بیرون ملک بلوچوں سے اِستدعاء ۔ گوران زَرّیں مہر

210

بیرون ملک بلوچوں سے اِستدعاء

تحریر: گوران زَرّیں مہر

دی بلوچستان پوسٹ 

 

یوں تو ۱۹۴۷ سے قابض پاکستانی ریاست کے خلاف بلوچوں کی جنگ آزادی چل رہی ہے، لیکن ۲۰۰۵ کے بعد یہ جنگ شدّت اختیار کرچکی ہے۔ریاستی گُماشتے، جاسوسی اور فوجی اِدارے پچھلے ۷۵ سال سے بلوچوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ہزاروں بلوچ شہید کیے گئے ہیں اور ہزاروں قید وبند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔بلوچستان میں کوئی ایسا گھر نہیں جو اِن کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو۔عرصہ دراز سے بلوچ مائیں اور بہنیں کوئٹہ ، کراچی اور بلوچستان کے دوسرے شہروں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں، لیکن قابض ریاست اور ریاستی اِداروں کے کانوں تک جوئیں نہیں رینگتیں۔

بلوچستان میں ہرجگہ اور ہر اِدارے میں آئی ایس آئی کے کارندے موجود ہیں جو اپنے آقاوں تک معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں، اِس کے علاوہ ریاستی دَلّال اور ڈیتھ اِسکواڈ کی ایک بہت بڑی تعداد بھی آئی ایس آئی کے پیرول پر بروقت موجود رہتی ہے جو برادر کُشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔

ایک مستند رپورٹ کے مطابق اِس وقت سرکاری اینٹلیجنس اِدارے سترہزار{۷۰،۰۰۰} فیک آئی ڈیز سوشل میڈیا میں مختلف ناموں سے استعمال کررہے ہیں اور اِس کام کو سرانجام دینے کے لیے بیس ہزار{۲۰،۰۰۰}لوگوں کو ہائیر کیا گیا ہے جو بالواسطہ اور بلا واسطہ سوشل میڈیا میں بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں ، بلوچ آزادی پسند، سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں کے خلاف معلومات اکٹھا کرتے ہیں، اُن پر تجزیہ کرکے تنظیموں کے درمیان اِبہام پیدا کرتے ہیں اور زبردست مہم چلاتے ہیں۔اِن میں بیشتر بلوچ لڑکوں اور لڑکیوں کے نام اِستعمال ہوتے ہیں، جوکہ بلوچ نہیں ہیں۔لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس کام کو سرانجام دینے کے لیے بلوچ لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعدادپیرول پر بھی موجود ہے جو بہم معلومات پہنچاتے رہتے ہیں اور کینٹ میں بیٹھے سوشل میڈیا ایکسپرٹ انہی معلومات کو سازشی بیانیے کے ساتھ سوشل میڈیا میں پوسٹ کردیتے ہیں، جو عام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

لیکن ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ عام ، غیرسیاسی اور کم تعلیم یافتہ بلوچ تو اپنی جگہ سیاسی جہدو جہد کرنے والے تعلیم یافتہ بلوچ بھی ریاستی سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جن کی ایک بہت بڑی تعداد اُن سیاسی پناہ گزینوں کی ہے جو یورپ، امریکہ اور ایشیا ء کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔

اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بیرون مُلک بلوچ سیاسی کارکن سیاسی معاملات پر اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے سیاسی معاملات کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر سوشل میڈیا میں الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا میں اندرونی اختلافات پر اِس طرح بحث کرتے ہیں جیسے ہوٹل کے سامنے تھڑے پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ ایسے کارکن جو پچھلے بیس یا پچیس سال سے بلوچستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں ، اُنہیں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا پتہ صرف سوشل میڈیا سے ہی چلتا ہے، اور ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا میں مشتہر ہر بات صحیح ہو۔

اِس تناظر میں جو بھی سیاسی کارکن سوشل میڈیا میں اپنے دِل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دوسرے فرد، گروہ یا تنظیم پر الزام تراشی کرتا ہے تو وہ پاکستان اور آس پاس کے ممالک کے اینٹلجنس اِداروں کا کام آسان کردیتا ہے، جس سے وہ فرد، گروہ ، سیاسی طور جدجہد کرنے والی پارٹیوں اور مزاحمتی تنظیموں کے خلاف ڈیٹا کلکشن کرتے ہیں اور اُن کے اسٹرکچر میں موجود کمزوریوں کا معائنہ اور مشاہد ہ کرتے ہیں اور اُن کے اندر اختلاف پیدا کرنے میں اپنی مشینری استعمال کرتے ہیں۔اِس طرح اینٹلجنس اِدارے اپنے اہداف تک با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔

بیرون ملک سیاسی کارکن ہوں یا پاکستان ، ایران اور افغانستان میں جہدکار سب کو سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کونسی پوسٹ شئیر یا لائیک کرنی ہے اور کونسی پوسٹ نہیں۔ کبھی کبھار جانے انجانے میں ایسی پوسٹیں شئیر ہوتی ہیں، جس سے مجموعی طور پر بلوچ قوم کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔

بیرون ملک سیاسی کارکن شاید یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی صرف سیاسی جدوجہد سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے،اور بلوچستان میں جو مزاحمتی جنگ چل رہی ہے ،اِس سے آزادی نہیں ملنے والی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا یہ خیال غلط ہے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طاقتور ممالک اور عالمی طاقتیں کبھی بھی نعروں پہ یقین نہیں رکھتے۔ اُن کے اپنے سیاسی ، معاشی اور جغرافیائی مفادات ہوتے ہیں ، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مفادات کی جنگ میں طاقتورکبھی مظلوم کا نہیں بلکہ ہمیشہ طاقتور ہی کا ساتھ دیتا ہے۔بلوچ کی طاقت اِس وقت مزاحمت، آزادی کی جنگ ، شعوری سیاست اور معاشی صلاحیتوں میں پنہاں ہے، جس دِن عالمی طاقتوں کو پتہ چل گیا کہ بلوچ طاقتورہوگئے ہیں اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرسکتے ہیں تو وہ بلوچ کے ساتھ ہاتھ ملانے دو قدم آگے بڑھیں گے، لیکن اِس وقت یہ سوچنا کہ یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر سوشل میڈیا میں اپنا بیانیہ شئیرکرنے سے آزادی ملے گی، سراسر خام خیالی ہے۔

میری بیرون ملک بلوچ سیاسی کارکنوں سے گزارِش ہے کہ اپنے سیاسی مسائل باہمی افہام و تفہیم سے حل کریں اور ہر بات سوشل میڈیا پر نہ لائیں۔بیرون ملک جتنی بھی سیاسی یا انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں آپس میں اِس بات پر متفق ہوجائیں کہ اُن کا مسئلہ بلوچستان میں ہونے والے ظلم و بربریت سے چھٹکارا اور بلوچستان کی آزادی ہے، اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیاسی کارکن جس مقصد کےلیے بیرون ملک چلے گئے ہیں، اپنی سیاسی ذمہ داریوں کا پاس رکھتے ہوئے اُس بیانیے کو سپورٹ نہ کریں جس سے پاکستان، ایران اور آس پاس کے ممالک کی ایجنسیوں کو بلوچ آزادی پسند اور بلوچستان کی آزادی کو سپورٹ کرنے والے عام لوگوں کو گزند پہنچے۔

بیرون ملک بلوچ سیاسی کارکن مسلح جد وجہد کرنے والی تنظیموں کو مورد الزام ٹھرانے کے بجائے اُنہیں اخلاقی اور مالی مدد فراہم کریں ، تاکہ دشمن کی بیخ کنی کی جاسکے اور قبضہ گیر پاکستانی و ایرانی افواج کو بلوچ سرزمین سے نکالنے میں مدد مل سکے۔ بلوچستان میں موجود مزاحمتی تنظیمیں بلوچ وطن کی آزادی کے لیے مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کررہی ہیں۔ اِس جنگ میں ہزاروں بلوچ نوجوان شہید ہوئے ہیں اور ہزاروں اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

اِن حالات میں ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا کو اپنے کاز کے لیے صحیح طورپہ استعمال کریں۔ اُن چھوٹے چھوٹے اور جزوی مسائل کو سوشل میڈیا پہ ڈسکس ہی نہ کریں جس سے ہمیں نقصان اُٹھانا پڑے۔ جب ریاست پاکستان و ایران کے خفیہ اِدارے اپنے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کو ٹُول کے طورپر استعمال کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔ ہمیں سوشل میڈیا پہ بلوچستان کی آزادی کے بیانیے کو سامنے لانے کی ضرورت ہے نہ کہ ریاستی بیانے کی۔

ایک بار پھر بیرون ملک سیاسی کارکنوں سے اِستدعاء کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا میں جب بھی کوئی پوسٹ کریں تو سوچ سمجھ کے پوسٹ کرلیں، کیونکہ کہ بلوچستان کا مسئلہ مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور اگر سنجیدہ مسئلے کو مذاق سمجھ کر ایک دوسرے پر ہنسیں گے تو دُشمن اِس سے اِستفادہ حاصل کرے گا۔


 

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔