اسلام : بلوچ طلبا جبری گمشدگیوں پر کیس کی سماعت

124

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسا ملک اس قسم کے معاملات کو برداشت نہیں کرسکتا، کیا ہم بھی وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ یا وزارت دفاع سے بیان حلفی لیں کہ آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔ریاست کے اداروں کو قانون کی پاسداری پر یقین کرنا چاہیے، وقت آئے گا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کاروائی ہوگی ۔اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ثبوت نہیں تو لوگوں کو رہا کریں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاپتہ طلباء کی تعداد 16 رہ گئی ہے باقی بازیاب ہو گئے ہیں جبکہ ایمان مزاری نے کہا کہ لاپتہ طلباء کی تعداد 12 ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ٹرائل کریں لوگوں کو عدالتوں میں پیش کریں، بلوچستان کے لوگ وزارتیں بھی لیتے ہیں مگر اپنوں کو تحفظ نہیں دے سکتے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو بلوچستان میں عدالتوں کو فعال کرنے کی ہدایت کی۔

ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کی متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات افسوناک رہی۔اٹارنی جنرل آفس یا کسی اور آفس سے اب تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔

درخواست گزار فیروز بلوچ کے حوالے سے کہا گیا کہ انکو ریلیز کردیا گیا،لیکن وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سےاستفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ ان لوگوں کو ریلیز کردیا یا گھر پہنچایا؟ عدالت نےوفاقی حکومت کا undertaking دینے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت ہی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم بھی وزیراعظم افس، وزارت داخلہ یا وزارت دفاع سے بیان حلفی لیں؟ ۔وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ و دیگر بڑے دفاتر یہاں بیان حلفی دیں کہ آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔

ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں ان کے خاندان والے انکو پھر کبھی دیکھتے ہی نہیں۔اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ثبوت نہیں تو لوگوں کو رہا کریں۔ایسے 3, 4 ماہ گرفتار رکھنے کو کا کوئی فائدہ نہیں، ان معاملات میں وزیراعظم، وزارت داخلہ، وزارت دفاع ہی جوابدہ ہے۔

عدالت نے سمی دین بلوچ سے کہا کہ ایک بات پر یقین کریں کہ جو لوگ دس سال ہو یا پندرہ سال سے لاپتہ ہیں انکی معلومات حکومت فراہم کرے گی، پہلے لاپتہ افراد کو بازیاب ہونے دیں پھر جس ادارے نے آپ سے بیان حلفی لی ہے اسی کا دیکھا جائے گا۔

عدالت نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو پریس کلب کے باہر بیٹھےدونوں مظاہرین کو سیکورٹی انتظامات فراہمی کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 13 فروری تک کے لئے ملتوی کردی