کراچی ۔ ایاز بلوچ

137

کراچی

تحریر: ایاز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

کراچی تاریخی اعتبار سے بلوچ سیاست کا مرکز رہا ہے۔ ہر دورمیں مشکلات و مصائب کے باجود کراچی بلوچوں کی سیاسی ، سماجی ، ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے بلوچوں کی سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کے سبب بلوچ قومی تحریک میں کراچی کا ایک فعال کردار رہا ہے ،اور یہی سیاسی جدوجہد ریاست کیلئے دردِ سر تھی جبکہ ریاست کی ہمیشہ کوشش تھی کہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے کراچی میں سیاسی خلا ء پیدا کیا جائے اور بلوچ قومی تحریک میں کراچی کا کردار ہمشیہ مثبت رہا اور لیاری میں ہمیشہ علمی و ادبی پروگرامز ہوا کرتے تھے اور آج بھی لیاری لٹرری فورم کی شکل میں ادبی پلیٹ فارم موجود ہیں انہی مثبت رویوں کی وجہ سے پاکستان نے کراچی کے بلوچ علاقوں میں منشیات فروشی کو سرعام کردیا ابتدائی مراحل میں گولیمار اور لیاری میں بعد میں ماڑی پور ،ملیر،فقیرکالونی،شیرشاہ گلبائی،ڈالمیا بلیجی اور مبارک ولیج سمیت تمام بلوچ علاقوں میں منشیات فروشوں کا راج تھا اور بعد انہی منشیات فروشوں کو ہتھیار ہاتھ میں دیا گیا اور بلوچوں کو آپس میں لڑایا گیا۔

اسی طرح کراچی کے بلوچ علاقوں میں خون ریزی کا آغاز ہوا اور منشیات فروش بعد میں گینگ وار کے نام سے جاننے لگے رحمان ڈکیٹ،عزیر ،ارشد پپو, نور محمد عرف بابا لاڈلہ اور غفار زکری کو سامنے لایا گیا اور یہ نام دہشت کی علامت بن گئے ان کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ مارے گئے تھے اور جب ریاست کو ان لوگوں کی ضرورت نہیں رہی تو رینجرز وار شروع کیا گیا کہانی وہی ہے بس کردار گینگ وار سے رینجرز کو دیا گیا اب کی بار رینجرز کو مکمل چھوٹ دیا گیا اور رینجرز نے عام بلوچوں کو گینگ وار کے نام قتل کرنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور یہ سلسلہ رکا نہیں۔ گینگ وار اب بھی موجود ہے منشیات فروشوں کی شکل میں اور انہیں سرکار کی جانب سے مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ یہ چوری ڈکیٹی اور ہاں دن کی روشنی میں کسی کو بھی قتل کرسکتے ہے۔ کچھ دن پہلے پرانا گولیمار میں منشیات فروشوں نے طائر بلوچ کو اور لیاری کلاکوٹ میں یاسین بلوچ کو بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ریاست کی جانب سے ٹیسٹ ہے بلوچ عوام کا ریکشن دیکھنے کے لئے اگر بلوچ خاموش رہے تو خون ریزی کا تیسرا مرحلہ جلد ریاست کی جانب سے شروع ہوگا۔ لیکن اس بار بلوچ سمجھ گئے ہیں ہمیں جینا ہے، پڑھنا ہے ، فٹبال کے گروانڈز کو سجانا ہے، تو ابھی گھر سے نکلنا ہے، اپنے بچوں کی خاطر ریاست کی اس ٹول کو اب کی بار ناکام بنانا ہے تو سڑکوں پہ احتجاج کی شکل میں نکلنا ہے۔

میں کراچی کے تمام بلوچوں سے کہنا چاہتا ہوں کے یاسین اور طائر کے لئے احتجاج میں حصہ لیں کیونکہ یہ کلاکوٹ اور گولیمار کا مسلہ نہیں یہ کراچی میں رہنے والے تمام بلوچوں کا مسلہ ہے۔ طائر اور یاسین کو شاہد انصاف نہ ملے لیکن بہت سے یاسین اور طائر کی زندگی خطروں میں ہیں اب کی بار آپ لوگوں کو سسک سسک کر مرنا ہیں یا جینا فیصلہ آپ لوگوں کی ہاتھ میں ہیں جبکہ گزشتہ 13سالوں کے دوران کیا ہوا ہے آپ لوگوں نے اپنے آنکھوں سے دیکھیں ہیں ریاست تو بلوچ کی خون کا پیاسہ ہے۔ ریاست نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ کراچی میں قتل کیئے، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی ۔ ہزاروں گھر اُجڑ گئے ، ہزاروں خاندان دربہ در ہوئے ،ریاست جتنی شدت سے قتل عام کررہا ہے ریاست طاقت کے زور پر لوگوں کے ذہنوں کو فتح کرنا چاہتا ہیں لیکن افسوس کا امر یہ ہے کہ بلوچ اب تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کیوں مررہا ہے لیکن اب کی بار ریاست بھول چکا ہے یہ گینگ واروں کا کراچی نہیں بلکہ شہید گنجل اور عرف مزار جان کا کراچی ہے ریاست کی جبر کے خلاف ضرور مزاحمت کریںنگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔