بلوچ مسلح گروہ قدیمیت سے جدیدیت تک ۔ سلیمان بلوچ

655

بلوچ مسلح گروہ قدیمیت سے جدیدیت تک

تحریر: سلیمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سن 1948 میں پاکستان نے بزور طاقت بلوچستان پر قبضہ کیا اس دن سے بلوچ سرزمین پر وقتاً فوقتاً مسلح جںگ کا آغاز ہوا جس میں سر فہرست بابو نوروز خان کا نام آتا ہے۔ جس نے اپنی ساتھیوں سمیت پاکستانی سامراجیت کے خلاف پہاڑوں کا رخ کیا۔ بابو نوروز خان کے مسلح جدو جہد کا بالآخر سورج غروب ہوا جب پاکستانی جنرل نے نوروز خان کو قرآن کا سوگند دے کر پہاڑوں سے اتارا اور دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے جیل میں بند کر دیا۔

نوروز خان کے بیٹے کو ساتھیوں سمیت پھانسی دی گئ 1965 کو نواب نوروز خان کوہلو کےجیل میں فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔اس طرح دنیا کی نظروں میں بلوچ مسلح گروہ کا ایک تاریخ ختم ہو گیا۔ اس دن کے بعد بلوچ باغیوں کی طرف سے باقاعدہ مسلح جنگ کا اعلان ہوتا ہے اور بلوچ باغی چھوٹی اور بڑی گروپ میں پاکستان سامراجیت کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔

جب 1973 میں ذولفقار علی بھٹو بلوچ باغیوں کو زیر زمین کرنے کیلئے بلوچستان پر بمباری شروع کر دیتا ہے تو بلوچ باغیوں کو جنگ جاری کرنے کا ایک اور وجہ ملتا ہے۔اسی وجہ کو برقرار رکھنے کیلئے 1974 میں ایک بار پھر پاکستان سامراجیت کے خلاف تین نوجوان مسلح جنگ کی تیاری کررہے تھے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تینوں ساتھی کرہ اندازی میں اپنا نام ڈالتے ہیں اور جو نام آتا ہے اس کا نام عبدالمجید کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس طرح بلوچ باغیوں کا یہ دوسرا لہر اور خطرناک حملہ سامنے آتا ہے۔ جب 1974 کو پاکستان وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو پر کوئٹہ میں عبدالمجید ہینڈ گرینیڈ سے فدائی حملہ کرتا ہے اس حملے میں ذوالفقار علی بھٹو تو بچ جاتا ہے لیکن بلوچ باغیوں کو جنگ تیز کرنے کے لیے یہ حملہ ایندھن کا کام کرتا ہے۔اس دور میں پاکستان پر کوئی قوی خطرناک حملہ تو نہیں ہوتا ہے لیکن یہ مسلح حملے پاکستان کیلئے درد سر بن جاتے ہیں۔

بلوچستان میں ہمیشہ سے ہی سیاسی فقدان اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے بیشتر اوقات دشمن بازی لے جاتا ہے جس کی مثال بلوچستان میں آزادی کی خاطر آواز لگانے والے سیاسی اور قبائلی لوگوں کے خلاف پاکستان کا کریک ڈاؤن کرنا۔ اور کچھ مراعات پسند لیڈروں اور قبائلی لوگوں کی وجہ سے بلوچ مقصد حصول کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہوا ہے اس سارے پروپیگنڈوں کے باوجود بلوچستان میں مسلح جنگ کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جس کی واضح مثال اس دور میں جنرل شیر محمد مری(شیروف مری)ہیں۔ جس نے بلوچ گوریلوں کی قیادت کرکے اس جنگ کو مزید کچھ وقت جاری رکھا۔

جنرل شیر محمد مری 1935 میں کوہلو میں پیدا ہوئے۔ وہ مری قبیلے کے سربراہ کے طور پر جانے جاتے ہیں جو 1960 سے 1990 تک بلوچ باغیوں کے سیاسی اور جنگی تربیت کے استاد مانے جاتے ہیں۔

جنرل شیر محمد مری نے 1980 میں بی بی سی کو بلوچ گوریلا جنگ اور پاکستان کے قبضے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ،، بلوچ آج بھی کہتا ہے کہ میرے حقوق دو اگر نہیں تو تاریخ اپنی راہ بنائے گی یہ بلوچ نے کہہ دیا کہ اب ہم مزید غلامی کی زندگی نہیں گزاریں گے، مجھے اس بات کی خوشی ہیکہ کہ بلوچوں نے مانا کہ ہم غلام ہیں اور ہم مزید غلامی کی زندگی نہیں گزاریں گے اور جس قوم نے مانا کہ میں غلام ہوں تو اس کو کوئی بھی طاقت غلام نہیں رکھ سکتا،، اور اسنے مزید کہا،، میں وہ پہلا شخص تھا جو پہاڈوں پر گیا گوریلا بننے کیلئے،،میں 9 برس پہاڑوں میں رہا گوریلا کمانڈر کی حیثیت سے۔ جنرل شیر محمد مری کی بی بی سی کو دی ہوئی انٹرویو سوشل میڈیا میں موجود ہے جس میں وہ صاف صاف پاکستانی مظالم کے بارے میں بتا رہا ہے۔

1996 میں بلوچ باغیوں کی طرف سے ایک اور مسلح گروہ تیار کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی۔ اس بات کی کوئی تحریری شواہد موجود نہیں لیکن بلوچ باغیوں کی جانب سے ہمیشہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلوچ باغیوں کی قوت کو اکھٹا کرنےاور ان لوگوں کو مکمل آرمی کی شکل میں لانے کیلئے نواب خیربخش مری، بالاچ مری، جنرل اسلم بلوچ اور دیگر 9 گمنام ساتھیوں نے کلیدی کردار ادا کیا جن کی وجہ سے بلوچ لبریشن آرمی کا وجود ہوا۔

اگلے 4 سالوں میں بلوچستان میں مسلح جد و جہد چلتی رہی لیکن بلوچ لبریشن آرمی کا نام تب سامنے آیاجب سن 2000 میں مسلسل فوجی گاڑیوں اور سرکاری دفاتر پر دھماکے ہونا شروع ہوئے۔ جس کی زمہ داری باقاعدہ بلوچ لبریشن آرمی قبول کرتی رہی۔اس کے بعد بلوچ باغیوں کو ایک مکمل فوجی تنظیم کے طور پر مسلح جنگ کرنے کا موقع ملا۔

سن 2000 سے 2007 تک بی ایل اے کا کمانڈ بالاچ مری کے پاس تھا ۔ جب پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کے قریب بمباری میں بالاچ مری شہید ہو گئے تو بی ایل اے کا کمانڈ حیربیارمری سنبھالنے لگا جو بالاچ مری کے بھائی ہیں۔ اس وقت بی ایل اے کی کارروائیاں بیشتر مری ، بگٹی علاقوں میں تھیں اور ان کا بنیادی ڈھانچہ مری قبائل سے تھا۔ سن 2004 میں بلوچ لبریشن فرنٹ کے نام سے ایک اور تنظیم کا قیام ہوا جس کی بنیاد 1965 میں جمعہ خان نے رکھا تھا۔ 2004 سے پہلے بلوچ لبریشن فرنٹ بھی زیر زمین گمنامی میں کام کرتا رہا بی ایل ایف کی کارروائیاں تب سامنے آنا شروع ہوئی جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے بانی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے پہاڈوں کا رخ کیا۔ بی ایل ایف کی بیشتر کارروائیاں آواران مشکے اور مکران میں ہوتے رہےاور بی ایل ایف کی بنیادی ساخت بھی مکران سے ملتے ہیں۔موجودہ دور میں بی ایل ایف بلوچستان کا ایک واسع اور خطرناک تنظیم ہےجسکی کارروائیوں کی وجہ سے اکثر دشمن کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کو مسلح جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا اس دن کے بعد پورا بلوچستان آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد دیگر چھوٹی تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہوئی مثلاً بلوچ ریپبلیکن آرمی ، لشکر بلوچستان ، یونائیٹڈ بلوچ آرمی ، بلوچ ریپبلیکن گارڈ جیسی تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہوئی۔ اس وقت ان تنظیموں کی قیادت اکثر قبائلی لوگ کر رہے تھے اور ان تنظیموں میں گنے چنے قبائلی لوگ شامل تھے۔ رفتہ رفتہ جب بلوچستان میں مسلح جنگ تیز ہونے لگا تو ریاست کو بلوچستان میں استحصال کرنے کیلئے زمین کم پڑگئی۔ اور پاکستان کا بلوچستان پر قبضہ کم ہوتا گیا کیونکہ ان تنظیموں کو افرادی اور وسائلی قوت ملنا شروع ہوا تھا۔
2010 سے 2015 تک مکران آواران مشکے میں بی ایل ایف کا کنٹرول تھا ڈیرہ بگٹی میں بی ار اے کا کنٹرول ، بولان، کوہلو مری علاقے اور کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں میں مکمل بی ایل اے کا کنٹرول تھا۔ اس طرح بلوچ باغیوں کے چھوٹے اور بڑے تنظیموں نے پورے بلوچستان کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا۔

لیکن سیاسی اور جنگی فقدان کی وجہ سے ان تنظیموں کے ہاتھوں سے دن بدن کنٹرول کمزور ہوتا گیا پاکستانی سامراجیت نے بلوچ باغیوں کو آپسی رنجشوں میں ڈال کر گمراہ کر دیا اور تنظیموں نے افرادی قوت اور لیڈر شپ کی لالچ میں آکر تنظیم میں انتشار پھیلا کر ریاست کا کام مزید آسان کر دیا جسکی مثال 2014 سے 2017 میں تنظیموں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا تنظیمی وسائل پر قبضہ اور قیادت کی لالچ کی وجہ سے بہترین گوریلا کمانڈروں کو تنظیم سے فارغ کرنا یا قتل کروانا جیسی سنگین جرائم شامل ہیں۔ان سب کی وجہ سے بلوچ مسلح گروہوں نے اپنی ساخت ختم کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے بلوچ مسلح گروہوں سے علاقوں کا کنٹرول ختم ہوتا گیا۔

بقول جنرل شیر محمد مری (شیروف مری)کے،، تاریخ اپنی راہ بنائے گی،،اور پھر تاریخ نے اپنی راہ بنا لی۔

2012 میں جنرل اسلم بلوچ نے فدائین کا خواب دیکھا تو اس دن سے بلوچستان کا قسمت بولان کی پہاڑوں کی طرح بلندو بالا ہوگیا۔اس وقت 70 کی دہائی کے بعد بازخان مری عرف درویش پہلا فدائی حملہ کرنے کیلئے تیار ہوگیا۔اگست 2012 میں بازخان مری نے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل اور اسکے گھر میں موجود ڈیتھ اسکواڈ کے جھتے پر فدائی حملہ کیا۔ اس فدائی حملے کو بی ایل اے آفیشل پیج پر قبول کرنے کے بجائے اس کی تنقید کی گئی اور جنرل اسلم بلوچ کو بے بنیاد الزام لگا کر تنظیم کی کمانڈر و رکنیت سے فارغ کر کے تنظیم کی ساخت کو مزید کمزور کر دیا۔حالانکہ اس فدائی حملے کے بعد دیگر ساتھی بھی فدائی حملے کیلئے تیار ہو گئے لیکن تنظیم کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ حملے نہیں ہو پائے اور فدائین سنگت بی ایل اے کے دوسرے فوجی محاز میں شہید ہو گئے۔

پاکستان کی طرف سے بڑھتی ہوئی فوجی آپریشنز ، سیاسی پناہ کی خاطر میدان چھوڑنا ، سرینڈر کرنا ، اور مایوسی کی وجہ سے بہت سے لوگ جنگ سے کنارہ کش ہو گئے اور بلوچستان میں ایک بار پھر مسلح جنگ کمزور ہو گیا۔

جنرل اسلم بلوچ نے بی ایل اے کی سابقہ رکنیت کو خیرباد کرکے ازسر نو بی ایل اے کا بنیاد رکھاجو سیاسی تنظیم کے باغی رہنماؤں اور بلوچ گوریلا جنگ کے جدید سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ جنرل اسلم بلوچ نے سابقہ کمانڈروں کو جو کہ تنظیم کی بنیادی پالیسی سے مایوس تھے ان کو اکھٹا کیا اور 16 سالہ جنگ کی بنیادی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر پرانی غلطیوں کو سنوارنے کیلئے جنگ کو مزید تیز کرنے کیلئے براس کا اتحاد رکھاجس میں زیادہ تر کمانڈروں کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہوئی۔اس کے بعد بی ایل اے کے دوسرے دھڑے کا قیام ہوا جس کی کمانڈ جنرل اسلم بلوچ نے سنبھالا ، بی آر اے کا دوسرا دھڑا براس اتحاد میں شامل ہوا جس کا کمانڈ گلزار امام شمبےکو سونپا گیا، یو بی اے کے دوسرے دھڑے کا زمہ دار سرفراز بنگلزئی کو دیا گیا جو براس کےاتحاد میں شامل ہوا۔ بعد از یو بی اے اور بی آر اے کا انظمام ہوکر بی این اے کا قیام ہوا۔ موجودہ بی این اے کے دونوں اہم کمانڈر گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی ریاست کے سامنے سرینڈر ہوگئے۔ بی این اے کے 50 سے اوپر کمانڈر اور سپاہی شہید ہو گئے اور اب بی این اے کے ساخت کو خطرات لاحق ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بلوچ باغیوں میں کونسی تنظیم زیادہ بھروسے کی لائق ہے۔اگر موجودہ سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو اس وقت بلوچستان میں سرگرم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بشیر زیب گروپ) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (اللہ نظر گروپ) بلوچستان میں جاری جنگ کے مین لیڈ ہیں۔ان دونوں تنظیموں کے علاوہ باقی تنظیم بھی سرگرم ہیں لیکن ریاست جب چاہے باقی تنظیموں کو کچل سکتا ہے کیونکہ باقی تنظیموں کا حملے دائرہ بہت کم ہے جو آسانی کے ساتھ ٹریس ہو سکتے ہیں۔

بی ایل اے اور بی ایل ایف دونوں تنظیموں کی اندرونی اور بیرونی ساخت بہت مضبوط ہے جو کئی گوریلا ٹیکٹس اور سخت پالیسی کی وجہ پاکستان سامراج کیلئے بڑی چیلنج کے مترادف ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی کی بنیاد سن 2000 میں رکھی گئی اس وقت جنرل اسلم بلوچ ایک کمانڈر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔سن 2012 میں جب جنرل اسلم بلوچ نے فدائی کا فلسفہ اجاگر کیا تو لوگوں نے بین الاقوامی پالیسی کو ڈھال بناکر جنرل اسلم بلوچ کو تنقید کا نشانا بنایا ۔ جب جنرل اسلم بلوچ نے بی ایل اے کو ازسرنو شروع کیا تو سب سے پہلے تنظیم کے ایلیٹ یونٹ مجید بریگیڈ کا بنیاد رکھا جو کوئٹہ میں فوجی آپریشن میں شہید ہونے والے فدائی مجید ثانی کے نام سے منسوب تھا۔مجید ثانی بھی جنرل اسلم بلوچ کی قیادت میں فدائی حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔

11 اگست 2018 کو فدائی حملے کا آغاز ہوتا ہے۔ دالبندین میں چائینیز کنوائی پر فدائی حملہ ریحان بلوچ کرتا ہے جو کہ جنرل اسلم بلوچ کا فرزند ہے۔اس حملے کے بعد بی ایل اے کے آفیشل پیج پر ریحان بلوچ کا پیغام شائع ہوجاتا ہےاور تنظیم اس حملے کی زمہ داری جو مجید بریگیڈ یونٹ کی جانب کی گئی ہے قبول کرتی ہے ۔تین ماہ بعد کراچی چائنیز قونصلیٹ پر دوسرا فدائی حملہ ہوتا ہے۔اس طرح بلوچ مسلح جنگ ایک جدید دور میں داخل ہو جاتا ہےجس کی بنیادی اینٹیں فدائی حملوں سے رکھی جاتی ہیں۔ایک ماہ بعد کندھار میں خودکش دھماکے میں جنرل اسلم بلوچ اپنے دیگر 5 ساتھیوں سمیت شہید ہو جاتا ہے اور بغیر کسی افراتفری کے بی ایل اے کی سربراہ بشیر زیب بلوچ کو منتخب کیا جاتا ہے۔ بشیر زیب بلوچ بی ایس او (آزاد) کے چئیرمن بھی رہ چکا ہے۔اور سیاسی جدوجہد کے بعد 2008 میں مسلح جنگ کیلئے پہاڈوں کا رخ کرتا ہے۔ ایک سیاسی اور گوریلا زانتکار کی حیثیت سے بشیرزیب بلوچ کو بی ایل اے کا کمانڈ دیا جاتا ہےجو مسلح جنگجو کے علاوہ ایک دور اندیش شخصیت کے مالک ہیں۔ جنرل اسلم بلوچ نے نہ صرف بلوچ باغیوں کو جدید دور میں داخل کیا بلکہ استاد نے اپنی تجربات سے کئی ایسے لیڈروں کو پیدا کیا جو مسلح جنگ کو مزید آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بشیرزیب بلوچ کی قیادت میں بی ایل اے مزید جدید دور میں داخل ہوا جس میں مکمل تنظیم کاری ، لوجسٹک یونٹ ، انٹیلیجنس یونٹ ، ایس ٹی او ایس ،فتح اسکواڈ سمیت دیگر فرنٹ لائن گوریلاوں پر مشتمل گروپس کا قیام ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بی ایل اے ٹیکنیکل فیلڈ میں بھی آگے جانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں دشمن کی ڈرون پر نظر رکھنا ، شہری گوریلا کی ایکٹیویٹی پر نظر رکھناشامل ہیں۔ بی ایل اے نے بہت کم وقت اور کم وسائل کے ساتھ بہت پزیرائی حاصل کی اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ بی ایل اے ایک منظم اور ذمہدار تنظیم ہے جو اپنی ساتھیوں کی سلامتی کے کئے انتھک کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

بی ایل اے کی جو مضبوط کڑی ہے وہ ،،رازداری،، ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ جب نوشکی اور پنجگور آرمی ہیڈ کوارٹر پر فدائی حملہ ہوتا ہے۔ تو دونوں فدائی یونٹ کے فدائین سے بھی ایک دوسرے کے حملے کے بارے میں چھپایا جاتا ہے۔ جب کمانڈر زبیر اور آپریشن کمانڈ کے گفتگو کے دوران دوسرا فدائی کمانڈر زبیر سے پوچھتا ہے کہ ،،دوسرا حملہ کہاں ہوا ہے،،تو کمانڈر زبیر اپنی ساتھی کو بتاتا ہے کہ دوسرا حملہ نوشکی ہیڈکوارٹر میں ہوا ہے۔اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بی ایل اے کی رازداری کس قدر سخت ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ دشمن کے لاکھ کوششوں کے باوجود وہ بی ایل اے کے آپریشنز کو نہیں روک سکتا ہے۔ کیونکہ جس طرح بی ایل اے نے اپنی بیرونی ساخت کو مضبوط کیاہے بلکل اسی طرح وہ اندرونی سطح پر بھی بہت مضبوط ہیں۔

بی ایل اے نہ صرف جنگی میدان میں آگے ہے بلکہ وہ لٹریچر میں کافی حد تک رسائی رکھتا ہے جس کی پبلیکیشن کی گئ کتاب جو تنظیمی ڈسپلن ،، جنگی ہیل کاری ، جاسوسی کرتب ، ہتیھاروں کی چلانے اور بنانے پر مشتمل ہیں شائع کر چکا ہے بی ایل اے میں زیادہ تر افراد تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں کسی کو کمانڈ زاتی حیثیت یا وراثتی وجوہات کے بنا پر نہیں بلکہ کسی کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اسے اس کی زمہ داری کے مطابق کمانڈ دی جاتی ہے تاکہ وہ کام کو بہترین طریقہ سے کر سکے اور مستقبل میں وہ ایک زمہ دار کمانڈ بننے کیلئے تیار ہو سکے۔

بی ایل اے موجودہ دور میں بلوچستان کا اہم تنظیم ہے جو فدائین حملوں کی وجہ زیادہ تر نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے۔بی ایل اے بلوچستان میں کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بی ایل اے اپنی حملوں کی دائرہ کو بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے جس کیلئے اسے ذمہ دار افرادی قوت کی ضرورت ہے۔
جلد یا بدیر بی ایل اے باقی تنظیموں کو ایک ٹریک میں کام کرنے کا موقع فراہم کرے گا اب یہ اس تنظیم پر انحصار کرتا ہے کہ وہ خود کو اور بلوچستان کے مسائل کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں مسلح جنگ میں بی ایل ایف کی کارروائیاں کافی ریکارڈ کی گئی ہیں بی ایل ایف کی کارروائیاں 2004 شروع ہوئی۔ بی ایل ایف کا کمانڈ 2004 سے موجودہ وقت تک ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ چلا رہا ہے یہ تنظیم شروع سے ہی روایتی طرز گوریلا جنگ میں مصروف عمل ہے جو کئی گوریلا ٹیکٹس ، چھاپہ مار حملہ ،ریموٹ کنٹرول بمب ،گھات لگا کر حملہ کرنا ،سرچ اینڈ شوٹ جیسی خطرناک حملوں میں مہارت رکھتا ہے۔ بی ایل ایف کی بیشتر کمانڈ مکران میں سے ہیں اور پورے بلوچستان میں بی ایل ایف کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ بی ایل ایف بلوچستان کا لارج تنظیمی حیثیت رکھتا ہے جو کئی افرادی قوت پر مشتمل ہے۔

2008 سے 2014 کو بی ایل ایف کو بے شمار افرادی قوت ملنے کے بعد بلوچستان کا حساس ترین تنظیم بن گیا جس کی قیادت میں پورے مکران ،اواران میں پاکستانی سامراجیت کا صفایا ہو گیا اور جگہ جگہ بی ایل ایف کے باغیوں کے کیمپس ، ٹریننگ سنٹر قائم ہوئے۔ سیاسی اور شعوری فقدان کی وجہ سے بی ایل ایف کے زیر افراد کنٹرول سے باہر ہوگئے اور انہوں نے اپنی من مانی کرنا شروع کردی۔ جس کی وجہ سے علاقوں میں بی ایل ایف کی حمایت ختم ہو گئی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست نے اپنے کچھ لوگ بی ایل ایف کے صفحوں میں شامل کر دئیے جو بعد میں چوری ، ڈکیتی ، اور غیر اخلاقی عمل کی وجہ سے عوام کے دشمن بن گئے۔ بی ایل ایف نے عوامی حمایت کو بحال کرنے کیلئے ان افرادوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی جس کی وجہ سے کافی لوگ سرینڈر ہوئے اور تنظیمی راز ، کیمپس ، ٹھکانوں کا معلومات دشمن کو فراہم کر کے تنظیم کے ساتھ غداری کی۔اس کے بعد 2017 میں اپنی بقاء کو بچانے کی خاطر براس کے ساتھ ملکر ازسرنو تنظیم سازی شروع کر دی جس میں ، تنظیمی ڈسپلن ، رازداری ،اور افرادی قوت کو کنٹرول کرنے تیاری شروع کردی اور پھر بی ایل ایف نے آستین کے سانپ کے خلاف سرچ اینڈ شوٹ کا آغاز کیا۔

اور نئی جدید دور میں بی ایل ایف نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے جنگی تیکنیک میں بدلاؤ لایا جس میں مضبوط کمانڈروں کو زمہ داری دی گئی جو علاقوں اور لوگوں پر کھڑی نظر رکھ سکے۔

موجودہ دور میں بی ایل ایف اور بی ایل اے میں کافی اتحاد ملتاہے جو ایک دوسرے کے کیمپس کو استعمال کرنا ، جنگی وسائل اور سامان کی ترسیل کرنا ، اکھٹے مل کر دشمن کے کسی بڑے اہداف کو نشانا بنانا شامل ہیں۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل ایف بھی بی ایل اے کی اتحاد میں خود کو جدید دور میں داخل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

حال ہی بی بی سی کو دی ہوئی ایک انٹرویو میں بی ایل ایف کے کمانڈر ان چیف ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بلوچ مسلح گروہ کو ایک صف میں لانے کی بات ظاہر کی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں بلوچ مسلح گروہ ایک تنظیم میں انظمام کرکے بلوچستان کی آزادی کی جنگ ایک آرمی کی شکل میں لڑنے کی ارادہ رکھتے ہیں ۔20 سالہ جنگی تاریخ میں بلوچ باغیوں نے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کیا بے شمار قربانیوں کے بعد بالآخر بلوچ کو یہ بات سمجھ آئی کہ آزادی کی خاطر ہمیں ایک صف ہوکر دشمن کے خلاف اٹھنا ہوگا اور مسلح جنگ کو تیز کرکے بلوچستان کو آزاد کرانا ہوگا۔

اگر موجودہ دور میں بلوچ باغی پھر کسی باہری لوگوں کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط فیصلہ لیتے ہیں تو وہ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ اس کے بعد بلوچ باغیوں کو سر چپھانے کا جگہ نہیں ملے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔