عدالتیں سی ٹی ڈی نامی ادارے کو قانون کے کٹہرے میں لاکر جبری گمشدہ افراد کے قتل کا حساب لیں۔ این ڈی پی

102

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان میں کہا کہ سی ٹی ڈی نامی ادارے کی جانب سے بلوچستان میں کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ جبری گمشدہ افراد کو ماورائے آئین جعلی مقابلوں میں قتل کرنا انسانیت سوز واقعہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اس سے پہلے بھی اقتدار کے کرسی پر براجمان چند نام نہاد حکمران جبری گمشدگی کے مسئلہ کو پروپیگنڈہ قرار دیتے آ رہے ہیں، اور دوسری جانب ریاستی اداروں نے مختلف حربے استعمال کرتے آ رہے ہیں جن میں جبری گمشدہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا تھا، یا پھر انہیں قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا ہے لیکن اب ہم سمجھتے ہیں کہ سی ٹی ڈی جیسے ادارے کے ذریعے باقاعدہ ادارہ جاتی طور بلوچ کی نسل کشی کی جا رہی ہےجو کہ کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ماوراء آئین عمل ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس تمام حالات میں عدالتیں بھی خاموش ہیں، لہذا عدالتوں کو چاہیے کہ وہ سی ٹی ڈی نامی ادارے کو قانون کے کٹہرے میں لائیں اور اس ادارے کا احتساب کریں۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ دن چار لاپتہ افراد کی لاشیں ملی تھیں جنہیں دھماکے میں حادثاتی موت ظاہر کیا گیا تھا، اب ایک بار پھر تربت میں پولیس کے ذریعے چار لاشوں کو مسلح ظاہر کر کے سی ٹی ڈی مقابلہ ظاہر کیا جا رہا ہے جو ریاستی دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔ حالانکہ ان لاپتہ افراد کے اہلخانہ مختلف فورمز پر ان کے لاپتہ ہونے کا واقعہ درج کیے گئے ہیں۔ جبکہ ایک نوجوان کی لاش کی شناخت بالاچ ولد مولا بخش سے ہوا ہے، حالانکہ بالاچ بلوچ کو 29 اکتوبر کو تربت سے جبری طور پر گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا اور اس کا کیس زیر سماعت بھی ہے اور سی ٹی ڈی نے خود عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔ کل رات سی ٹی ڈی عدالتی کارروائیوں اور عدالتی احکامات کو پاؤں تلے روند کر بالاچ بلوچ کو جعلی مقابلے میں قتل کیا ہے. اور اسی ایک دوسرے نوجوان کی لاش کی شناخت سیف بلوچ کے نام سے ہوئی ہے، جس کو 1 اگست کو تربت سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا۔