اس اسپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے ہیں ۔ محمد خان داؤد

132

اس اسپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے ہیں
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

وہ آئے،بچوں کو ڈرایا،بوڑھی ماؤں کو گالیاں دیں۔اور جوان لڑکیوں کو کیا کچھ کہا یہ اس فریم میں فٹ نہیں آسکتا،اگر وہ یہاں لکھوں تو لیپ ٹاپ کی اسکرین جل اُٹھے،پھر وہ چلے گئے،بھاگ گئے،یا شاید بھاگ گئے،ہم نے انہیں مختصر وڈیو میں بھاگتے دیکھا،وہ کون تھے؟کہاں سے آئے؟کس نے بھیجے؟کیوں بھیجے؟وہ کیا چاہتے تھےَانہیں کس کی تلاش تھی؟وہ کیا ساتھ لے جانا چاہتے تھے؟انہیں کیا ملا؟اور کیا نہیں؟وہ کتنے کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام؟اب وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرو تو ہر طرف سے ”اسپیکر چور“کا شور ہے،یہاں تک کے یہ اس وقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے،ہزاروں،لاکھوں پوسٹ اور شئیر اس پر ہو چکے ہیں جہاں دیکھو جس کو دیکھو یہی”اسپیکر چور“ کا شور ہے۔کیوں کہ جب وہ گئے تو ان سے کچھ نہیں بن پایا تو وہ جاتے میں اپنے ساتھ لانگ مارچ مسافروں کا اسپیکر اپنے ساتھ لے گئے،جس سے وہ درد کے صدا بلند کرتے تھے۔جس پر وہ اپنے گمشدہ لواحقین کے نام پکارتے تھے۔جس پر وہ درد کے گیت گاتے تھے۔جس پر وہ ٹھہر ٹھہر کر روتے تھے۔جس پر وہ اپنے زندہ لوگوں کو پکارتے تھے۔جس پروہ،وہ باتیں کرتے تھے جن باتوں کو یہ ریاست سننے کو تیار نہیں۔جن پر وہ نوحہ پڑھتے تھے۔جن پرسیاسی پارٹیوں کا اپنا وعدہ یاد دلاتے تھے۔جس پر دیس کی باتیں ہو تی تھیں۔جس پر دیس باسیوں کے درد کی باتیں ہو تی تھیں۔جس پر سمی کچھ کہہ کر بہت رو تی تھی۔جس پر زاکر مجید کی ماں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ کتنے سالوں سے اس سفر میں ہے۔جس پر کم باتیں اور بہت رو تی تھی۔جس پر بوڑھی مائیں ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ آنسو ان کے دامن کو تر کر جا تے تھے۔

اس اسپیکر نے کیا کیا درد نہ سہے۔اس اسپیکر نے کیا کیا نوحہ نہ سنے۔اس اسپیکر نے کیا کیا درد کے گیت نے سنے۔اس اسپیکر نے گلزار دوست کی باتیں بھی سنی تو ماہ رنگ کے ساتھ رویا بھی۔اس اسپیکر نے شہیدوں کی تقاریر بھی سنی تو سمی کی درد کی سیمفینی بھی
اس اسپیکر نے راشد بلوچ ماں کی بلوچی میں درد کی باتیں بھی سنی اور وہ منظر بھی دیکھا جب بہت سی کوششوں کے بعد فرزانہ مجید کی ماں کی وہ تقریر بھی سنی جس میں بہت کوشش کے بعد وہ کچھ اردو میں کہنے پر راضی ہوئی پر پھر سے بلوچی میں رونا شروع کیا۔یہ جھوٹ ہے کہ رونے کی کوئی زباں نہیں ہو تی،سچ تو یہ ہے کہ درد کی کوئی زباں نہیں ہو تی،فرزانہ مجید کی ماں بلوچی میں روئی اور جب درد کچھ سوا ہوا تو پھر رونے کی زباں درد کی زباں میں بدل گئی اور درد کا رونا،درد کا رونا ہوتا ہے۔

جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں
تو بلوچ ماؤں کے ساتھ اسپیکر کیوں نہیں رو سکتے
بلوچ ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کے ساتھ اسپیکر بھی رویا ہے
یہ اسپیکر سمی کے ساتھ رویا ہے
یہ اسپیکر بیبو بلوچ کے ساتھ رویا ہے
یہ اسپیکر ماہ رنگ کے ساتھ رویا ہے
یہ اسپیکر زاکر مجید کی ماں کے ساتھ رویا ہے
یہ اسپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو اسلام آباد میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئی اور بے ہودہ غریدہ فارقی کو یہ سچ بتانے لگی کہ پولیس تشدد سے اس کی پسلی ٹوٹ چکی ہے
یہ اسپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو بس دو زبانیں جانتی ہے
ایک بلوچی دوسری درد کی زبان
اس اسپیکر نے وہ ساری صدائیں سنی ہیں جو دل سے نکلی اور اسپیکر کی روح میں پیوست ہو گئیں
اس اسپیکر نے ان بوڑھی ماؤں کو رات کے آخری پہروں میں روتے دیکھا ہے
اس اسپیکران ماؤں کو آدھی رات کے شروعاتی پہروں میں ان تصاویروں سے بات کرتے،روتے،روٹھے،مناتے دیکھا ہے
اس اسپیکر نے ان ماؤں کو اپنے گمشدہ بچوں کی تصویروں کے ساتھ بغلگیر ہو تے دیکھا ہے
اس اسپیکر نے ان ماؤں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ”نہیں معلوم تم کب آؤ پر اب تم یقین جانو میں جانے والی ہوں!“‘
اس اسپیکر نے بس اپنے کانوں،دل اور روح سے ان ماؤں کو نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھ میں مائیک تھامے بہت کچھ کہہ جا تی ہیں پر اس اسپیکر نے ان ماؤں کے جنازے بھی اپنے اندر سے سنے ہیں جو اس سفر کی ساتھی ہو تی تھیں۔منتظر دید لیے سفر کرتی تھیں اور پھر تھک کے بہت پیچھے رہ جا تی تھیں
اس اسپیکر پر ان مسافر منتظر دید والی ماؤں کے جنازے پڑھے گئے اور یہ اسپیکر بہت مغموم رہا ملول رہا اداس رہا،روتا رہا۔
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں تو بلوچ ماؤں کے ساتھ یہ اسپیکر کیوں نہیں
یہ اسپیکر بھی اتنا ہی دردیلا تھا جتنی بلوچ مائیں!
اس اسپیکر نے بس درد کے گیت نہیں سنے،
اس اسپیکر نے بس آدھی رات کے نوحے نہیں سنے
اس اسپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے
اس اسپیکر نے شام کے آزادی کے گیت بھی سنے
اس اسپیکر کے دل نے بس سمی کے درد کو نہیں سنا
اس اسپیکر نے گلزار دوست کے انقلابی کلام بھی سنے
اس اسپیکر نے بس درد کے سفر کو نہیں دیکھا
اس اسپیکرآزادی کی آہٹ بھی سنی تھی
اس اسپیکر نے بس سوتی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں
اس اسپیکر نے دئیوں کی ماند جلتی آنکھیں بھی دیکھی تھیں
وہ درد کا اسپیکر تھا
دیس کے سسئیوں کا اسپیکر تھا
وہ ماؤں کی بولی تھا
آزادی کا گیت تھا
دیس کا اسپیکر تھا
آزادی کا اسپیکر تھا
اب وہ بھی گمشدہ ہو چکا ہے
جو بھی اس لے گئے ہیں انہیں یہ بات جاننا چاہیے کہ وہ راک اسٹار والوں کا اسلام آباد کی ہیپی ناٹ والوں کا اسپیکر نہیں وہ درد وندوں کا اسپیکر ہے اس اسپیکر کا بھی اس سفر اور تحریک میں اتنا ہی کردار رہا ہے جتنا گلزار دوست کا اسے جہاں بھی رکھو گے،دفن کرو گے یا گولی مارو گے پھر بھی اس میں سے آواز آئے گی
”اعلان ہزارین مان نہ رگو!!!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔