بلوچستان سانحات کی سرزمین ۔ حکیم واڈیلہ

120

بلوچستان سانحات کی سرزمین

تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان جو تاریخی اعتبار سے بلوچوں کی سرزمین ہے، اب حادثات، واقعات اور سانحات کی سرزمین بن چُکی ہے۔ بلوچستان میں حادثات، واقعات اور سانحات اس قدر تیزی سے جاری و ساری ہیں کہ آپ یہ بھی فیصلہ نہیں کرسکتے کس سانحہ، واقعہ یا حادثہ پر لب کشائی کریں، کس واقعہ پر تحریر کریں یا کس حادثہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔

بلوچستان جہاں سے ہر ایک خبر، ہر ایک کہانی، ہر ایک داستان، ہر ایک بیان، ہر ایک افسانہ، ہر ایک نغمہ، ہر ایک گیت، ہر ایک مضمون، ہر ایک تحریر، ہر ایک تقریر، ہر ایک غزل، ہر ایک نظم، ہر ایک انسان، ہر ایک گھر، ہر ایک قبیلہ ہر ایک پہاڑ، ہر ایک نہر، ہر ایک ندی، ہر ایک گاؤں، ہر ایک محلہ، ہر ایک شہر یہاں تک کی بلوچستان فضائیں اور ہوائیں بھی چیخ چیخ کر یہاں ہونے والی بربریت، ظلم، جبر، وحشت اور انسانیت سوز اقدامات کو بیان کرتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علاقائی ؤ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی ادارے، آزادی ؤ برابری پر یقین رکھنے والی مہذب اقوام اور ریاستیں، ہمسایہ ممالک تمام نے بلوچستان میں جاری انسانیت سوز بربریت پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ اور بلوچ قوم کو ظلم، جبر، تشدد اور بربریت کی دہایوں سے نہ رکنے والی سائکل میں دھکیل دیا ہے۔

بلوچستان میں جاری حادثات و واقعات اپنی نوعیت کے انوکھے واقعات ہیں، بلوچستان میں موجودہ جاری جبر ویسے تو لگ بھگ گزشتہ دو دہایوں سے تسلسل سے جاری ہے لیکن اب اس جبر کی شدت و نوعیت میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنی کو مل رہی ہیں۔

بلوچستان میں حالیہ جبر و مظالم کی تاریخ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والے ان پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستانی فوج نے بلوچستان میں بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان، طلباء تنظیموں کے رہنماوں اور سماجی کارکنان پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ بلوچستان کے حوالے سے جنرل مشرف کی آمرانہ پالیسیوں پر پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، پی ٹی آئی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت اور اب نگران حکومت عمل پیرا ہیں، البتہ اب ان پُرتشدد اور جابرانہ پالیسیوں کا شکار بلوچ خواتین اور بچے بھی ہیں۔

بلوچستان اور بلوچستان سے باہر بلوچ طلباء، سیاسی و سماجی کارکنان روزانہ کی بنیادوں پر جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں، جس کی تازہ ترین مثال اسلام آباد کے پنجاب یونیورسٹی سے فرید بلوچ کی دن دہاڑے متعدد عینی شاہدین کے سامنے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے جبری گمشدگی کا واقعہ ہے۔ جس کیخلاف فرید بلوچ کی مزاحمت اور پھر عوامی ردعمل سے خائف ہوکر انہیں منشیات فروشی کے جھوٹے مقدمے میں نامزد کرکے پولیس کی تحویل میں دیا گیا ہے۔

فرید بلوچ کا واقعہ انکی گمشدگی کی کوشش، انکا چیخنا، مزاحمت کرنا، خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش ایک بات واضح کرتا ہے کہ اگر آپ مزاحمت کرینگے، آپ شورمچائینگے، آواز اٹھائنگے تو یقیناً آپکی مزاحمت، آپکی جدوجہد کامیاب ہوگی۔ فرید بلوچ اور ان جیسے سینکڑوں نوجوانوں کو نہ صرف ریاستی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگی کا سامنا ہے بلکہ وہ روزانہ کی بنیادوں پر نسلی تعصب اور پروفائلنگ کا بھی شکار ہیں۔

بلوچ طلباء کو بلوچستان کی یونیورسٹیز میں ریاستی سرپرستی میں موجود اسٹاف کی جانب سے دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں ڈرایا جاتا ہے، انکی سیاسی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں پر پابندی لگاکر بلوچ نوجوانوں کی شعوری پرورش پر روک لگا کر انہیں سوچنے، سمجھنے، سوال کرنے، اپنی حقوق اور تاریخی حقائق سے نابلد رکھنے کی کوشش اس لئے کی جارہی ہے تاکہ بلوچ اپنے ہی وطن بلوچستان میں بیگانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ وہ بلوچستان میں جاری ظلم، جبر کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے قومی استحصال پر خاموشی اختیار کرلیں۔

پاکستانی ریاست بلوچستان سے نہ صرف گیس، تانبہ، سونا، بلوچستان کے ساحل اور دیگر معدنیات کی لوٹ مار میں ملوث ہے۔ بلکہ بلوچستان کو ایک مکمل تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے، جہاں یکے بعد دیگر تجربات کئے جاتے ہیں۔ جن میں سیاسی تجربات سمیت، ایٹمی دھماکوں جیسے انتہائی مہلک اور انسانیت سوز تجربات بھی شامل ہیں جنکی حالیہ مثالیں ڈیرہ غازی خان میں فائر کی گئی ابابیل میزائل کے تجربہ کے طور پر ملتی ہیں جو ڈیرہ بگٹی کے آبادی والے علاقوں میں جاگرا تھا۔

بلوچستان میں پاکستانی ریاست نے ظلم و جبر کے تمام حدود پار کر رکھے ہیں، بلوچستان میں بیروزگاری عروج پر ہے۔ تمام ذریعہ معاش پر قدغن لگائی جاچکی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بلوچ نوجوانوں کی خاطر حصول تعلیم کو انتہائی مشکل کردیا گیا ہے، وہاں تعلیمی سرگرمیوں سے زیادہ انہیں کبھی زبردستی کسی میجر کے تقاریر سنائے جاتے ہیں، تو کبھی غیر ضروری طور پر انہیں حراساں کرنے کی خاطر اُنسے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ منشیات فروشی کو عام کردیا گیا ہے۔

ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں، انکے شر سے عام بلوچوں سمیت، سیاسی، سماجی، کاروباری، قبائلی، مذہبی الغرض کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں، اور ان ڈیتھ سکواڈز کیخلاف کسی بھی طرح کا ایکشن لینے کے بجائے پاکستانی وزیر اعظم سمیت بلوچستان کی کٹھپتلی پارلیمنٹ انکی پشت پناہی کرتے ہوئے انکے جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے انکی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

بلوچستان یقیناً بے شمار مسائل سے دوچار ہے، انکی نوعیت بھی مختلف ہیں، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین ہے، بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، بلوچستان میں بیروزگاری، منشیات فروشی، چوری چکاری، ڈیتھ سکواڈز کی غنڈہ گردی، مذہبی شدت پسند تنظیموں کے بڑھتے رجحانات سمیت خودکشیوں کے واقعات بھی سنگین شکل اختیار کررہے ہیں۔ بلوچستان میں انفراسٹرکچر کے بھی سنگین مسائل موجود ہیں۔ بلوچستان میں بلاشبہ ایک سے بڑھکر ایک سنگین مسئلہ موجود ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان میں موجود اور پائے جانی والی تمام مسائل کی بنیادی وجہ بلوچ قومی غلامی ہے۔

ان تمام مسائل کا براہ راست تعلق بلوچ قومی غلامی اور بلوچ سرزمین پر بیرونی یلغار سے ہے۔ معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان میں اکیسویں صدی میں لوگوں کا فاقہ کشی میں زندگی گزارنا، سالوں سال جبری گمشدگی کا شکار ہونا، بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنا، یا پھر حصول علم کی تلاش میں یونیورسٹیز کا رخ کرتے وقت یہ خیال دل میں آنا کہ یونیورسٹی میں تعصبی رویہ اختیار کیا جائیگا، ہمیں بلاوجہ تشدد کا نشانہ بنایاجائیگا، جبری گمشدگی کا نشانہ بنایاجائیگا، یہ وہ تمام بربریت ہیں، خوف پیدا کرنے کے ماحول ہیں، لوگوں میں وحشت ڈالنے کی کوشش ہیں، جو بلوچوں کی غلامی کو طول دینے کی پاکستانی ریاست، پاکستانی فوج، پاکستانی خفیہ اداروں، پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی سرپرستی میں چلنے والی ڈیتھ سکواڈز کی پالیسی کا شاخسانہ ہیں۔

پاکستانی ریاست کی ان پالیسیوں، ان بربریتوں، ان مظالم کا سامنا کرنے کی خاطر بلوچ طلباء تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور مسلح تنظیموں تمام کو بہتر پالیسی مرتب دینے کی ضرورت ہے۔ ریاستی مظالم کا سامنا کرنے سمیت بلوچ قومی مؤقف، بلوچ قومی بیانیہ، بلوچ قومی سوال اور قومی سوال کے حل کی خاطر، واضح اور بہتر پلاننگ، مسلسل جدوجہد، اور انتھک عمل کرنے کی ضرورت ہے، جس کا واضح مقصد بلوچ قومی آزادی، اور بعداز آزادی ایک خوشحال ؤ بہتر مستقبل ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔