کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

99

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5311 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر بلوچ وطن پارٹی کے علی ظفربلوچ ، رحمت مری ، دوستین مری اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیربلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جو سیاسی صورت حال ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں، جبری اغوا کا یہ سلسلہ 1948 سے لیکر آج تک جاری ہے بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا ہونے کا خبر ملتا ہے لیکن اس سلسلہ میں جو تیزی 2000سے شروع ہوئی وہ آج تک جاری ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر اس کا جائزہ لیا جائے اس مسئلہ کو انٹرنیشنل کرائم کے ادارے تحقیقات کریں تو یہ بہت بڑی انسانی المیہ ہوگا جیسا کہ بلوچ فرزندوں کی اغوا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ہے جو غیر قانونی طریقے سے پاکستانی فوج اٹھا کر جبری طور غائب کرتی ہے بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ کوہلو، ڈیرہ بگٹی، نوشکی خاران ، تربت، پنجگور اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے اب روز کی بات ہے کہ ہرگھر میں کسی کے بچے کو فوج، سی ٹی ڈی، ایف سی نےجبری اغوا نہ کیا ہو یہ سلسلہ پاکستان نے 1970 میں بلوچوں اور بنگلہ دیش کے ساتھ کی تھی جیسا کہ پاکستانی فوج جو نئی طرز عمل شروع کی ہے پاکستان کی نئی ڈاکٹرائن جو بلوچوں پر استعمال ہورہی ہے پر امن جدوجہد کو کاونٹر کرنے کے لیے مذہبی اور قبائلی طاقت کو استعمال کررہا ہے اس لیے اب نہتے بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا کی جو عمل ہے اس میں تیزی آئی ہے۔

ماما قدیربلوچ نے کہا کہ ساٹھ ہزار کے قریب بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا کئے گئے مگر تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں اس طرح انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف محکوم قوم کو ہم آواز ہوکر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اپنے عوام میں شعور آگاہی پیدا کرسکے اور دنیا تک اپنی پیغام پہنچا سکے ۔مقبوضہ بلوچستان میں بھی تشدد ہوتا ہے بلوچستان میں اس قوت کو اختیار دیا گیا ہے جوبلوچوں پر تشدد کریں اسے حکمران کی تاج بھی ان کے سر پر رکھتے ہیں بلوچستان میں حکومتوں کی تبدیلی پھر نئی حکومت لانا یہ تبدیلی جہد مسلسل کو روک نہیں سکے۔