بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ ۔ صبیحہ بلوچ

707

بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ
 
تحریر:  صبیحہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جہاں کسی  گرج سے کوئی خاموشی کا خول ٹوٹتا ہے تو ہر کوئی اس گرج کی نوعیت، سمت و گونج کے متعلق معمے سلجھانے کی کوشش میں رہتا ہے، کوئی اس خاموشی کی نوعیت پر بات نہیں کرتا، جو اس گرج کے باعث ٹوٹا تھا، کوئی اس گرج کے ہونے کے وجوہات کے بارے میں بات نہیں کرتا، کوئی خاموشی اور گرج کے تضاد کے بارے میں بات  نہیں کرتا۔ زمین سے امڈتا ہوا لاوٴا جب زمین کو چیر کے نکلتا ہے تو لاوٴے کی تباہ کاریوں پر بات  کی جاتی ہے، لاوٴے کی درجہ حرارت پہ بات ہوتی ہے، زمین کو چیر کے آنے والی قوت سے پیدا ہونے والی زلزلے پہ بات ہوتی ہے  مگر ان ہزاروں سالوں پہ بات نہیں ہوتی جن میں اس لاوٴے کی پرورش  ہوئی ہے، لاوٴے کے بننے کے وجوہات پہ بات نہیں کی جاتی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب ہم کسی واقعہ پر بات کرتے ہے تو وہ چیزیں بیان کرتے جو ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہمیں پہنچ رہے ہو، اس کے بعد جب ماتھے پہ بل ڈال کر تھوڑی جستجو کرکے حواس خمسہ سے زیادہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہے تو  اپنے جذبات پہ مبنی یاداشت سے سہارا لے کر لچھ بیان کرتے ہے اور پھر تیسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سماجی حقائق پہ معلومات اکھٹے کرکے سماجی سائنس کا حصہ سمجھ کر اس واقعے یا سانحے کو بار بار پرکھتے ہے تب ہم اسے حقیقی انداز میں بیان کر پاتے ہے۔ سماجی سائنس کا تعلق حواس خمسہ سے لیکر، سماجی ارتقاء، یاداشتیں ، حقائق، سیاسی معاشی و معاشرتی اور ماضی و حال کے واقعات سے ہوتا ہے یہ ممکن نہیں کہ ہم آج کو آج کے تناظر میں دیکھے، آج کو بیان کرنے کے لیے اس آج کو بنانے والے ماضی  کے ہر لمحے پہ عقلی بحث کے بعد ہی آج کو بیان کرنا ممکن ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ  چار دہائیوں سے  ریاستی ادارے ملکی و بین القوامی قوانین کو پاوٴے تلے روند کر لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کررہے ہیں ۔ ریاستی نیکرو پولیٹکس سے  شہر کے شہر قبرستان میں بدل چکے ہیں ،  سینکڑوں دیہات فوجی ا ٓپریشن میں   نذر آتش کیےجا چکے ہیں ، پچھلے دو  سالوں سے سی ٹی ڈی نامی ادارے کے ذریعے اب تک 102 افراد جعلی مقابلوں میں مارے  جا چکے ہیں لیکن اس دفع  ان چار افراد کی شہادت کیونکر ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے؟    ایک سماج میں ابھرتی تحریکوں  کو   مظلوم اور ظالم کی طرف سے کون سی چیزیں  افزائش دیتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے، اس واقعے کو سماجی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے ، اس واقعے سے پہلے کے “کیچ” کو ایک نظر دیکھنا ضروری ہے اور بلوچستان میں گزشتہ ایک عرصے سے جاری  عوامی رد عمل کے حامل واقعات کو دیکھنا لازمی ہے۔

بلوچستان کے ضلع کیچ میں 23 نومبر کے شب ہسپتال میں4 لاشیں لائی جاتی ہے جن میں بالاچ مولا بخش ،ودود بلوچ، شکور بلوچ اور سیف بلوچ ، شامل ہوتے ہیں۔نام نہاد  کاوٴنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے اس واقعے کے بعد اخباری بیان جاری کیا جاتا ہے کہ پسنی میں مقابلے کے دوران بی ایل اے کے چار سرمچار مارے گئے ہیں۔ ماضی کے طرح سی ٹی ڈی کا یہ بیان بھی  حقائق کا متضاد ہوتا ہے اور عام عوام اس بیان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ ان چاروں افراد(مقتولین) کے خاندان جن میں اگر کم و بیش اگر 50-50افراد ہو تو قریب دو سو افراد کے لے یہ سراسر ایک جھوٹ ہوتا ہے کیونکہ ان چاروں افراد کوان کے گھر والوں کے سامنے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا۔ ایک طرف گولیوں سے چھلنی لاشیں دوسری جانب جھوٹا اور من گھڑت بیانیہ ، لوگوں کے اندر غم و غصے کا طوفان امڈ رہا ہوتا ہے۔ سی ٹی ڈی  کی طرف سے کی گئی ہر جعلی مقابلے کے بعد یہی کیفیت ہر خاندان کی ہوتی ہے مگر ایک چیز جو اس طوفان کو برپا ہونے سے  روک رہی ہوتی ہے وہ لایقینی ہوتی ہے کہ آواز اُٹھانے سے کیا فائدہ، اپنا بدلہ  خدا پہ چھوڑ دیتے ہے یا کسی دن خود لےلیں گے۔ ایک خوف یہ بھی ہوتا ہے کہ اس شہید کے لیے تو انصاف نہیں  ملے گا مگر جو باقی رشتہ دار عقوبت خانوں میں بند ہے کئی انہیں بھی نقصان نا پہنچایا جائے۔ اس طرح  کے لایقینی اور خوف کے باوجود ، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں  102 فیک انکاونٹرز میں سے ایک لاش جو بالاچ مولا بخش کی ہوتی ہے وہ اپنے زندگی میں نہ لڑی ہوئی ایک جنگ ،اپنے موت کے بعد لڑنے کو تیار ہوجاتی ہے اور اس کا راہ ہموار کرنے کے لیے چند اہم چیزیں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔

بالاچ مولابخش کو 28 اکتوبر کے شب اس کے گھر سے ماں ،باپ ،بہن و بھائیوں کے سامنے سے سی ٹی ڈی و خفیہ اداروں کے اہلکار لے جاتے ہے، بالاچ کے خاندان کے لیے بالاچ ایک جبری گمشدگی کا کیس بن جاتا ہے جس کے لیے وہ روایاتی طریقہ کار یعنی میر و معتبران کے دروازوں کے دھکے کھانے شروع ہوجاتے ہے، منتیں و دعاوٴں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور انتظار کیا جاتا ہے کہ قسمت ان پہ مہربان ہو اور واقعی قسمت مہربان ہوجاتی ہے۔ 20 دن تک جبری گمشدگی کے بعد بالاچ کو سی ٹی ڈی کے ذریعے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ۔یہاں بالاچ کے گھر پہ بیس دنوں سے جاری ماتم تھم جاتا ہے، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہے، کیس لڑنے کے لیے وکیل سے رجوع کیا جاتا ہے،  ضمانت کے کاغذات تیار کیے جاتے ہے اور ریمانڈ کے دس دن پورے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔  یہ بھی معمول کی بات ہے کہ عموماً بلوچستان میں سیکیورٹی کے نام پر 10-50 سال کے درمیان تمام مرد اپنے زندگی میں کم و بیش ایک دفعہ لازماً جبری گمشدگی کا شکار ہوتے ہے۔ پھر قسمت کا اکڑ بکڑ بمبے بو سٹارٹ ہوجاتا ہے۔ کوئی سالوں بعد ویرانے میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو کوئی اجتماعی قبر سے ملتا ہے تو کوئی مسخ شدہ لاش کی شکل میں  اور اس کے بعد ایک اور   طریقہ سامنے لایا گیا کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد   سی ٹی ڈی کے ذریعے عدالت میں بارودی مواد، چرس، موٹر سائیکل چوری کے الزامات کے ساتھ پیش کیے جانے لگے۔ ان واقعات میں مشہور واقعہ حفیظ بلوچ کا ہے جو قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم ہے جنہیں خضدار کے ایک نجی اکیڈمی سے درجنوں طلبا کے سامنے سے لاپتہ کیا گیا ، اس کے بعد حفیظ کے دوست اور یونیورسٹی فیلوز نے اسلام آباد میں ایک طویل احتجاج کیا  جس کے بعد اس کی گرفتاری جھل مگسی سےظاہر کی گئی اور بارودی مواد برآمد ہونے کا الزام عائد کیا گیا ۔ اس کے علاوہ نئے طریقوں میں سی ٹی ڈی کی جانب سے فیک انکاونٹر کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ یہ افراد پہلے سے تحویل میں نہیں تھے بلکہ مقابلے میں مارے گئے ہیں اور اس سے بھی بھیانک یہ ہے کہ جبری گمشدہ افراد کو گاڑی میں ڈال کر ہاتھ پیر باندھ کر بارود سے اُڑانا اور یہ بیان جاری کرنا کہ یہ سرکاری حمایت یافتہ افراد تھے جنہیں سرمچاروں نے نشانہ بنایا ہے۔

بالاچ و اس کے ساتھ دیگر تین افراد کے  فیک انکاونٹر سے چند روز پہلے ایک قیامت خیز واقعہ پیش آتا ہے۔ تین جبری گمشدہ افراد جن میں عادل بلوچ، شاہجہاں بلوچ، اور نبی داد بلوچ  شامل ہوتے ہے جنہیں 22 اگست کو کیچ   کے علاقے بالگتر سے جبری گمشدہ کیا جاتا ہے  اور 88دن جبری گمشدہ رکھنے کے بعدہاتھ پیر باندھ کر ایک گاڑی میں بٹھایا جاتا ہے اور پھر اس گاڑی کو بارود سے اُڑایا جاتا ہے جہاں اگلے دن ان کے اعضاء کو سمیٹنے کی تصویروں کے ساتھ یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ “سرکاری حمایت یافتہ گروہ کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرائی جس تین افراد جان بحق ہوئے”۔ یہ تینوں افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہے، ان کے خاندان کے لیے اپنے پیاروں کے انتظار کا پھل بارود سے جھلسے نا مکمل انسانی اعضاء اورایک گھناوٴنا جھوٹ نا قابل قبول تھا اور ساتھ میں جس گاڑی میں یہ حادثہ پیش آیا تھا وہ گاڑی بھی کسی راہگیر سے چھینی ہوئی گاڑی تھی جس کا ضلعی انتظامیہ ایف آئی آر تک درج کرنے سے قاصر تھا، یہ جھوٹ اپنے واقع ہونے سے پہلے عیاں تھا۔ یہ سانحہ سب کے لیے قیامت خیز تھا، ہر بلوچ کے لیے، چاہے وہ کیچ میں بیٹھا ہو یا کوہلو میں، کوئی اپنے پیاروں کو اس حالت میں واپس نہیں چاہے گا۔ میرے خیال میں اس واقع کا اس تحریک کے ابھار میں اہم کردار ہے، ہم یہ کہیں کہ سالوں سے جلتے انگاروں کو یہ سانحہ راکھ کی تہہ سے نکال کر اوپر لے آیا اور پھر بالاچ کے شہادت نے ان انگاروں کو زندہ کیا اور پھر شعلے بھڑک اٹھے۔

اس سانحے نے جن جلتے انگاروں کےراکھ کوتہہ سے ابھارا ،  ان انگاروں کے موجودگی کے اسباب کیا تھے؟ یہ انگارے از خود کس کی پیداوار ہے؟ وہ کون سے اسباب ہے جو سی ٹی ڈی کے فیک انکاونٹرز کے رد عمل میں پورے بلوچستان کو جھنجھوڑ چکے ہے؟ بلوچستان میں جاری اس تحریک کی مقاصد ، عوامی پزیرائی ، مظبوطی اور وسعت اسی جواب کے ساتھ جڑی ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جو لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف سڑکوں پہ اس تعداد میں لے آئی؟ ان اسباب کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان کے گزشتہ عشرے سے جاری کشت و خون و لاقانونیت اور خوف سے برپا خاموشی کا  جائزہ لینا لازم ہے۔

سال 2009 کے بعد بلوچستان سے سیاسی کارکنان کو جبری گمشدہ کرنے و مسخ لاشوں کے شدہ لاشوں کے امبار لگانے میں شدت لائی گئی، سر ےعام ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم رہا ،یہ وہی دور تھا  جس میں ایک پوری نسل تباہ کی گئی ،اتنا قہر برپا کیا گیا کہ لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں بچا، جنہوں نے لاشیں دفنائیں وہ بھی مارے گئے، جنہوں نے خبریں چھاپی وہ بھی مارے گئے، جنہوں نے لاپتہ افراد کے لیے بات کی وہ بھی مارے گئے تب لوگوں کے لیے دو راہ رہ گئے۔ ایک وہ جو بیرون ملک پناہ لینے پرمجبور ہوئے اور دوسرے وہ جنہوں نے  مادر وطن کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنالیا اور ریاست کو  تشدد کا جواب تشدد سے دینے کافیصلہ کر گئے۔ 2013 کے بعد بلوچستان  کے شہروں میں آزادی کا نعرہ نہیں لگا ، شہروں میں وہ نسل رہ گئی جنہوں نے ماتم کیا، سوئی، سیندک و ریکوڈک کا سودا لگتے دیکھا، سی پیک کے نام پے جاری استحصالی پروجیکٹ کو بنتے دیکھا، بھوک و افلاس میں مرتے رہے، خونی شاہراوں پہ لاشیں ڈھونٹتے رہے، کینسر کے مریضوں کے لیے چندہ اکھٹا کرتے رہے غرض کہ پر امن رہنے کہ لیے ایک شرط ٹھری کہ غیر سیاسی رہا جائے اوراس غیر سیاسی خلا میں ظلم و لاقانونیت کے وہ فضا قائم ہوئی جس کے خلاف آج کی یہ تحریک کچھ بھی نہیں۔ بلوچ سماج کے وہ افراد جن کا اپنے نفس پہ کوئی اختیار نہیں، جن کے اندراخلاقی اقدار نامی کوئی شے موجود نہیں جو انہیں کسی بُرے کام سے روک رکھیں دیگر ممالک میں ایسے افراد کو نفسیاتی مریض قرار دیا جاتا ہے مگر بلوچستان میں ایسے افراد کو ریاست کی جانب سے اسلحہ، گاڑیاں اور وسائل دی گئی، ایسے افراد کو بلوچ سماج نے ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے جانا ۔ یہ لوگ اس نام سے بھی بد تر جرائم کا ریکارڈ قائم کرتے جارہے ہیں، سر عام کسی کو بھی اغوا کرنا، کسی کو بھی قتل کرنا، اغوا شدہ افراد پر ایزا رسائی کے لیے ڈرل مشین کا استعمال کرنا اور اپنے کارناموں کے ویڈیوں میڈیا میں شائع کرنا لیکن ان کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آسکتی کیونکہ قانون  خود انہی کے سہارے چلتا ہے۔ ڈیتھ اسکواڈ نے محب وطنی کے نام سبز حلالی پرچم کے تلے جو جرم کرنا چاہا کرتے چلے گئےاور آخری حد تک کوشش کرتے رہے کہ کوئی اس ظلم کے خلاف کچھ نا بولے۔ پارلیمانی سیاست کا یہ حال رہا جو فوج فیصلے کرتی گئی اس کے ہاں میں ہاں ملاتے گئے۔ جبری گمشدگیوں کے تسلسل میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں ہوا، تعلیم و روزگار کی چاہ میں دربدر بلوچ جب بھی عید کو گھر آئے تو جبری گمشدہ ہوئے، گویا عیدیں فوج کشی کے لیے خاص ایام ٹھرے۔ شہری آبادیوں پہ فوجی آپریشن ہوئے، جنگی قوانین کو روندا گیا اور جب بھی اس امر کے خلاف سیاسی آواز بلند ہوئے تو اسے دہشتگردی کی پشت پناہی کہہ کر روندا گیا۔ استاتذہ ، وکلا، ڈاکٹر غرض ہر ذی شعور بلوچ کو  مارا گیا یا اتنا مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیں۔ اس گہما گہمی میں یہ بیانیہ سامنے لایا گیا کہ بلوچ ترقی کے خواہ نہیں بلوچ تشدد پسند ہے، پر امن بلوچستان کے نام پر مصنوعی میلے سجائے گئے جن پرصوبے کے وسائل لٹائے گئے۔ این جی او، سیاسی جماعتیں، میڈیا، ہر چیز مصنوعی بنائی گئے، راتوں رات پارٹیاں بنتی، سیٹوں کی بولیاں لگتی اور مصنوعی پارلیمنٹ سجائے جاتے۔ عدلیہ اپنے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی فرق نا چھوڑ کر ایک عمارت سے زیادہ کوئی کردار ادا نا کرسکا، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، ڈویژنل  ایڈمنسٹریشن سوائے آلو کے ریڑیاں الٹنے و تصاویر کشی کے ہر جگہ بے بس نظر آئے ۔ بلوچوں کو ایک ایف آئی آر تک کا حق نہیں ملا کہ وہ اپنے گمشدہ نوجوانوں کے نام پہ کٹوائے یا اپنے قاتلوں کے خلاف درج کرائے۔ سالوں سے روزگار سے منسلک بارڈر بند کیا گیا، فرنٹیر کور (ایف سی) کی تعیناتی، ٹوکن کے چکر اور بھتہ دینے تک ایک بلوچ ڈرائیور کی کمر پہ دنیا جہاں کا بوجھ بیٹھ گیا۔ ایف سی جو بدنام زمانہ بے لگام فورس ہے وہ ہر شہر و گاوٴں میں آپریشن کے نام پر گھر کے تقدس کو پامال کرتے رہے، سرےعام آبادیوں کو نشانہ بناتے گئے، گھروں کو جلانا، چوکیوں پہ عام شہریوں کو تذلیل کا نشانہ بنانا اور دن دھاڑے لوگوں کو غائب کرنا جیسے کام معمول کا حصہ تھےاور جب بارڈر پہ تعینات ہوئے تو بھتہ نہ ملنے پر گاڑیوں کے انجنوں میں ریت ڈال کر ڈرائیوروں کو ریگستان میں دم توڑنے تک چھوڑ گئے۔چاغی اور پروم کو میدان کربلا بنایا،اپنے ہی سر زمین پہ بلوچ اپنے زندگی کے تلخ حقائق کے ساتھ گھٹن کی فضا میں  رہ رہا تھا۔ پچھلے دو عشروں میں ہم نے اس سیاسی گھٹن کو توڑنے کے لیے چھوٹی بڑی تحریکیں دیکھی، جن میں چاغی کے حمید بلوچ کے ایف سی کے ہاتھوں قتل کے خلاف زمیاد ڈرائیوروں کا احتجاج، شہید حیات کےایف سی کے  ہاتھوں قتل کے خلاف تحریک ، برمش کی والدہ ملک ناز کا ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں قتل ، بانک کریمہ کی بیرون ملک مبینہ قتل کے خلاف تحریک اور جبری گمشدگیوں کے لیے مسلسل چھوٹے بڑے سیاسی تحاریک کا اٹھتے رہنا نمایاں ہیں۔

یہ تمام تحاریک ریاست کو محض اس بات پہ قائل کر سکے کہ وہ اپنے جبر میں مزید کس طرح کی شدت لاکر ان کا خاتمہ کر سکے۔ ریاستی پالسیاں کبھی بھی اس نقظے سے پیچھے نہیں ہٹے کہ بلوچ نسل کشی بند ہونی چاہیے، بلوچوں کو بندق کے زور پہ کچلنا بند کیا جائے، سیاسی آواز کے خلاف کریک ڈاوٴن ترک کی جائے۔اس پورے عرصے میں ایک لمحے کے لیے بھی ریاستی پالیسی میکرز کو یہ سوچنا نہیں پڑھا کیونکہ انہیں یہ باور کرایا جاچکا ہے کہ بندوق کے زور پہ کسی قوم کو خاموش کرسکتےہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بندوق کے زور پہ ایک قوم تو کیا ایک شہر کو خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بلوچ قوم اپنے سرزمین پہ اس تیسری دنیا کے اندر ایک تیسری دنیا کی حیثیت سے موجود رہا۔ یہ احساس، یہ سیاسی خلا، یہ جبر، خود ایک سیاسی اسکول کا کردار ادا کرتے رہے۔ وسیع و عریض سر زمین پہ موجود بلوچ کو ایک دوسرے سے روابط کے لیے موجودہ دور کی کوئی ٹیکنالوجی میسر نہ رہی، نہ کوئی یکساں نصاب، نہ یکساں سیاسی نظام، نہ کوئی ماس میڈیا، مصنوعی لکیریں ، دیگر ثقافتوں کا مسلط ہونا اور اس سے بڑھ کر مذہب ، فرقے، زبان، قبائل و طبقوں سمیت ہر طرح سے قوم کو تقسیم کرنی کی کوشش کی گئی مگر ایک چیز جو ایک بلوچ کو دوسرے بلوچ سے جوڑتا گیا وہ جبر کی پالیساں تھی۔ مکران تا ڈی جی خان، مصنوعی قیادت، سیاسی خلا، پولیس ،ایف سی، سی ٹی ڈی یا رینجرز کے ذریعے خوف کی فضا بنانا، بلوچ و بلوچستان کا نام لینے پر غداری کے سرٹیفیکٹ دینا، پابندیاں لگانا، اور گھٹن کا ماحول بنانا۔ اسی جبر کے ماحول کے خلاف نٖفرت انگاروں کی شکل اختیار کر چکا تھا، یہ انگارے اپنے ہی راکھ میں دبے ہوئے تھے، یہ راکھ بے یقینی کی تھی کہ واقعی ہر دوسرا بلوچ اپنے دل میں انگارے رکھتا بھی ہے یا نہی،کیا واقعی اس گہما گہمی میں  ایک دوسرے کا درد بانٹنے ہم اکھٹے ہو سکیں گے؟ کیا تفاریق کے بنے گئے تمام غلافوں سے ہماری ٓواز نکل پائے گی؟ پھر ان انگاروں کو راکھ کی تہہ سے بالگتر کے ان تین نوجوانوں کے بارود سے جھلسے اور چیتھڑے بنے اعضاء نے ابھارا، اس درد نے ان انگاروں کی ترجمانی کی اور پھر بالاچ کے بے جان جسم نے  ان نفرت کے انگاروں کو وہ ہوا دی جو لایقینی کے دائروں سے نکل کر خوف کے فضاء  جلا گئے۔ شہید تابش، شہید شہزاد، شہید اعجاز، شہید ڈاکٹر مختیار اور کئی نوجوان جو سی ٹی ڈی جیسے ادارے کے ہاتھوں فیک انکاونٹر کا نشانہ بنے مگر آج تک نہ عدلیہ نہ حکومت نہ کسی انسانی حقوق کے ادارے نے نسل کشی کے لیے بنائے گئے اس قاتل ادارے کو مجرم ٹھرا سکے۔ بالاچ   کوعدالت میں پیش کرنے کے باوجود قتل کرنا نہ صرف اس کیس کو مضبوط کرچکا تھا بلکے اس  کی خاندان کے لا  زوال قربانیاں  بھی شامل تھی۔ ایک مذہبی سماج میں یہ تصور کہ مردے کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے ،یہ اس کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے اور جلد از جلد تدفین لازمی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں انصاف نا  ممکن ہے مگر  پھر بھی بالاچ کو نہیں دفناتے ہے بلکہ دنیا کو ریاستی جبر دکھانے، موت سے پہلے زندگی کے تکالیف دکھانے، قوم کےدرد کا مداوا بننے کے لیے یہ خاندان لمحہ بہ لمحہ قرب سے گزرتی ہے اوراس لاش کے ساتھ دھرنا دینے بیٹھ جاتے ہے۔ بالاچ کے ورثا کو خریدنے کے لیے چار کروڑ کی پیشکش ہوتی ہے مگر وہ یہ کہہ کر انکار کرتے ہے کہ یہ چار کروڑ کس کی قیمت ہے؟ ہماری ؟ ہم تو ویسے بھی تمہارے قبضے میں ہے  اور اگر یہ بالاچ کی لاش کی قیمت ہے تو  وہ اب ہمارا نہیں قوم کا ہے۔ قوم نے بالاچ کو اور بالاچ نے قوم کو اپنا  لیا ہے، بالاچ کے ماں کو کہاں جاتا ہے کہ تمہارے بیٹے کی لاش کو اذیت مل رہی ہے، جلدی دفنا دو۔ماں کہتی ہےکہ  موت کے بعد اذیت کی کسے پرواہ، کیا تم لوگوں نےبالاچ کے زندگی میں ملے اذیتوں کی پرواہ کی؟ 20 دن نا جانے میرے بیٹے کو کیا کیا اذیتیں دی ہوگی تم لوگوں نے ؟ وہ اس اذیت سے کم تو نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہاں بالاچ کی لاش  خراب ہورہی ہے ، بہنوں نے کہاں کہ بالاچ ہمارے لیے اب بھی پھول کی مانند ہے، بدبودار تو تم لوگ ہو جو قتل کرکے جھوٹ بولتے ہو اور اب جب  ایک لاش تم لوگوں کے خلاف  احتجاج کر رہا ہے تو تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ اپنے کرتوتوں کو کیسے چھپائے۔

اس خاندان کی جرت نے اس سانحے کے خلاف نفرت کو تحریک بننے کی ہمت دی، دیکھتے ہی دیکھتے  ریاستی جبر کے خوف کاٹکڑے ہونا لگا۔ بالاچ کی بے جان لاش غصے کی  لہروں  میں تغیانی کا باعث بنا، اس دھرنے میں بالاچ کے خاندان کی ہمت دیکھ کر لوگ  آتے گئے اور لوگوں کو آتے دیکھ کر اس  خاندان کو ہمت ملتی گئی۔ شہید فدا چوک پہ کیچ اپنے ملنساری کے ساتھ ایک دوسرے کا درد بانٹنے جمع ہوتا گیا۔بالاچ سات دن تک اپنے تابوت میں خاموشی کے ساتھ ، سسکیوں و  آہوں کے بیچ بلوچ قوم کو یکجائی کی دعوت دیتا رہا، بلاآخر سات دن بعد ہزاروں کی تعداد میں محبت بھرے سر زمین سے بالاچ کے وارث یکجاں ہوئے اور بالاچ کو کوہ مراد کے دامن میں مادر وطن کا امانت کردیا ۔ مگر بالاچ کا تابوت اس دھرنے میں آخری روز تک ساتھ دیتا رہا،  پھر باری  آئی اس فیصلے کی کہ جب درد پورے بلوچستان کا ہے تو اسے پورے بلوچستان کی ا ٓواز ملنا ضروری ہے  ،سالوں سے جس جبر نے لوگوں کو خاموش رکھا ہے، آج اسی جبر سے اس خاموشی کو توڑنا ممکن ہے۔ مدتوں سے باری باری  آواز   تو اٹھایا گیا ہے مگر ا ٓج ان ٓاوازوں کو ایک دوسرےےسے جوڑا جائے، ایسے جوڑا جائے  کہ ایک کے ختم ہونے سے پہلے دوسری شامل کی جائے اور تب  تک جوڑتے جائے جب تک ساری جبر کی کڑیاں اپنے واحد دشمن کی طرف مڑ جائے  ۔

آج کیچ سے لیکر تونسہ تک جن نعروں کی گونج کوبلوچستان کے ہر دیوار نے اپنے  اوپر سجایا ہے ،یہ بلوچ سماج کی ریشنل سیاسی آواز ہے۔وہ تمام ریاستی ادارے اس سماج میں دہشتگرد ہے جو دہشت پھیلا رہے ہیں، جو موت کا کھیل کھیل رہے ہیں، وہ تمام ادارے جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہے، وہ دہشتگرد ہیں ۔ اس لانگ مارچ کا نہ کوئی نعرہ نہ ہی کوئی کوئی ڈیمانڈ سماجی حقائق کے برعکس ہے، نہ ہی یہاں کوئی غیر آئینی مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ یہ ہماری جمہوری، آئینی و قانونی حق ہے کہ ہم اپنے نسل کشی کے خلاف آواز اُٹھائیں، مگر ریاست اب بھی اپنے مصنوعی قیادت کے مشوروں پر عمل پیراہے۔ اس ریاست کے مصنوعی قیادت یہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نہیں کتراتے کہ بالاچ دہشتگرد تھااور لانگ مارچ کے شرکاء دہشتگرد ہیں،کوئی ان جاہلوں کو یہ بتائے کہ اول تو پولیس کی تحویل میں دہشتگرد کا بھی انکاونٹر نہیں ہوسکتا، اسے سزا اس وقت تک نہیں ہوسکتی ہے جب تک  عدالت میں جرم ثابت نہ ہو۔

مکران سے جھالاوان، ساراوان اور پھر کوہ سلیمان تک خون کی روانی جیسا یہ عوامی ابھارایک بے جان سماج میں روح پھونکتا گیا ۔ جبر و فسطائیت کے خلاف بلوچ سر زمین سے اٹھی تحریک کو جس طرح سے اسلام آباد آباد میں ریاستی تشدد کا سامنا ہوا، اس کا دنیا کے سامنے عیاں ہونا ہی کامیابی ہے۔ اس پورے سیاسی منظر نامے میں سیاسی کارکنان نے ایک چیز بہت آسانی سے سیکھی کہ یہ ریاست اکثر اوقات از خود اپنے ری ایکشنری فیصلوں کے سبب بند گلی میں پھنس جاتی ہے، تربت سے اسلام آباد تک جس طرح اس مارچ کو روکنے اور ناکام بنانے کی کوشش کی گئی ، یہ تحریک اس ریاست   کی توقعات سے کئی زیادہ  شدت سے آگے بڑھتی گئی  اور جس طرح کی بیوقوفی اس ریاست نے اسلام آباد میں کی شائد اس کی کوئی مثال نہیں لیکن اس تشدد کے جواب میں جو ہمت اور بہادی مارچ میں شریک بزرگ، خواتین ، بچے و نوجوانوں نے دی وہ تاریخ کے پنوں میں درج ہوچکی ہے کہ بلوچ اسلام آباد میں کس طرح ریاستی جبر کے خلاف ڈٹے رہے اور اس وقت تک نہیں ٹوٹے جب تک ریاست خود سرینڈر کرنے میں مجبور ہوا ۔ اسلام آباد میں مارچ کے اوپر تشدد کے استعمال سے دنیا کے سامنے یہ بھی عیاں ہوا کہ ریاست کس طرح دیدہ دلیری سے بلوچوں پہ پرتشدد رویہ اپنا سکتا ہے اور سفید جھوٹ کے ذریعے اپنے کالے کارنامے حقیقت میں بدلنے کی کوشش بھی کرتا ہے، یہ سیاسی کامیابی اس پورے تحریک کو مقبول کر چکا ہے۔ البتہ یہ امید کہ ریاست مزید جبر کرنا چھوڑ دیگا فضول ہے، یہ ریاست جبر کرتا رہے گا جب تک عوامی طاقت مستحکم طور پر ابھر کر آگے نہیں آتی اور ریاست کے سامنے ڈھال نہیں بن جاتی۔ ہمیں اس بات پر قائل ہونا چاہیے کہ عوام کو توڑنے کے لیے ریاست کے پاس جبر اولین اور آخری آپشن ہے لیکن عوام کے پاس عوامی قوت ، طاقت، حوصلہ، حمایت اور مزاحمتی جذبہ ہے۔ جس قدر عوامی سیاسی طور پر مستحکم ہوگی، جس طرح اجتماعی جدوجہد کو پزیرائی ملے گی اس قدر وہ ریاستی جبر کا خاتمہ کرسکتے ہے۔ اب کے بار اگر بلوچ چاہتے ہے کہ وہ جبر سے محفوظ رہے تو تنظیم کے ساتھ سیاسی جڑت کے بنیاد پر آگے بڑے ۔ بلوچ سماج میں پارلیمانی گروہوں نے سیاست کو جس طرح بیان کیا ہے وہ حقیقت میں غیر سیاسی رویوں کا مجموعہ ہے، سیاست سماج کے حقائق پہ مشتمل ہوتا ہے اور پارلیمانی سیاست اس حقیقت کے بر خلاف پارلیمنٹ پہ  یقین کر رہے ہے کہ یہاں پارلیمنٹ خود غیر جمہوری ہے۔اب تمام تر سماجی حقائق  واضح ہے کہ پارلیمانی سیاست ماسوائے عوام کو گمراہ کرنے اور سیاست سے بد زن کرنے کے علاوہ کسی کام کا نہیں ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ عوام غیر پارلیمانی  مزاحمتی گروہ میں ابھر کر سامنے آئے اور بلوچ نسل کشی کرنے والے تمام قوتوں کے سامنے ڈٹ جائے،   جب عوامی قوتیں یکجاں ہونگی تب قبضہ گیر کے  فسطائیت کو پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ جگہ نہیں ملے گی۔

یہ لانگ مارچ اس سماج کے سیاسی ابھار کی آواز ہے، یہ اس قدر پُر امن ہے کہ مکران سے لیکر تونسہ تک ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، اس تحریک کے نعرے اتنے پُر امن ہے کہ کسی کو بندوق اٹھانے پہ نہیں ورغلا رہے بلکہ ریاست کو خود اپنے قاتل اداروں کو لگام دینے کے لیے کہہ رہے۔ اس تحریک کی عوامی پزیرائی، گلی گلی شہر شہر میں گونجنا اور ہر بلوچ کی اُمید بننا اگر کسی کو خوفزدہ کرے تو وہ وہی ہو جو بلوچ نسل کشی میں شامل ہے۔ باقی سارے بلوچ و غیر بلوچ اقوام اس تحریک کوہر حد تک اپنائے اور سپورٹ کرے اور اس تذبذب میں نہ رہے کہ نعرے سخت ہے، تنظیم پہ پابندی لگ جائے گی، یہ وہی خوف ہے جو ریاست ہمارے ذہنوں میں بٹھا چکُا ہے، یہ نعرے سماجی حقائق پہ مبنی ہے ، ہم اپنے حق میں کھڑے ہونے کے لیے دیگر اقوام سے گزارش نہیں کرتے بلکہ ہم دیگر اقوام کو کہتے کہ وہ بھی ہر آئین شکن کو للکارے، قاتل اداروں کا نہ حصہ بنے اور نہ ہی انہیں اخلاقی سپورٹ کریں۔یہ تحریک عوامی ہے، جمہوری ہے، جھکنے یا بلکنے والا نہیں، اس تحریک کو کچلنا نا ممکن ہے کیونکہ یہ تحریک مکران سے لیکر کوہ سلیمان تک مخصوص قیادت کا مہتاج نہیں رہا، ایک اعلان پہ لوگ ہر علاقے میں شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ ریاست کا طریقہ کار یہی رہا ہے کہ لیڈر کو کچل کر تحاریک کو کچل دیا جائے مگر اب یہ ممکن نہیں، یہ تحریک اسی طرح روان رہے گا، مستقبل کا لائحہ عمل اسی پہ قائم ہے کہ ریاست نسل کشی کے پالیسیوں کو ترک کرتا ہے یا ایک دفع پھر قہر برسانے لوٹ آتا ہے ۔تنگ آمد جنگ آمد کا فلسفہ ہر قوم کے لیے زندہ فلسفہ ہے، تنگ کرنا جس شدت سے جاری رہے گا، جنگ اسی شدت سے صفحے پلٹتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔