بولان میں ذوالفقار علی بھٹو دور کے طرز کی آپریشن کی تیاریاں

1024

پاکستان فوج بولان میں ذوالفقار علی بھٹو دور کے طرز کی فوجی آپریشن کی تیاریوں میں مصروف، متعدد علاقوں میں فوجی دستوں کی آمد جاری، دوران آپریشن جبری لاپتہ افراد کو قتل کرنے کا خدشہ

باوثوق ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ پاکستان فوج ذوالفقار علی بھٹو دور کے طرز کی فوجی آپریشن کی تیاریاں کررہی ہے جس کی زد میں بولان، نساؤ، چمالنگ سمیت مری قبائل پر مشتمل علاقہ کوہلو اور کاہان ہونگے۔

ذرائع نے بتایا کہ بڑی تعداد میں فوجی آپریشن کے دوران پہلے سے جبری لاپتہ افراد کو قتل کیئے جانے کے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

خیال رہے گذشتہ روز سبی، مچھ اور ہرنائی میں پاکستان فوج کے پیدل و گاڑیوں کے قافلوں پر مشتمل اہلکاروں کی بڑی تعداد نے پیش قدمی کی جبکہ مچھ میں فوجی ہیلی کاپٹروں کی پروازیں دیکھنے میں آئی۔

قبل ازیں بولان کے مختلف علاقوں میں جاسوس طیاروں کی پروازیں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔

خیال رہے 29 جنوری کو بلوچ لبریشن آرمی نے مچھ میں ایک شدید نوعیت کے حملے کے بعد شہر پر دو دن تک قبضہ برقرار رکھا اس دوران پاکستان فوج کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

بی ایل اے نے اس حملے کو ‘آپریشن درہِ بولان بولان’ کا نام دیا۔ تنظیم کے ترجمان نے بتایا کہ اس آپریشن میں بی ایل اے کے خودکش بمبار مجید برگیڈ، ہر اول دستہ فتح اسکواڈ اور اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ نے حصہ لیا۔

بلوچ لریشن آرمی کے حملے بعد پاکستانی فورسز نے مچھ کے علاقے سے مزید چھ افراد کی لاشیں کوئٹہ منتقل کی تھی تاہم بعدازاں مذکورہ افراد کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی۔

اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاست مسلح افراد کی کارروائیوں کو جواز بناکر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کر رہی ہے۔ ریاست ایک جھوٹے بیانیے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہے لیکن حقیقت اس کا بلکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے نام لاپتہ افراد کے لسٹ میں موجود ہے۔