بالاچ بلوچ مزاحمت کا استعارہ – لطیف بلوچ

267

بالاچ بلوچ مزاحمت کا استعارہ

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

29 اکتوبر 2003 خونخوار بھیڑیوں نے بے رحمی سے رات کے اندھیرے میں ایک گھر پر حملہ کیا، ایک نوجوان کو اس کے والدین کی بانہوں سے چھین لیا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اغوا بالاچ کے خاندان کے لئے ایک دردناک آزمائش کا آغاز ہوگا اور بلوچ قوم کو جوش میں لے ائے گا۔ بلوچ قوم میں سیاسی مزاحمت کے شعلوں کو بھڑکا دینے کا سبب بنے گا۔

تقریباً ایک ماہ تک، 29 اکتوبر سے 20 نومبر تک، بالاچ اپنے اغوا کاروں کے ہاتھوں ناقابل بیان ہولناکی کا شکار رہا۔ انہوں نے اس کے جسم کو نوچ نوچ کر تشدد کا نشانہ بنایا، اس پر جبر کے نشانات نے اس پر ڈھائے جانے والے ظلم کی گواہی دیتے رہے تھے اور بالآخر 21 نومبر کو سی ٹی ڈی نامی دہشت گرد ادارے کے اہلکاروں نے بالاچ کو عدالت میں لائے اور 10 دن کے ریمانڈ پر عدالت نے انہیں دوبارہ قاتلوں کے حوالے کر دیا تھا۔

تاہم بالاچ کے لئے انصاف کا حصول مضمر ثابت ہوا کیونکہ اذیت دینے والے بلوچ خون کے پیاسے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو قتل کرکے بھی سیر ہونے سے انکاری تھے اور وہ بالاچ کے خون سے پیاس بجھانا چاہتے تھے۔ 22 نومبر کی رات، بالاچ کو بظاہر ایک جعلی مقابلے کے لئے لاک اپ سے اٹھا کر کسی ویرانے میں لے جایا گیا، سی ڈی ٹی اہکاروں نے اپنی مذموم ارادے کو عملی جامعہ پہنایا اور بالاچ مولا بخش کو دیگر تین جبری لاپتہ نوجوانوں عبدالودود، سیف اللہ اور عبدالشکور کے ہمراہ جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔ بالاچ کی جان لے کر نہ صرف والدین کے ایک امید افزا وجود کو ختم کر دیا بلکہ ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے غیر فعال جذبے کو بیدار بھی کیا گیا۔

تربت سے لے کر کوہ سلیمان تک، بالاچ کے المناک قتل پر غم و غصے کی وجہ سے ایک پرعزم مزاحمت ابھری۔ بالاچ کا نام بلوچ منظر نامے پر گونج گیا، انصاف کی جدوجہد، ظلم، ناانصافی، بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن گیا۔ بالاچ گورگِچ، بالاچ مری، بالاچ مولا بخش یہ نام ظلم و جبر کے پس منظر میں مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔

بالاچ کی کہانی محض ذاتی المیے کی تاریخ نہیں ہے بلکہ بلوچ مزاحمت کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ یہ اس لمحے کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسے واقعات جب کسی قوم کو نیند سے جھنجھوڑتی ہے اور اُن کا اجتماعی شعور اپنے ہی کسی نوجوان پر ہونے والی ناانصافی سے بھڑک اٹھتا ہے۔ بالاچ کا خون، جو ناحق بہایا گیا، ایک ابھرتی ہوئی تحریک کی رگوں میں بہہ گیا جس نے ظلم اور جبر سے آزاد مستقبل کے لئے متعین کردہ راہ پر مزید لوگوں کو چلنے پر مجبور کیا۔

بالاچ کی بے وقت موت کے بعد، بلوچ عوام کی قومی یکجہتی کو طاقت ملی، جو پہلے راہ پُر خوار پر چلنے والوں کی قربانیوں سے متاثر ہوئے اور مزاحمت کی بازگشت پورے خطے میں گونجنے لگی، بالاچ کی قربانی ایک طاقتور مزاحمتی علامت بن گئی اور تاریخ کے تاریک ترین گھڑیوں میں بھی، لوگوں کا ناقابل تسخیر جذبہ، یکجہتی نے مکران، جھالاوان، ساروان، کوہ سلیمان کے بکھرے بلوچوں کو ایک بار پھر اٹوٹ قومی رشتے میں جوڑ دیا۔

کیچ، جھالاوان، ساراوان، کوہستان مری کوہلو، بارکھان سے لے کر کوہ سلیمان تک کے وسیع و عریض بلوچ سرزمین پر ایک شعلہ بھڑک گیا، جو ظلم اور غلامی کی سلگتے راکھ کو مزاحمت کی گرجتی ہوئی آگ میں بدلنے کے لئے پرعزم رہنماؤں کے جذبے سے ممکن ہوا۔ ان بے مثال لیڈروں میں سمی دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، گلزار دوست، وسیم سفر، اور صبغت اللہ شاہ جی جیسی شخصیات غیر متزلزل عزم اور الہام کے ستون بن کر کھڑے ہوگئے۔

بلوچ قوم جدوجہد آزادی میں گہری جڑی ہوئی تاریخ کے ساتھ، بے شمار چیلنجز کا سامنا کر چکی ہے۔ تاہم، ان رہنماؤں کی کوششوں سے ہی سیاسی مزاحمت کا جذبہ دوبارہ زندہ ہوا ہے، جس نے بلوچ منظر نامے پر ایک چمک دمک ڈالی ہے۔

امید کی کرن سمج دین بلوچ نے بلوچ نوجوانوں اور بلوچ خواتین کو جوش دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں اتحاد کے عزم ساتھ بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جہد مسلسل کا اغاز شہید فدا بلوچ چوک تربت سے کیا گیا۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، جو دانشورانہ صلاحیتوں کی علامت ہیں، انہوں نے بلوچ جدوجہد کے بیانیے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہوں بطور اسٹوڈنٹ لیڈر تعلیم کو قومی غلامی کے خلاف ایک آلہ کے طور پر استعمال کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سماجی و سیاسی منظر نامے کی گہری سمجھ اور اجتماعی شعور و دانش کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم پر منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ گلزار دوست، ایک کرشماتی رہنما، جہنوں مختلف گروہوں کے درمیان خلیج کو پر کیا اور یکجہتی کو فروغ دیا، تعلق اور مشترکہ مقصد کے احساس کو فروغ دیا۔

وسیم سفر، جو اپنے تزویراتی ذہانت کے لیے جانا جاتا ہے، انہوں نے نمازی و زکری کا فرق بلوچ سماج سے ختم کرکے مؤثر مزاحمتی حکمت عملی تیار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ بلوچ کاز مشکلات کے وقت بھی منظم رہے۔ صبغت اللہ شاہ جی اپنی اٹوٹ لگن و ذہانت اور بلوچ دوستی کے ساتھ جو انہیں عظیم والد محترم مولانا عبدالحق بلوچ سے ورثے میں ملا ہے ظلم کے خلاف مزاحمت کے جذبے کو مجسم کرتے ہوئے، بے شمار افراد کے لئے حوصلہ اور تحریک کا باعث بنے اور منتشر بلوچ طاقت کو یکجاء کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان رہنماؤں کی اجتماعی کوششوں نے نہ صرف مزاحمت کے شعلے کو زندہ کیا ہے بلکہ بلوچ عوام میں اتحاد اور مقصدیت کا جذبہ بھی پیدا کیا ہے۔ بلوچ قوم کو منظم اور متحرک کرکے انہوں نے جبری گمشدگیوں سے متاثرہ خاندانوں کی خاموشی و خوف کو طاقت اور عزم کی داستان میں تبدیل کر دیا۔

جب بلوچ قوم اپنے مایوسی اور سیاسی قیادت کی فقدان کے دوراہے پر کھڑی تھی یہ رہنما رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں قومی جدوجہد میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے بلوچ عوام کے دلوں میں آگ کو پھر سے جلانے میں جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کے پائیدار جذبے کا ثبوت ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ شعلہ آنے والی نسلوں تک جلتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔