امریکہ کا ایک بھارتی سرکاری عہدہ دار پر سکھ رہنماء کے قتل کی سازش کا الزام

77

امریکی وفاقی استغاثہ نے ایک ایسےشخص پر جس نےبھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے “سینئر فیلڈ آفیسر” ہونے کا دعویٰ کیا تھا، سکھ علیحدگی پسند تحریک کے رہنماء کے خلاف جو ایک امریکی شہری ہیں، قتل کی ناکام سازش تیار کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بدھ کو امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے منظر عام پر آنے والی دستاویزات میں بھارتی اہلکار کا نام نہیں بتایا گیا ہے لیکن کہا گیا ہے کہ وہ نئی دہلی میں ایک سرکاری دفتر میں دوسروں کے ساتھ کام کرتا تھا اور اس نے قتل کا بندوبست کرنے کے لیے ایک بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی تھیں۔

وفاقی استغاثہ نے الزام لگایا کہ بھارتی اہلکارنے گپتا کے ساتھ بار بار رابطہ کیا اور انہوں نے سکھ سیاسی رہنماء کے قتل کے معاوضے کے ایک لاکھ ڈالر میں سے، پیشگی ادائیگی کے طور پر گپتا کو 15 ہزار ڈالر دیے تھے۔

52 سالہ گپتا، کو، جو اس وقت جمہوریہ چیک میں زیر حراست ہیں، امریکہ کی تحویل میں دیا جائے گا، انہیں مبینہ سازش کے سلسلے میں امریکہ میں کرائے کے قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔

’سکھس فار جسٹس” نامی تحریک کے رہنماء، اٹارنی گورپتونت سنگھ پنوں نے، جن کے پاس امریکہ اور کینیڈا کی دوہری شہریت ہے، اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ ایک ہدف ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت انہیں بھارتی حکومت پر تنقید کرنے اور ایک آزاد ریاست خالصتان کی وکالت کرنے کی وجہ سے قتل کرنا چاہتی ہے۔

امریکی اٹارنی ڈیمیئن ولیم نے ایک بیان میں کہا، “ملزم نے بھارت سے یہاں نیویارک شہر میں، ایک ایسے بھارتی نژاد امریکی شہری کو قتل کرنے کی سازش کی، جس نے کھلے عام سکھوں کے لیے ایک خودمختار ریاست کے قیام کی وکالت کی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا “ہم امریکی سرزمین پر امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔”

ملزم نے جس ‘ہٹ مین’ کا انتخاب کیا تھا وہ دراصل ایک خفیہ ایجنٹ تھا۔ امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس آپریشن کا پتہ چلا کر اس کو درہم برہم کردیا۔

بدھ کے روز کھولی جانے والی ایک “سپرسیڈنگ” فرد جرم کے مطابق گپتا نے ایک ایسے فرد سے رابطہ کیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ایک مجرمانہ ساتھی ہے، لیکن جو دراصل ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی(DEA) کے ساتھ کام کرنے والا ایک خفیہ ذریعہ تھا۔

گپتا نے ذرائع سے نیو یارک سٹی میں ہدف (سکھ رہنماء) کو قتل کرنے کے لیے ہٹ مین کو معاہدہ کرنے میں مدد کے لیے کہا۔

فرد جرم کے مطابق خفیہ ذریعے نے گپتا کا تعارف ایک مبینہ ہٹ مین سے کرایا جو درحقیقت ایک امریکی قانون نافذ کرنے والاخفیہ افسر تھا۔

ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کی ایڈمنسٹریٹر این ملگرام نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ “جب ایک غیر ملکی سرکاری ملازم نے مبینہ طور پر امریکی سرزمین پر ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی منشیات کے اسمگلر کو بھرتی کرنے کا ڈھٹائی سے ارتکاب کیا، تو DEA اس سازش کو روکنے کے لیے موجود تھا۔”

گپتا کو مبینہ طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ اگر نیویارک کا قتل فوری طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے، تو وہ قاتل سے کہیں کہ وہ 22 جون کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے ریاستی دورے کے اختتام تک انتظار کرے۔

اخبارواشنگٹن پوسٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کو اس مبینہ سازش کے بارے میں اس کے اگلے ماہ کے آخر میں علم ہوا اور اس نے یہ معاملہ بھارتی حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھایا۔

اخبار نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ اگست کے شروع میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے خطے کےایک اور ملک میں اپنے ہم منصب اجیت ڈوول سے ملاقات کے دوران ذاتی طور پر اپنے خدشات شئیر کیے۔

اسی پیغام کو بعد میں سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے اس وقت آگے بڑھایا جب وہ بھارت کی ایکسٹرنل انٹیلی جنس ایجنسی کے ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ کے سربراہ روی سنہا سے ملنے کے لیے نئی دہلی گئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر بائیڈن نے بھی اس معاملے کو اس وقت اٹھایا جب وہ ستمبر میں نئی دہلی میں گروپ آف 20 سربراہی اجلاس میں مودی سے دوبارہ ملے۔

نیویارک کی اس سازش کے بارے میں پہلی بار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے گزشتہ ہفتے کہا، “جب الزامات سامنے آئےتو انڈین ہم منصبوں نے حیرت اور تشویش کا اظہار کیا” ۔

ایڈرین واٹسن کے مطابق، “انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی سرگرمی ان کی پالیسی نہیں ہے۔”

بھارت کی حکومت نے اپنے ملوث ہونے کے الزامات کی چھان بین کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری قائم کی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ امریکی حکومت نے کچھ معلومات شیئر کی ہیں اور بھارت”اس طرح کی معلومات کو سنجیدگی سے لیتا ہے کیونکہ وہ ہمارے قومی سلامتی کے مفادات پر بھی اثر ڈالتے ہیں اور متعلقہ محکمے پہلے سے ہی اس معاملے کی جانچ کر رہے ہیں”۔