روزہ اور عبادات پر پابندیاں: چین میں مسلمانوں کا رمضان کیسے گزرتا ہے؟

207

دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے رمضان ,روزہ، نماز، خیراتی کاموں اور دوسروں کی مدد کا مہینہ ہوتا ہے۔ لیکن چین کے ان علاقوں میں جہاں ‘ہوئی’ مسلم کمیونٹی کی اکثریت ہے وہاں ان پر روزہ رکھنے سمیت مختلف پابندیاں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں۔

ہوئی مسلمان چین میں ترک نسل ایغور کمیونٹی کے بعد آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی کمیونٹی ہے جن کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔

گزشتہ ماہ رمضان شروع ہونے کے اگلے ہی روز چین کے جنوب مغربی صوبے یونان کی یوشی میونسپل گورنمنٹ نے ایک ہنگامی نوٹس جاری کردیا تھا۔

اس نوٹس کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کی مقامی کمیٹی، حکومتی اداروں اور محکمۂ تعلیم کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہر سطح پر اس بات کی جامع تحقیق کریں اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا کوئی مسلم رکن اور نابالغ افراد یا بچے روزہ رکھنے سمیت کسی مذہبی سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔

اگرچہ اس نوٹس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ روزہ رکھنا اسلام کی عبادات میں شامل ہے تاہم اس میں یہ اضافہ بھی کیا گیا ہے کہ سیاسی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ارکان کے لیے پکا مارکسسٹ ملحد ہونا ضروری ہے اور انہیں کسی مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

اس ہنگامی نوٹس میں تعلیم اور مذہب کو علیحدہ رکھنے کے اصول پر زور دیتے ہوئے تاکید کی گئی ہے کہ اسکول اور تمام تربیتی ادارے سختی سے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ نابالغ افراد کو مذہبی سرگرمیوں میں شریک نہ ہونے دیں۔ نوٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ جو افراد اور ادارے ان پابندیوں کی خلاف ورزی کریں گے انہیں سخت سزا دی جائے گی۔

’روزہ رکھنے کی اجازت نہیں‘

وی او اے میندرین سروس سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی مسلمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بچوں کو اب اسکول میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور یوشی میں حکومتی احکامات نافذ کر دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دو روز قبل وہ ایک اور قریبی علاقے تونغائی بھی گئے تھے جہاں انہوں نے مقامی افراد سے بات چیت بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں ابھی مساجد میں تحقیقات نہیں ہوئی ہیں تاہم اسکولوں نے بچوں کو خبردار کردیا ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتے اور انہوں نے ایسا کیا تو انہیں کیا سزا مل سکتی ہے۔ اسکولوں کو اس بات کی ہدایت بھی کی گئی ہے کہ بچوں سے معلوم کریں کہ ان کے گھر میں کون کون روزہ رکھ رہا ہے۔

یوشی کے سرکاری پرائمری اسکولوں نے چھوٹی جماعتوں کے لیے ایک سوالنامہ بھی تیار کیا ہے جس میں یہ معلوم کیا گیا ہے کہ ان کے خاندان میں کون کون روزہ رکھتا ہے یا نماز پڑھتا ہے۔

صوبہ یونان میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے مسلم رکن جن کے نام کا ایک حصہ وانگ ہے کا کہنا ہے کہ جب سے رمضان کا آغاز ہوا ہے مقامی حکومت نے سختی کردی ہے۔

وانگ بتاتے ہیں کہ وہ آخری بار جس پارٹی اجلاس میں شریک ہوئے تھے اس میں رہنماؤں نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

’سماجی کشیدگی بڑھے گی‘

نیویارک کی کورنیل یونیورسٹی میں سماجیات کے شعبے سے وابستہ رسلان یوسپوو چین میں اسلام پر تحقیق کرتے ہیں۔ وی او اے میندرین سروس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس ماضی میں قومی سطح پر اسلامک ایسوسی ایشن آف چائنا کی جاری کردہ دستاویز سے متعلق ہے۔

رسلان یوسپوو کے مطابق اس نوٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی حکومت آئندہ ملک میں مذہبی آزادیوں پر مزید پابندیاں عائد کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ کے دورِ حکومت سے قبل روزہ رکھنے کو ایک ثقافتی روایت کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور کچھ آزادی کے ساتھ اس کی اجازت بھی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس دور میں خود چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بعض عہدے دار اور ارکان بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔ لیکن شی جن پنگ کے بعد روزہ رکھنے کو ایک مذہبی عبادت قرار دے کر اس پر پابندیاں بڑھا دی گئیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے مذہبی عبادات کو کنٹرول کرنے اور انہیں دبانے کے لیے غیر رسمی طریقے بھی استعمال کرنا شروع کردیے۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اسکالر محمد السدیری کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کے نوٹس سے مسلمانوں پر جبر اور سماجی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو چینی معاشرے کی ہم آہنگی کو بھی متاثر کرے گا۔

السدیری کا کہنا ہے کہ نوٹس میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان پر اپنے ملحدانہ نظریات پر کڑا مؤقف لینے اور سختی کے ساتھ مذہبی سرگرمیوں سے دور رہنے کے لیے زور دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت مذہب پر قابو پانے کے لیے سیاسی اختیارات کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔

کہاں کہاں نوٹس جاری ہوئے ہیں؟

رمصان سے متعلق صرف یوشی کی حکومت کی جانب سے نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ ایسے ہی نوٹس صوبہ ہینان کے کئی علاقوں میں بھی جاری کیے گئے ہیں جہاں نابالغ افراد کے مسجد میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بعض مساجد نے بچوں کے مسجد میں داخلے پر پابندی کے بورڈ بھی اپنے دروازوں پر آویزاں کردیے ہیں۔

چین کے شمال وسطی صوبے گانسو کے ایک مسلم حکومتی اہل کار کا کہنا ہے کہ حال ہی مسجدوں پر مزید پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور انہیں مسجد میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد نصف کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔ بقیہ نصف طلبہ کو گھروں تک محدود رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مسلم اہل کار کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے اراکان پر مسجد میں داخل ہونے اور نماز ادا کرنے پر پابندی کا ضابطہ کئی برس سے لاگو ہے۔ تاہم گانسو میں روزے پر پابندی کا حکم نامہ جاری نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ البتہ سنکیانگ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہاں رمضان کے دوران حکومت کی جانب سے روزہ نہ رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کو دوپہر کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور حکومتی نگرانی میں کھلایا بھی جاتا ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایغور اور دیگر ترک النسل مسلمانوں کی آبادی والے صوبے سنکیانگ کی دو تہائی مساجد کی عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچانے یا مکمل منہدم کرنے کے بعد حکومت نے ہوئی مسلمانوں کی آبادی والے صوبوں ننگشیا اور گانسو میں بھی مساجد کی تعداد کم کرنا شروع کردی ہے۔

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

یوشی شہر میں مذہبی و ثقافی بیورو کے کے سربراہ آئی یوندونگ نے وی او اے میندرین کو بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمام مذہبی سرگرمیاں قانون کے دائرے میں ادا کی جائیں اور ان سے سماجی و تعلیمی نظم و ضبط متاثر نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ روزہ رکھنا ایک اسلامی عبادت ہے جو کہ مذہبی عقائد کی آزدی کے دائرے میں آتی ہے لیکن عوامی مقامات پر مذہبی غیر جانب داری برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے اور نابالغ افراد کو مذہبی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لیے مجبور کرنے کی روک تھام کرنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جاری کردہ دستاویز کا مقصد تعلیم کو مستحکم کرنا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے ارکان اور نابالغ افراد کے سیاسی مؤقف، ان کے حقوق اور دل چسپیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اس کے ذریعے سے انہیں مذہبی انتہا پسندی سے روکنا ہے۔

وی او اے نے اس معاملے پر مؤقف کے لیے جب اسلامک ایسوسی ایشن آف یونان سے رابطہ کیا تو ان کے عملے کے ایک فرد نے بتایا کہ وہ ایسے کسی نوٹس کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔ وی او اے نے اس معاملے پر یوشی سٹی کی اسلامک ایسوسی ایشن سے بھی متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے فون کا جواب نہیں دیا گیا۔