہنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہوئے پھر بھی امیدوں کا سہارا خود اعتمادی سے لیا ہوا ہے۔ جوں جوں ہم قریب پہنچتے گئے، اتنی شدت سے مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہی پُرجوش نعرے میرے بند سماعتوں سے ٹکرارہے تھے، جو جب بھی سینکڑوں، ہزاروں نوجوانوں کے کانوں پر پڑتی تو، وہ اس کاروان پر سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہوتے تھے۔

قریب جا کر سبزہ زار کی حالت زار کو دیکھا، یہاں تو افراتفری کا سما ہے، قتل و غارت کی جاری داستان تو یہاں کی باسیوں کی نسل کشی کا موجب بن رہا ہے، روز لوگ جبری طور پر اٹھائے اور قتل کیے جاتے ہیں، گھر بار، تیار فصلیں جلائے جاتے ہیں، عورتیں دشمن کے ہاتھوں زیر عِتاب جبکہ بچے بوڑھے بھی یہاں کی برپا ظلمِ قہر سے محفوظ نہیں ہیں، معمولات زندگی گویا دوزخ زدہ ہیں۔

سبزہ زار کی کَلیوں کی اکثریت یہاں دشمن کی بار بار چڑاہی، اور لشکر کشی سے روندے ہوئے نظر آتے ہیں، بد مست ہاتھی کی پاؤں تلے ظلم کا شکار کسی کَلی کی گردن یا کسی کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے، سبزہ زار کی کَلیان آپس میں سرگوشی سے زیرلب کہہ رہی تھیں کہ یہاں کی فضا خون آلود، جبکہ صبع و شام کی کرنیں بھی ابر آلود پڑتے ہیں۔ ایک اور بات جو قابل دید تھی کہ اتنا ظلم سہنے اور روز لشکر کی پاؤں تلے روندے جانے والے کُلیوں کے سریں جھکی نہیں تھیں، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی سپوت ہر قسم کے بربریت سے نبردآزما قربانی سے سرشار، قومی جذبوں سے لیس ہیں، اسی لیے یہاں کی باسیوں کو شکست دے کر زیر کرنا دشمن کی بس کی بات نہیں ہے۔
خالی و خستہ حال کرسیوں پر کافی دھول جمی تھی جبکہ ہر سال کے خزاں کے خشک پتے، کرسیوں پر زرد چادر چڑھائے ہوئے تھے، خالی کرسیوں کی حالت زار سے یہی گمان کیا جا سکتا تھا کہ یہاں بیھٹنے والوں کو روز یہاں کی قابض دشمن آکر جبری طور پر لاپتہ کرتا تھا، سامنے دو کرسیاں تھیں جو شان دار طریقے سے دوسرے کرسیوں سے الگ تھیں، ان دو کرسیوں میں ایک پر تو مکڑیوں نے جالیں بنا کر گھر بسا لیا تھا، اس پر بھاری دھول جمی تھی، جبکہ اس پر پڑے بہت پرانی زرد پتوں سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ اس کرسی پر کئی سالوں کی خزاں آتی رہی ہے۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے تین ایسی کرسیاں تھیں جن پر بیھٹنے والوں کے بیھٹنے کے نشانات تازہ تھیں، جنہیں ابھی ابھی دشمن نے جبری طور پر لاپتہ کر کے اس کاروان سے الگ کیا ہوا تھا۔

سبزہ زار کی اس منظر کو دیکھتے ہی میرے اندر ایک خود اعتمادی پیدا ہو رہا تھا اور میں اس کاراوان میں شامل ہونے کے جذبے سے سرشار ہو رہا تھا، ابھی جذبات اور زبان سے بے قابو بے ساختہ ایک باہمت و باحوصلہ نعرہ میرے زبان سے نکل پڑی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرا للکار کے بولو!
ختم شد