سانحہ بالگتر پر بی این ایم کی پریس کانفرنس

221

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری قاضی داد محمد ریحان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کے پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے شہریوں کو انصاف ، برابری اور آزادی دینے کے وعدے کیے گئے ہیں، جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کی ٹھوس ضمانت دی گئی ہے جن کی پامالی کا کسی بھی ریاست اور کسی بھی ملک کو اجازت نہیں۔یورپی یونین ، برطانیہ اور امریکا جیسے عالمی سطح پر موثر ممالک دنیا کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ انسانیت کی فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ عالمی سطح پر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو مالی امداد دیا جاتا ہے مگر اس میں انسانیت اور انسانی حقوق کو فوقیت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ ، ان خوش نما اصولوں اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی موجودگی میں عالمی برادری کو بلوچستان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔امریکا سمیت دیگر ممالک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے جو پاکستان کی مسلسل مدد کر رہے ہیں پاکستان کو انسانی حقوق کا پابند کرنے میں بری طرح ناکام ہیں یا وہ ’ انسانیت کے خلاف ‘ اس کے واضح جرائم کو درگزر کر رہے ہیں۔ بلوچ ، سندھی اور پشتون، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی عوام پاکستانی ریاست میں محکوموں کی زندگی گزار رہے ہیں جنھیں تمام شہری حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کو پاکستانی فوج دہشت پھیلانے اور اپنے ہی عدالتی نظام سے چھٹکارہ حاصل کر نے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔پاکستانی فوج کی بدنام زمانہ مارو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت ہزاروں جبری لاپتہ افراد کو قتل کرکے ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں۔بلوچستان میں اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ جن میں توتک میں ملنے والی اجتماعی قبریں بھی شامل ہیں۔ نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر سینکڑوں نامعلوم افراد کی گلی سڑیں لاشیں بھی ان ہزاروں جبری گمشدگان کے خاندان کے تشویش میں اضافہ کرتے ہیں جو دہائیوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ بلوچستان کے مرکزی شہر شال سے 30 کیلومیٹر دور دشت کے علاقے میں سبی روڈ پر نامعلوم افراد کی قبرستان ہے جس میں صرف دو سالوں میں ڈھائی سو سےزیادہ نامعلوم افراد کو دفن کیا گیا۔ یہ بلوچستان ہے یہاں جیتے جاگتے انسانوں کو ان کے گھروں ، سفر کے دوران ، درسگاہوں ، ہسپتالوں اور بھری بازار سے وردی والے گرفتاری کے بعد نام و نشان سے محروم کرکے گمنام قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ رواں سال (2023) 18 اور 19 نومبر کی درمیانی رات کو بالگتر ضلع کیچ بلوچستان میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس کا ہم نے اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں ذکر کیا کہ انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس واقعے میں ایک ہی خاندان کے تین بچوں کو نیم زندہ حالت میں ایک گاڑی میں ڈال کر اسے بارودی دھماکے سے تباہ کردیا گیا جس سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ یہ بچے پاکستانی فوج کی زیرحراست تھے۔ گذشتہ سال (2022) اگست کو اس خاندان کے سات بچوں کو مختلف مقامات سے پاکستانی فورسز نے عینی شاہدین کے سامنے جبری لاپتہ کیا تھا۔ ایک بچہ تربت کے ایک معروف وکیل کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا ، دو بچوں کو سول ہسپتال تربت کے احاطے سے حراست میں لیا گیا تھا۔ ظلم کی شدت کا اندازہ لگائیں ، کہ یہ ساتوں بچے ایک ہی خاندان کے ہیں۔لشکران ، عصا اور لیواری کے دو دو بچے ان جبری گمشدگان میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ظلم کا شکار ہونے والے نوجوان عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا، نبی داد ولد لیواری، شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ ہیں۔ جنھیں پاکستانی فوج اور اس کے منسلک اداروں نے چھاپہ مار کر گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا۔

عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کو گاڑی میں ڈال کر بارودی دھماکے سے گاڑی کو تباہ کیا گیا جبکہ شوکت ولد لیواری ، ظہیر ولد لشکران ، پیرجان ولد لشکران اور احمد خان ولد شگراللہ تاحال جبری لاپتہ ہیں۔
علاقائی ذرائع کے مطابق دھماکے کے ذریعے تباہ کی جانے والی گاڑی کو پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) نے ناکہ بندی کرکے ڈی بلوچ کے مقام سے تربت کے ایک شہری سے چھینا تھا۔

قتل کیے گئے تینوں نوجوانوں کے حیلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے زیر حراست تھے اور بتایا جاتا ہے کہ قتل کیے گئے نوجوانوں کے باقیات سے پتا چلا ہے کہ انھیں بارودی دھماکے سے اڑانے سے پہلے گولیاں مار کر ادھ موا کیا گیا تھا۔

قاضی نے کہاکہ آپ یقینا یہ سب سن کر ظلم کی شدت کا اندازہ لگا چکے ہوں گے اس کے خلاف ہم نے آج کے پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی آواز بلوچستان کے میڈیا بلیک ہول جیسی صورتحال سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ بی این ایم پاکستانی میڈیا پر ہونے والے اس پروپیگنڈے کو مسترد کرتی ہے کہ مذکورہ نوجوان پاکستانی فوج کے حامی تھے جنھیں روڈ بلاسٹ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ یہ نوجوان انتہائی غریب گھرانے کے ہیں ، دوسروں کے گھروں اور دفاتر میں صاف صفائی کا کام کرکے اپنا گزربسر کرتے تھے اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ تھے۔

مزید کہاکہ پاکستانی فوج بلوچستان میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں میں مرکزی کردار ہے۔ ایف سی پاکستانی فوج سے ایک الگ فورس نہیں ہے پاکستانی فوج اپنا چہرہ چھپانے کے لیے ایف سی اور ڈیتھ اسکواڈ کا نام استعمال کرتی ہے لیکن ہم اس نقاب کو کھینچ کر یہ واضح کرتے ہیں کہ ان جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں اور مارو پھینکو پالیسی کی ذمہ دار صرف اور صرف پاکستانی فوج ہے۔ پولیس کا نام نہاد محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) پاکستانی فوج کے ان بڑے جرائم میں اس کی ایک بڑے سہولت کار کردار ادا کر رہا ہے ۔یہ محکمہ پولیس کے لیے شرم کا مقام ہے کیونکہ ہر ملک میں پولیس ایک مہذب اور عوام دوست فورس ہوتی ہے جو عوام کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہے۔ جس کی موجودگی سے عوام کو سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ فورس پاکستانی فوج کے جرائم میں شریک بن کر اپنا احترام کھوچکی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بی این ایم عالمی اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے فوری کردار ادا کریں۔ صحافیوں سے ہماری یہ درخواست ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر زیادہ سے لکھیں ۔ بلوچستان کے معاملے میں پاکستانی فوج اور پاکستانی حکام کے بیانیہ پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی تحقیق کریں یقینا حقائق وہ نہیں ہیں جو پاکستانی فوج اور ریاست پاکستان کے دیگر ادارے آپ کو بتاتے ہیں۔

آخر میں کہاکہ یہ وہ صورتحال ہے جس میں ہم دنیا کے تمام ممالک اور بالخصوص ہمسایہ ممالک سے پاکستانی مظالم کے خلاف انسانی بنیادوں پر بڑی مدد کی توقع رکھتے ہیں جو ان حالات میں ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ان کا فرض بنتا ہے۔جیسا کہ جب بلوچستان آزاد تھا بلوچستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملکوں پر مشکل آنے پر ان کی بڑھ چڑھ کر مدد کی جس کی مثال افغانستان اور عمان کے حکمرانوں پر آنے والا برا دور تھا جس میں بلوچوں نے انھیں یہاں برادرانہ جذبے سے پناہ دیا۔ یہاں تک گوادر جیسا اہم شہر بھی عمان کے حکمرانوں کے تحویل میں دیا گیا تاکہ وہ یہاں اپنے برے دن بھی اچھے سے گزار سکیں۔ اب وہ وقت ہے کہ بلوچوں کے ساتھ بھی یہی حسن سلوک کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرسکیں۔