بین الاقوامی برادری غزہ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئی۔ عرب ممالک

104

جنگ میں وقفے نہیں، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی چاہیے؛ اسرائیل بین الاقوامی قوانین سے بالاتر کیوں؟ عرب اسلامی مشترکہ سربراہ کانفرنس سے سربراہان کے خطابات

مسلم اور عرب دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان نے غزہ میں اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام قرار دیا ہے۔
ان رہنماوں نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا نام دیا اور مطالبہ کیا کہ مسئلے کے مستقل حل کی طرف بڑھنے کے لیے پائیدار اور مستقل جنگ بندی کی جائے۔

غیر معمولی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا ‘ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جنگ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا ایسی جنگ کا فلسطینیوں کو کبھی سامنا نہیں رہا ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے اور اسرائیلی کی جارحیت رکوائے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے ریاض میں طلب کی گئی غیر معمولی سربراہی کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا ‘ اس جاری مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ تاکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم کا حل نکل سکے۔ ایردوآن نے کہا ۔ ہم جنگ میں دو چار گھنٹوں کا وقفہ نہیں چاہتے۔ ہم مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں اور مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں۔’

غزہ میں جاری جنگ کے سلسلے میں اسلامی دنیا اور عرب ممالک کی غیر معمولی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا ‘غزہ کو مزید تباہی بچانے اور بڑے انسانی المیے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غزہ میں بغیر رکاوٹوں کے غیر مشروط جنگ بندی کی جائے۔ ایک فوری اور پائیدار جنگ بندی ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا ‘ غزہ کے لوگوں کے لیے اجتماعی سزا کی پالیسیاں ناقابل قبول ہیں، اسرائیل کے حق دفاع کا دعویٰ بلا جواز ہے اور ہے ہم اسرائیل کے اس دعوے سمیت کسی بھی دعوے کو قبول نہیں کر سکتے۔ اسرائیل کو غزہ کے خلاف جاری جنگ فوری بند کرنا ہوگی۔

سربراہ کانفرنس سے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اپنے خطاب میں کہا ‘سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کے ساتھ کب تک ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے سلوک کرے گی۔ گویا اسرائیل کو ہر قانون سے بالاتر قرار دے دیا گیا ہے۔