بلوچستان قاتلوں کے رحم و کرم پہ – دیدگ بلوچ

412

بلوچستان قاتلوں کے رحم و کرم پہ

تحریر: دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں جس طرح سیاست کو داغ دار کیا گیا اور کیا جارہا ہے اس کے ثمرات آنے والوں دنوں میں جلد دیکھے جائیں گے۔ بلوچستان میں جب بھی کوئی حکومت بنائی گئی ہے ان دہندگان کی اکثریت معاشرتی جرائم میں ملوث رہے ہیں، علاوہ ازیں ایسے ناچیز بھی سامنے لائے گئے ہیں جن پہ پہ کروڑوں روپے کے کرپشن کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ ایک اور بات کہ بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ان عناصر میں سے اکثریت کا سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا ہے اور قابض کو ان سماجی مجرموں میں سے جو زیادہ پسند آجائے وہ اسے گدی نشین بنانے میں دیر نہیں کرتے اسی لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں ایسے ارکانِ بھی ہیں جن کی تعلیمی ڈگری ہی جعلی ہے” بلوچستان اسمبلی میں بیشتر ارکان قتل، اغواء برائے تاوان اور سمگلنگ کے جرم میں مختلف میں تھانوں نامزد مجرم ہے، اور ان لوگوں نے بلوچستان کی سیاست کو بدنما کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

بلوچستان کے موجود وزیر اعلٰی سرفراز بگٹی بھی مختلف جرائم میں نامزد ہے،سرفراز بگٹی کے خلاف کوئٹہ کے بجلی گھر پولیس اسٹیشن میں یاسمین اختر نامی خاتون کی درخواست پر 10 سالہ بچی کے اغواہ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ 9 جولائی 2020 کو کوئٹہ کی عدالت نے 10 سالہ بچی ماریہ علی کے اغوا سے متعلق کیس میں سرفراز بگٹی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے، 6 ماہ تک سرفراز بگٹی گرفتار نہ ہوسکا بعد میں عدالت نے سرفراز بگٹی کو بری کردیا، کیونکہ اس غیر فطری ریاست میں قانون بنانے والے ہی ان کے سرپرست ہیں۔

اسی طرح بلوچستان اسمبلی کے صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران بھی مختلف جرائم میں ملوث رہے ہیں، اور آج بھی بلوچستان اسمبلی کے فلور پہ سینہ تھان کہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کو لٹکا دوں گا، جی سردار صاحب آپ بلکل لوگوں کو لٹکا سکتے ہو کیونکہ آپ کے سر پہ وردی ولاوں نے دست شفقت رکھا ہے علاوہ ازیں عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے انعام شاہ کھیتران نے بھی الزام لگایا ہے کہ انہیں اپنے والد کی طرف سے جان کا خطرہ ہے۔ یہ ہے بلوچستان کے حالات جب بیٹے کو والد سے خطرہ ہو پھر بلوچستان واسیوں کو محافظ کون ہوگا۔

عبدالرحمان کھیتران 2006 میں پہلی بار دو نابالغ لڑکیوں کی زبردستی شادیوں کا حکم دینے کے بعد جیل گیا تھا، اسی طرح 23 جولائی 2020 کو بارکھان نہر کوٹ عبدالرحمان کھیتران کے گارڈز نے مقامی صحافی انور جان کھیتران کو اس لیے قتل کیا کہ سوشل میڈیا پہ عبدالرحمان کھیتران کے ظلم اور کرپشن کے خلاف لکھتا تھا، اسی طرح 2021 کو کوئٹہ میں عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے میجر طاہر کے گارڑ نے تین پشتوں تاجروں کو قتل کردیا۔

سانحہ بارکھان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس نے ہر آنکھ کو اشکبار کیا، ( امر بی بی ) نے اپنی جان کی نذرانہ دے کر خان محمد مری کی اہلیہ سمیت بچوں کوکھیتران کے مظالم سے آزاد کروایا۔ سانحہ بارکھان میں خان محمد مری کے مطابق عبدالرحمان کھیتران نے میرے گھر کے آٹھ افراد جن میں میری بیوی گراں ناز، بیٹی فرزانہ، بیٹے عبدالستار، عبدالغفار، محمد عمران، محمد نواز، عبدالمجید اور عبدالقادر کو اغوا کرکے اپنے نجی جیل قید کردیا ہے، أس وقت عبدالرحمان کھتران صوبائی وزیر مواصلات اور راتوں رات بنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان تھے، سانحہ بارکھان کے بعد عبدالرحمان کھیتران کچھ دن روح پوش رہا اور بعدازاں خود کو سندھ پولیس کے حوالے کردیا ،بعد میں سانحہ بارکھان کے مرکزی ملزم سردار عبدالرحمان کھتران کو حکومت بلوچستان نے ضمانت دلوائی، دس لاکھ روپے کے مچلکے کے ساتھ سردار عبدالرحمن کھیتران کو ضمانت مل گئی جبکہ سرکاری وکیل نے کوئی اعتراض نہیں کیا. ایسے میں رات کے اندھیرے میں دفن کرنے والے بےوارث امر بی بی کو کون انصاف فراہم کرئے گا جب سرکار ہی جلاد بن جائے۔

اسی طرح سرفراز بگٹی کے ایک اور قریبی ساتھی بلوچستان اسمبلی میں انٹری کرنے والا ہے، سرفراز بگٹی کے قریبی دوستوں میں سے ایک شفیق مینگل بھی ہے، 2008 کو شفیق مینگل نے دفاعِ بلوچستان کے نام سے ایک مسلح جماعت بنائی اور بعد میں باقاعدہ طور پہ اس ملسح گروہ کے ساتھ ویڈیو پیغامات بھی جاری کیے گئے۔

شفیق مینگل پہ خضدار توتک کے اجتماعی قبریں ، وڈھ میں پولیس چوکی پر حملہ ، شاہ نورانئ دھماکہ ، سندھ کے شہر شکارپور کی امام بارگاہ اور شہباز قلندر پہ دھماکے اور کراچی صفورا گوٹھ کے کیسز میں نامزد ملزم ٹھہرائے گئے، یہ وہ الزامات ہیں جن کی تصدیق سرکاری سطح پہ بھی کیا گیا ہے، باقی چھوٹے موٹے جرائم شمار میں ہی نہیں ، ان تمام جرائم کے کرنے پہ بطور انعام ان کے لیے اب سیاسی دروازے کھول دیے گئے۔

اسلام آباد میں شیفق مینگل ، سرفراز بگٹی ، انوارالحق کاکڑ ، اور سلیم صحافی کی ملاقات اور تصاویر نے ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز کردیا ، اس کے بعد شفیق مینگل آہستہ آہستہ اخباروں کی زینت بنتاگیا۔ بلوچستان میں حکومت چوںکہ وردی کی ہوتی ہے لہذا جو وردی والوں کو چہتا ہو اسے مکمل آزادی ہوتی حاصل ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ڈوھ میں بی این پی کے رہنما سردار اختر مینگل کے ساتھ مسلح تصادم کی جانب چل پڑا اور سرکاری طور پر شفیق کے حق میں باقاعدہ پریس کانفرنس اور پریس کلبوں کے دروازے کھل گئے جبکہ سرفراز بگٹی کی جانب سے ان کے لیے سیاسی بیانات بھی جاری کئے گئے ۔ حتیٰ کہ بگٹی صاحب نے دوران جنگ ان سے ملاقات بھی کیا، یہ سب شیفق مینگل کو بلوچستان کی تحریک آزادی کو کچلنے کے راہ ہموار کرنا تھا۔ حالیہ دنوں شفیق مینگل کے پریس کانفرنس ، ویڈیوز پیغامات اور سرفراز بگٹی سے جوک در جوک ملاقاتیں آپ کو شیفق مینگل کو خاردار تاروں کے گھروں میں نہیں بلکہ بلوچستان اسمبلی کے فلور پہ دیکھ سکتے ہیں اور یہی ہے بلوچستان جو قاتلوں کے رحم و کرم پہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔