سی ٹی ڈی اور فیک انکاؤنٹرز ۔ گہور مینگل

162

سی ٹی ڈی اور فیک انکاؤنٹرز

تحریر: گہور مینگل
دی بلوچستان پوسٹ

چند روز قبل سی ڈی ڈی بلوچستان نے تربت سول ہسپتال میں چار لاشیں پہنچائی اور دعویٰ کیا کہ یہ مقابلے میں مارے گئے ہیں اور ان تمام سے بھاری تعداد میں اسلحہ، بارودی مواد برآمد ہوا ہے۔ ان مارے جانے والوں میں ایک نام بالاچ ولد مولابخش بھی شامل ہے جسے عدالت میں پیش کیا گیا اور دس روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا گیا۔دس روزہ جسمانی ریمانڈ پورا ہونے والا تھا اس سے ایک دن پہلے اسے جعلی مقابلے میں مارے جانے کا دعوہ کرکے شہید کیا گیا۔

خاندانی موقف کے مطابق ریاستی اداروں نے بالاچ کو گھر سے تمام خاندان کے افراد کے سامنے اٹھاکر لاپتہ کیا اور پھر بے دردی کے ساتھ شہید کرکے جعلی مقابلے کا نام دیا گیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم کے مطابق جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے تمام افراد کو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا،گویا وہ سب مسنگ افراد تھے جنکی جبری گمشدگی کے کیسز تنظیم کو موصول ہوئی ہیں۔

بالاچ بلوچ کے لواحقین نے گزشتہ دو روز سے تربت کے معروف چوک ( شہید فدا چوک) پر دھرنا جاری رکھا ہوا ہے اور آج عدالت کی طرف سینکڑوں کی تعداد میں لانگ مارچ کرکے عدالت سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ کل کوئٹہ سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور بلوچ وومن فورم کے ڈاکٹر شلی نے بھی احتجاجی دھرنے کو جوائن کیا ہے اور تاحال احتجاج اور انصاف کے لیے مذاحمت جاری ہے۔

سی ٹی ڈی بلوچستان میں ایک بھیڑیا نما خون خور ادارہ ہے جسے ریاستی سطح پر جبری گمشدہ افراد کےقتل اور بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا لائسنس جاری کیا گیا ہے۔ بلوچ حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اس انسان کش ادارے کے قیام سے پہلے ایم آئی ور آئی ایس آئی بلوچستان میں اس طرح کی کارروائیاں کرتیں رہی ہیں جسکی وجہ سے براہ راست خفیہ ایجنسیاں قصور وار کہلائی جاتی تھیں جس سے ریاستی سطح پر ایک غلط تاثر جاتا یہ ریاست کا نقطہء نظر تھا،اس پالسی کو تبدیل کرکے بلوچ نسل کشی کو بلوچ کائونٹر انسرجنسی کی صورت میں سی ٹی ڈی کو سونپا گیا،اس دن سے آج دن تک یہ بلوچ کش ادارہ دھڑا دھڑ مسنگ افراد کو جعلی مقابلوں کا نام دیکر بے دردی کے شہید کرتا آرہا ہے۔

اسی نسل کش حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے غالباً دوہزار اٹھارہ میں سی ڈی ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس دن سے آج تک بلوچ مسنگ پرسنز کو جعلی مقابلوں میں مارنے کا کارنامہ یہ ادارہ سرانجام دے رہی ہے اور تازہ مثال متذکرہ واقعہ کیچ شہید بالاچ اور سیف اللہ سمیت تمام لاپتہ افراد کا جعلی قتل ہے۔

موجودہ صدی میں ڈیپ اسٹیٹس ہتھیار اور بندوق کی جنگیں لڑنے کے بجائے متبادل راستہ یعنی نفسیاتی جنگیں لڑنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت شدید اضطراب اور نفرت پایا جاتا ہے جسکی وجہ سے ریاست کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔

اس وقت جب سی ٹی ڈی کی جانب سے دس یوم کے اندر متعدد جبری گمشدہ افراد کی لاشیں جعلی مقابلے میں گرائی جاچکی ہیں اور بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمپین اور سیٹ ایڈجسمنٹ میں لگی ہوئی ہیں اور نہایت سکون سے پاکستانی جمہوریت کی بحالی اور نگران حکومت کی پالیسیوں کو نشانہ تنقید بنانے میں مصروف حقوق کا تحفظ نامی بلا کا ڈنڈورا پیٹ رہے ہیں جبکہ انسانی جانوں کی عدم تحفظ اور قتل کیخلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں بھلا انسانی جانوں کے ضیاء اور قوم کی نسل کشی پر خاموشی سے بڑا کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ یقیناً باالکل نہیں! بلکہ وہ تمام جماعتیں اور طبقات اس جرم میں شریک ہیں اور دوام بخشنے میں انکی خاموش بے حسی، ریاستی نسل کشی کو جواز فراہم کررہی ہے۔

بلوچستان کے کیس میں سب سے زیادہ قربانی دینے اور ریاستی سطح پر کچلے جانے والے بلوچ سٹوڈنٹس اور نوجوان ہیں اور بلوچ قومی تحریک کی موجودہ پوزیشن بلوچ یوتھ کی مرہون منت ہے، اب باقی بلوچ معاشرہ اور دیگر طبقات کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا اور تحریک میں قربان ہونا ہوگا وگرنہ ہم اسی طرح مرتے، مٹتے اور قتل ہوتے رہینگے جو آج اپنی برترین شکل میں جاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔