لیڈر: ایک جانب دارشاگردکی رائے ۔ ساجد بلوچ

383

لیڈر: ایک جانب دارشاگردکی رائے 

تحریر: ساجد بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

زی شعور اور تجربہ کار لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ “لیڈر کا انتخاب ہر وقت سوچ سمجھ کے ساتھ کریں۔”

میں اس بات پر تہہ دل سے یقین کرتا ہوں لیکن اکثرایسا ہوتا نہیں ہےجس کے نتائج پارٹی ،تنظیم اورقوم کوبھگتناپڑتاہے ،سیاست کو ایک طرف رکھ دیں ،آج میں اپنے لیڈرکے بارے میں اپنے دل کی بات آپ سے شیئرکرتاہوں لیکن پہلے اقرارکرتاہوں کہ میں اپنے لیڈرکے بارے میں جانب دارہوں کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ میں کوئی غیرجانبدارتجزیہ کار ہوں البتہ جوبھی لکھتاہوں دل سے لکھتاہوں۔

میں اپنے لیڈر سے پہلی بار 7 مارچ 2011 کو”نامعلوم”مقام پر ملا،چند روزکے بعد انہیں تھوڑی بہت سمجھنے کے بعدسے لے کر آج تک انہیں میں اپنا مرشد مانتاہوں خواہ ہمارا ملنا ایک حادثہ تھا لیکن یہ ایک خوبصورت حادثہ تھا،اس حادثے نے میری زندگی پلٹ کے رکھ دی ،میں ایک چرواہا، دھاڑی دار مزدور تھا، میں نے اپنی زندگی میں اسکول کی منہ تک کبھی نہیں دیکھا تھا ان کی شخصیت کے زیرسایہ میں نے تھوڑی بہت پڑھنا،لکھناسیکھ لیا،زندگی کو نئے زاویے سے سمجھنا شروع ہوا ۔

میں اس بارے میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ان کی ہمراہی میں چند دن، مہینے چلنے کا موقع ملا ،میں نے انہیں ماں کی طرح مہربان پایا،باپ کی طرح سرپرست اورلیڈرکی طرح رہنمااور رہبردیکھا، جفاکشی میں ہم سب نوجوانوں کو مات دیتا،میلوں کی مسافت طے کرنے کے باوجود خصوصی خدمت کاطلب گارنہیں ہوتابلکہ اپنی “چاگل” میں خود پانی بھرتا،اپنی نمبرپہ لنگری سنبھالتا، کپڑے دھونے میں انتہائی مہارت رکھتاہے اورہاں مشکل حالات میں نیند کے آغوش سے دوررہتا۔

میں مانتاہوں کہ بطور انسان ان میں بھی خامیوں کی گنجاش ہے،اگرکوئی نشاندہی کرے تو میں ان کا دفاع بھی نہیں کروں گاآپ کہہ سکتے ہیں مجھے ان کی خامیوں کے بارے میں بات کرنے کی جرات نہیں، یہ آپ کا کام ہے میری طرح بے جرات نہ بنیں خامیاں ضرورتلاش کریں لیکن أسباب بھی زیرنظررکھیں۔

میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں جناب کے بارے میں جانب دار ہوں ان میں جو خوبیاں میں نے محسوس کی وہ بیان کرنے کی کوشش کرتاہوں، میں نے انہیں کبھی جذباتی ہوتے نہیں دیکھا، ان کی زبان و بیان میں حواس باختگی نہیں دیکھا ،ان کا ایک بڑاپن یہ ہے کہ کبھی کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتے، اپنی موقف پہ اٹل رہتے ہیں لیکن بات جب اپنوں کے بیچ کی ہوتی ہے تو دونہیں چار قدم بھی پیچھے ہٹنے سے گریزنہیں کرتےکیونکہ اپنوں سے مقابلے میں “جیت” کوبھی اپنی شکست مانتے ہیں (اس بارانہوں نے یہی کیا)۔

میں نے اپنے چندسالہ میدان میں سفرکے دوران صبر ایوبی صرف واجہ خلیل میں دیکھا ہے،آج مجھے کہنے دو،میرالیڈر،میرامرشدواجہ چیئرمین خلیل بلوچ ہے ،آج میرے پاس کچھ نہیں ،کچھ بھی نہیں لیکن آپ کے رہبری میں گزارے دن میری زندگی کاسرمایہ ہیں لہٰذا میں امیر ہوں ،بادشاہ ہوں آج قارون کا دولت میرے پاس ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔