خاتون صحافی کو بلوچ مظاہرین کی کوریج سے روکنے و ہراسگی کی مذمت کرتے ہیں – سی پی جے

211

صحافیوں کی تحفظ کے لئے قائم عالمی تنظیم نے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر رپورٹنگ کی پاداش میں لوگ سُجاک کے خاتون صحافی فاطمہ رزاق کو ہراساں کرنے کی سختی سے مذمت کی ہے۔

صحافی تحفظ کمیٹی ایشیاء (سی پی جے) نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ دنوں پانچ سادہ لباس بندوق برداروں نے خاتون صحافی کو اس وقت زبردستی حراست میں لیا جب وہ اسلام آباد کے قریب راولپنڈی میں اپنی بس کا انتظار کررہی تھی۔ ملزمان نے فاطمہ روزاق کو چالیس منٹوں تک بندوق کے زور پر حبس بے جا میں رکھا اور اس سے بلوچ یکجتی کمیٹی کے اسلام آباد دھرنے میں سرگرمیوں کے بارے مختلف سوالات کئے گئے اور ہراساں کیا گیا-

سی پی جے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دؤران ان افراد نے صحافی سے انکے کیمرے کا مطالبہ کیا جسے صحافی نے حوالگی سے انکار کیا پھر انہوں نے خاتون صحافی کی موبائل لیکر چیزوں کو ڈھونڈنے لگے اور موبائل کو نقصان پہنچایا-

تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے تاکہ صحافی بلا خوف اور رکاوٹ کے اس احتجاج کو کوریج دے سکیں۔

یاد رہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اسلام آباد میں جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاجی دھرنے کو کوریج کے دؤران اس سے پہلے بھی ایک خاتون صحافی سمیہ حفیظ کو اسلام آباد پولیس نے تشدد کے بعد حراست میں لیا تھا جبکہ متعدد دیگر صحافی جو اس مارچ کو کوریج دے رہے ہیں حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں ہیں-

نامور صحافی حامد میر نے اس حوالے سے پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین کے احتجاج کو کوریج پر اس سے قبل ایک اور صحافی سمعیہ حفیظ کو گرفتار کرکے جیل میں رکھا گیا تھا۔ صحافیوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے انھیں ہراساں کرنا بند کردینا چاہیے۔

گذشتہ دنوں پاکستانی نگراں وزیر اعظم انورالحق کاکڑ نے صحافیوں پر تنقید کرتے ہوئے انھیں دہشت گردوں کی حمایتی قرار دیا تھا جبکہ وزیر اعظم نے صحافیوں کو بی ایل اے میں شمولیت کرنے کا کہا-