ایک اور لاش لیکن کہانی  وہی ۔ سلال سمین

299

ایک اور لاش لیکن کہانی  وہی 

تحریر: سلال سمین

دی بلوچستان پوسٹ

یہ لاشیں تابوتوں کے لئے نہیں ہے کہ اُنہیں کاندھوں کی ضرورت ہوں

، یہ لاشیں چوک اور چار راستوں کے لئے نہیں بنے ہیں ، یہ لاشیں عدالتوں کی چکر کاٹنے کے لئے نہیں بنے ہیں ، یہ لاشیں دیواروں پر سجانے کے لیئے نہیں بنے ہیں ، یہ لاشے ریاستی کاغذوں پر درج ہونے کے لیئے نہیں بنے ہیں ، یہ لاشیں فناء  ہونے کے لیئے نہیں ہیں ، یہ لاشیں بے وارث  نہیں کہ اُنہیں کوئی ادارہ آکر دفن کردے ، یہ لاشیں مفلوج نہیں کہ اُنہیں کوئی کاندھا دے دے ، یہ لاشیں گُنگے نہیں کہ کوئی اُنہیں زُبان دے دے ، یہ لاشیں نابینہ نہیں کہ کوئی اُنہیں آنکھ دے دے ، یہ لاشیں زِندانوں میں قید  ہونے کے لیئے نہیں ہیں اور یہ لاشیں کسی کا غلام نہیں ہیں .

یہ لاشیں ماں کی آغوش سے نکلے ہوئے لاشیں ہیں ، یہ لاشیں آزاد لاشیں ، یہ لاشیں زندانوں کی تاریکی کی لاشیں ، یہ لاشیں کچھ فریادوں  کی لاشیں ، یہ لاشیں داستانوں کو اُجاگر کرنے والی لاشیں ، یہ لاشیں درس دینے والی لاشیں ، یہ لاشیں کہانیوں  میں سُنانے والی لاشیں ، یہ لاشیں ایک فکر اور سوچ کی نشونُما کرنے والی لاشیں ، یہ لاشیں ایک نظریے سے وابستہ لاشیں ،یہ لاشیں بے وارث نہیں کہ اُنہیں جنگلوں میں پھینکا جائے ، یہ لاشیں بولتے ہیں ، یہ لاشیں سُنتے ہیں ، یہ لاشیں چھینکتے ہیں ، یہ لاشیں پُکارتے ہیں ، یہ لاشیں گُم و گار نہیں ہوتے ، یہ لاشیں آکاش کی لاشیں ، یہ لاشیں دھرتی  کی لاشیں ، یہ لاشیں مِٹھی کی خوشبو کی لاشیں ، یہ لاشیں بے گُناہ لاشیں ، یہ لاشیں ظُلم اور جبر کی داغ ماتے پر لگائے ہوئے لاشیں ، یہ لاشیں سینوں میں آگ کی جلن رکھتے ہیں ، یہ لاشیں شولے برستے ہیں ، یہ لاشیں سدیوں کی داستان بتاتے ہیں ، یہ لاشیں حاکم سے انصاف کی منتظر نہیں ، یہ لاشیں گولیوں کی کنکاروں سے نہیں ڈرے ، یہ لاشیں زندان کی تاریکی راتوں سے نہیں ڈرے ، یہ لاشیں سر جُھکا کہ کڑھے نہیں رہے اور یہ لاشیں غلام ہوکر نہیں آئے ۔

ہر ایک لاش کا اپنا ایک کہانی ہے ، ہر ایک لاش آزادی کی چمکتے ہوئے سورج کو مِحسوس کر کے  آیا تھا ، ہر ایک لاش موت کو ترجیح دے کر غلامی  کی زِندگی کو ٹُکراتا تھا ، ہر ایک لاش آزاد تھا ، ہر ایک لاش مُسکراتے ہوئے آیا تھا ، ہر ایک لاش اِنقلاب  کی شمعوں کو جلانے آیا تھا ، ہر ایک لاش ماں کی انتظار کی کٹھن گھڑیوں کو گِنوا کر آیا تھا اور ایک لاش زِندہ ہوکر آیا تھا ۔

آج یہ لاش بن کر کیوں آئے ؟ آج یہ کہانی بن کر کیوں آئے ؟ آج یہ ریاست کی طرف سے تُحفوں کی شکل میں کیوں آئے ؟ آج یہ گولیوں سے چھنی ہوکر کیوں آئے ؟ آج یہ لہو لہان ہوکر کیوں آئے ؟

کیا وہ ظالم ریاست سے انصاف مانگنے کے لئے آئے تھے ؟ کیا وہ عدالتوں کے سامنے احتجاج کرنے کے لئے آئے تھے ؟ کیا وہ لوگوں کی تماشہ بننے کے لئے آئے تھے ؟ کیا وہ تابوتوں میں سونے آئے تھے ؟ کیا وہ ماتم کرنے آئے تھے ؟ کیا وہ زیرِ خاک ہونے آئے تھے ؟

وہ تو آئے تھے تُمیں یہ باور کرانے کے لیئے کہ غلام کی زِندگی یہی ہے جِس کا وطن غیروں کی چھاؤنی بن جائے ، جس کا وطن جنگ کا معشوق بن جائے وہاں لوگ لاشوں کی صورت میں آپ کو ہر روز مِل جاتے ہیں تا کہ  آپ کو یہ احساس اور یہ باور ہوجائے کہ یہ ریاست آپ کو لاشوں کہ سِوا اور کُچھ نہیں دے سکتا ، اِس ریاست سے کوئی اِنصاف کی توقع نہ کرے ، یہ آپکے چیخ اور پُکار کو سُننے کے لیئے تیار نہیں ہے اور وہ تُمہارے نوجوانوں کی لاشوں کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے !

ماؤں کی چیخیں ، سمی کی نم آنکھیں شال کی سرد پُوشاک میں ، زاکر کی ماں کی دامُن سے باندھا وہ شرارتی لڑکا ، شبیر کی بیوی کا وہ دُلھن جیسا چہرہ ، عظیم دوست کی بہن کا وہ انتظار کے لحمے ، حیات کا وہ علم کا قلم جو لہو سے تر ہوگیا ، برمش کا وہ زخمی بدن ، ملک ناز کی گِرھبان پر گولیوں کی نشان ، زیارت کی وادیوں میں وہ خوبصورت چِہرے ، فاروق کا وہ جاڑیوں میں گِرا ہوا لاش ، ہوشاپ کے کمسن بچوں کی وہ لاشیں شال کی سرد بدن میں دفن ہوگئے اور بالاچ کی لاش بھی آج کوہ مراد کی دامُن میں دفن ہونے جارہا ہے ۔

کیا اِن لاشوں کو اِنصاف مِلا یا آپ لوگ بھول گئے ہونگے ؟

نہیں اِنصاف یہ ریاست نہیں دیگا لیکن انصاف اِس جنگ نے کیا اِن لاشوں کے ساتھ ، اِس جنگ نے اُنہیں اپنایا کہ ہاں یہ میرے دامُن میں گِرے ہوئے لاش تھے اور میں اِن کے ساتھ ضرور اِنصاف کرونگا اور انصاف ہوگیا اور ہورہا ہے ہر جنجگجو کے صورت میں ۔

اِن لاشوں کو دفن نہ کرو ، اِن لاشوں کو آزاد کر دو ، اِن کا جو پُکار اور چیخ تھا اُس کو سُنو ، اِن کو کُھلی ھوا میں سانس لینے دو ، اِن کو تابوتوں میں بند نہ کرو ، اِن کو جینے دو ، اِن کو لاش تصور نہ کرو ، اِن کو اپناؤں ، اِن کی فکر اور سوچ کا پابند رہو ، اِن لاشوں پر سیاست نہ کرو ، اِن لاشوں پر اپنی وکالت پیش نہ کرو ، اِن لاشوں کی روح کو اِس سرزمین پہ گھومنے دو ، یہ سرزمین اُنہی کا ہے ، یہ وطن اُنہی کا ہے ، یہ چمن اُنہی کا ہے ، اُن کو عدالتوں کے سامنے پرایہ کرنے کی کوشش نہ کرو اور اُن کو جنگ کی آغوش میں ڈونڈ لو ، اِس جنگ کو اپناؤں کیونکہ یہ جنگ ہی تُمھیں انصاف دیگا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔